منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
1933 میں ہٹلر اور نازی پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد تھامس کے یہودی والدین جرمنی سے چیکوسلواکیا ہجرت کر گئے۔ تھامس کے والد جرمنی میں ایک بینک میں کام کرتے تھے اور اس کے بعد انہوں نے لوبوچنا کی سلواکی بستی میں ایک چھوٹا سا ہوٹل خرید لیا۔ ان کے والد کے کئی دوست نازی حکومت کی ظالمانہ پالیسوں سے فرار ہو کر جرمنی سے چیکوسلواکیا میں آ کر ہوٹل میں ٹھہرے۔
1933-39: 1938 کے آواخر میں ہٹلر کا ساتھ دینے والے سلواکی فوجیوں نے ہمارے ہوٹل پر قبضہ کرلیا۔ ہم فرار ہوکر زیلینا نامی ایک قریبی شہر میں چلے گئے اور میری عمر 5 برس ہونے تک ہم وہيں رہے۔ اس کے بعد میرے والد ہمیں سرحد پار پولینڈ لے گئے۔ یکم ستمبر 1939 کو ہم انگلینڈ کی طرف روانہ ہونے والی کشتی میں سوار ہونے کیلئے ایک ریل گاڑی سے روانہ ہو گئے۔ لیکن اسی روز جرمن فوج نے پولینڈ پر حملہ کردیا اور ہماری ریل گاڑی بم دھماکوں کا شکار ہو گئی۔ ہم دوسرے پناہ گزينوں کے ساتھ شامل ہو کر شمال میں واقع کئلچے کی طرف روانہ ہوگئے۔
1940-45: کئلچے میں ہمیں ایک یہودی بستی اور پھر اس کے بعد ایک مزدور بستی میں رکھا گيا۔ سن 1944 میں مجھے اپنے والدین سمیت آشوٹز میں جلاوطن کردیا گیا۔ جنوری 1945 میں سوویت یونین کی پیش قدمی کرتی ہوئی فوج نے جرمنوں کو علاقہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں باہر چلا کر لے جایا گیا۔ بچے آگے اور باقی پیچھے۔ پہلے دن ہمیں 10 گھنٹوں تک چلایا گيا؛ ہم بہت تھک گئے اور ہم سست ہونا شروع ہو گئے۔ پیچھے رہ جانے والوں کو گولی سے مار دیا جاتا تھا۔ اسلئے میں نے دو لڑکوں کے ساتھ مل کر چلتے چلتے آرام کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا: ہم قطار کے آگے تک بھاگ کر جاتے اور پھر آہستہ آہستہ چلتے یا اُس وقت تک بالکل رک جاتے جب تک قطار کا آخری حصہ ہم تک نہ پہنچ جاتا۔ پھر ہم دوبارہ آگے بھاگنا شروع کردیتے تھے۔
تھامس تین بچوں میں سے ایک تھا جو تین دن کے جان لیوا مارچ سے زندہ بچ گئے۔ اسے سیخسین ھاؤسن جلاوطن کردیا گیا جہاں اپریل 1945 میں سوویت افواج نے اس کو رہا کرا لیا۔
پنچس وسطی پولینڈ کے جنوب میں واقع مئیچو نامی قصبے کے ایک بڑے خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والد مشین ساز اور تالا ساز تھے۔ پنچس نے تعلیم حاصل کرنے میں لمبے دن گزارے۔ کبھی یہودی اسکول میں عبرانی پڑھتا تھا تو کبھی سرکاری اسکول میں عام مضامین لیتا تھا۔ وہ یہودی نوجوانوں کی تنظیم ھا شومر ھا سائر سے تعلق رکھتا تھا اور ایک یہودی ساکر ٹیم میں لیفٹ ونگ کا کھلاڑی تھا۔
1933-39: 13 برس کی عمر میں ميں نے اسکول ختم کیا اور ٹھیکیدار کی دکان میں بطور اپرنٹس مشین ساز اور لوہار کام شروع کیا۔ 1939 میں جب جرمن فوج نے پولینڈ پر حملہ کیا تو میرے والدین نے فیصلہ کیا کہ میں اور میرا بڑا بھائی ہرشیل سوویت مقبوضہ پولینڈ کی طرف بھاگ جائيں۔ ہم پیدل سفر کر رہے تھے مگر گاڑیوں میں سوار جرمن ڈویژن ہم سے پہلے ہی مئیچو پہنچ گئی۔ گھر واپس لوٹ جانے کے علاوہ کوئی اور کوئی چارا نہ تھا۔
1940-44: میں مئیچو اور اس کے بعد کراکاؤ کے ائر بیس میں جرمنوں کی گاڑیوں کی مرمت کرتا تھا۔ 1943 میں مجھے پلازوا کے مضافات کراکاؤ میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں نازیوں نے ایک بہت پرانے یہودی قبرستان پر لیبر کیمپ تعیر کیا تھا۔ وہاں میں نے اپنے والد کے ساتھ بطور مشین ساز اور لوہار کام کیا۔ ہر روز میں اپنی آنکھوں سے ایس ایس کے گارڈ کے ہاتھوں یہودیوں کی موت دیکھتا تھا۔ ان کو کبھی گولیوں سے مارا جاتا تھا تو کبھی کتوں کو کھلایا جاتا تھا۔ کیمپ کے کمانڈر گوئتھ کے پاس ہمیشہ دو بہت بڑے کتے ہوا کرتے تھے۔ بس وہ صرف اتنا کہتا تھا "کسی کو ختم کر دو!"۔ میں ہمیشہ خوفزدہ رہتا تھا کہ میری موت کب آنیوالی ہے۔
