
موت کے مارچ
جنگ کے اختتام کے قریب جب جرمنی کی فوجی طاقت ختم ہونے لگی، اتحادی افواج نے نازیوں کے حراستی کیمپوں کے گرد گھیرا ڈالنا شروع کردیا۔ روس نے مشرق کے طرف سے اور انگریزوں، فرانسیسیوں اور امریکیوں نے مغرب کے طرف سے گھیراؤ کرنا شروع گیا۔ جرمنوں نے پریشان ہو کر سامنے والے کیمپوں سے قیدیوں کو نکال کر انہیں جرمنی کے اندر واقع کیمپوں میں جبری مزدوری کے لئے لے جانا شروع کردیا۔ قیدیوں کو پہلے ریل گاڑی کے ذریعے لے جایا گیا اور پھر پیدل لے جایا گيا۔ یہ سفر "موت کے مارچ" کے نام سے مشہور ہوئے۔
قیدیوں کو سخت سردی میں طویل فاصلوں تک لے جایا جاتا اور انہيں یا تو برائے نام کھانا، پانی یا آرام ملتا یا بالکل بھی نہيں ملتا تھا۔ پیچھے رہ جانے والوں کو گولی ماردی جاتی تھی۔ سب سے بڑے موت کے مارچ 1944-1945 کے موسم سرما میں ہوئے تھے جب سوویت فوج نے پولینڈ کی رہائی کا عمل شروع کیا۔ روسیوں کے آش وٹز پہنچنے سے نو دن قبل جرمن ہزاروں قیدیوں کو کیمپ کے باہر پیدل چلا کر پینتیس میل دور ووڈزیسلا نامی ایک قصبے میں لے گئے جہاں انہیں سامان کی گاڑیوں میں لاد کر دوسرے کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ راستے میں ان میں سے پچیس فیصد افراد مارے گئے۔
نازی اکثر مارچوں سے قبل، دوران یا بعد میں قیدیوں کے بڑے گروپوں کو مارڈالتے تھے۔ ایک مارچ کے دوران سات ہزار یہودی قیدیوں کو، جن میں سے چھ ہزار عورتیں تھی، ڈینزگ کے علاقے میں واقع کیمپوں میں لیجایا گیا۔ اِس مقام کے جنوب میں بالٹک سمندر واقع تھا۔ دس دن لمبے اس مارچ میں 700 افراد جاں بحق ہوگئے۔ ساحل سمندر تک پہنچنے والے مارچ کرنے والوں کو پانی میں لے جا کر گولی ماردی گئی۔