1945 کے آغاز میں پنچس کو آش وٹز میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ وہ دو ہفتوں کے جان لیوا مارچ سے چند افراد کے ساتھ بچ گیا۔ اپریل میں ڈاخاؤ کیمپ کے قریب ان کو آزاد کر دیا گیا۔ 1948 میں انہوں نے امریکا ہجرت کر لی۔
للی کے یہودی والدین اس کی پیدائش سے پہلے ہی ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے۔ اس کی والدہ نقل مکانی کر کے برسلز آ گئی تھیں جہاں انہوں نے رین کوٹ تیار کرنے والا ایک کارخانہ چلایا۔ وہ اکیلے اپنے تین بچوں کی پرورش نہيں کر سکیں۔ للی سب سے چھوٹی بچی تھی۔ وہ اینٹورپ میں رہی اور اس کی پرورش اس کے دادا دادی نے اینٹورپ کے ڈائمنڈ ڈسٹرکٹ کے قریب ایک یہودی محلے میں واقع ایک اپارٹمنٹ میں کی۔
1933-39: میرے دادا موچی تھے اور ہمارے اپارٹمنٹ کے باہر کام کیا کرتے تھے۔ گاہک اپنے پیروں کا ناپ دینے کیلئے ہمارے گھر آتے تھے۔ ہم غریب لوگ تھے، اسلئے کسی نجی یہودی اسکول کے بجائے میں سرکاری اسکول جایا کرتی تھی۔ جب 1939 میں میری دادی انتقال کر گئیں تو میں اپنی والدہ کے ساتھ رہنے کیلئے برسلز چلی گئی۔ اسکول کے بعد کارخانے میں رین کوٹ تیار کرنے میں اپنی والدہ کی مدد کیا کرتی تھی۔ 10 مئی 1940 کو جرمنوں نے مغرب کی طرف سے حملہ کیا اور جمعہ 17 مئی 1940 کو جرمن افواج برسلز میں داخل ہو گئیں۔
1940-44: مجھے 1944 میں آش وٹز جلاوطن کر دیا گيا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں کیمپ کے ایک باورچی خانے میں کام کرتی تھی۔ ہنگری کی بھوکی یہودی عورتوں اور بچوں کا ایک گروپ پہنچا— ان کو دوسرے دن ہلاک کر دیا جانا تھا۔ اسلئے اس رات ان کو کھانا نہیں کھلایا گیا۔ میں نے ان کی بیرکوں تک چپکے سے آلو لے جانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی میں نے اندھیرے میں کھانا نکالا، ایک افراتفری شروع ہو گئی۔ اچانک چکا چوند کرنے والی روشنی پھیل گئی۔ بیرک کی لیڈر بہت غصے میں اندر آئی " میں تم کو مجرم ٹھہرا سکتی ہوں! تم کو گولی ماری جا سکتی ہے!" وہ مجھ پر چیخی۔ پھر اس نے آرام سے کہا "اپنی بیرکوں میں واپس جاؤ"۔ اگلے دن ہنگری کے اُن لوگوں کو گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔
للی برجن-بلسن کیمپ کی جانب جبری مارچ سے زندہ بچ گئی اور وہاں 15 اپریل 1945 کو اسے آزاد کر دیا گیا۔ 1946 میں وہ برسلز لوٹ آئی اور پھر امریکہ آ کر آباد ہو گئی۔
فرٹزی کے والد ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جا بسے۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ اپنے خاندان کو لیکر آتے، جنگ شروع ہو چکی تھی۔ فرٹزی کی والدہ کو ڈر تھا کہ بحر اوقیانوس میں جہاز رانی پر حملے شروع ہو جائیں گے۔ فرٹزی، اسکی والدہ اور اسکے دو بھائیوں کو آخر میں آش وٹز کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں اسکی والدہ اور اس کے بھائیوں کا انتقال ہو گیا۔ فرٹزی اپنے آپ کو اپنی عمر سے زيادہ ظاہر کر کے جسمانی طور پر زیادہ طاقتور کارکن کا تاثر دینے کی وجہ سے بچ گئی۔ وہ آش وٹز سے ایک موت کے مارچ کے دوران جنگل میں بھاگ گئی جہاں بعد میں اسے آزادی حاصل ہوئی۔
سن 1941 میں جرمنی نے ريگا پر قبضہ کر لیا اور یہودیوں کو یہودی بستی میں بھیج دیا گیا۔ 1941 کے آخر میں یہودی بستی سے تقریباً 28،000 یہودیوں کو ریگا کے قریب رمبولا جنگل میں اجتماعی طور پر ہلاک کر دیا گیا۔ اسٹیون اور اس کے بھائی کو تندرست آدمیوں کے لئے ایک چھوٹی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا۔ سن 1943 میں اسٹیون کو کائزروالڈ کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا اور ایک قریبی مزدور کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ سن 1944 میں اسے آش وٹز کیمپ بھیج دیا گيا اور پھر ایک بحری جہاز کے کارخانے میں اس سے جبری مشقت کروائی گئی۔ 1945 میں اسٹیون اور اس کے بھائی ایک موت مارچ سے زندہ بچ گئے اور انہيں سوویت فوجوں نے آزاد کرا لیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.