منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
موئشے راڈوم میں مقیم یدش زبانبولنے والے یہودی والدین کے ہاں پیدا ہوا۔ اس صنعتی شہر کی شہرت کی ایک اہم وجہ جنگی سازوسامان بنانے والی فیکٹریاں اور چمڑا سازی کے کارخانے تھے جہاں یہودیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اِن فیکٹریوں میں پہلے بہت سے یہودی کام کیا کرتے تھے۔ جب موئشے ایک نوجوان تھا، اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کر کے خواتین کا لباس تیار کرنے والے درزی کی تربیت شروع کر دی۔ موئشے نے ایک سرٹیفیکیٹ حاصل کر کے سند یافتہ درزی کے طور پر کام شروع کر دیا اور راڈوم میں آباد ہو گیا۔
1933-39: 1939 تک میں خواتین کے کپڑے بنانے والا ایک ماہر درزی بن گیا۔ مجھے مقامی سام دشمن تنظیمیں یاد ہیں جو یہودیوں کے خلاف پوسٹر آویزاں کیا کرتی تھیں اور یہودی کاروباروں کا بائیکاٹ کیا کرتی تھیں۔ یکم ستمبر 1939 کو جرمن افواج نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ سات دن بعد جرمن فوجی راڈوم میں داخل ہو گئے۔ پولش سام دشمنی جرمنوں کی سنگدلی کے مقابلے میں ماند پڑ گئی۔
1940-44: اپریل 1941 میں مجھے راڈوم کے باقی یہودیوں سمیت ایک یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گيا۔ 1942 میں جرمنوں نے مجھے اور دیگر درزیوں کو ایس ایس کی دوکان میں کام پر لگا دیا۔ اگست میں جرمنوں نے راڈوم میں موجود دو یہودی بستیوں کو ختم کر دیا اور ہزاروں لوگوں کو ٹریبلنکا حراستی کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ دیگر ہنرمند دستکاروں کی طرح مجھے جبری مشقت کیلئے یہودی بستی میں رہنے کیلئے منتخب کیا گیا۔ مگر ان کی پکڑ دھکڑ ختم نہیں ہوئی۔ ہم جبری مزدور پنجرے میں بے بس مرغیوں کی مانند ذبح ہونے کے منتظر تھے۔
دو سال بعد موئشے کو جرمنی ميں مزدور کیمپ میں جلاوطن کر دیا گيا۔ اس کو ایک ڈاخو کے قریب جبری مارچ کے دوارن آزاد کرا لیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ امریکہ ہجرت کر گيا۔
اٹزک، جسے ایزک کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا، یدش زبان بولنے والے یہودی والدین کے تبن بیٹوں میں سے ایک تھا۔ جب اٹزک چھوٹا بچہ تھا تو اس کا خاندان راڈوم کے شہر میں منتقل ہو گیا۔ اٹزک نے بطور نو آموز درزی کام کرنے کیلئے 11 برس کی عمر میں اسکول چھوڑ دیا۔ راڈوم اور وارسا میں کئی درزیوں سے کام سیکھ کر وہ اسکول واپس چلا گیا اور درزی کا لائسینس حاصل کر لیا۔
1933-39: 1938 میں 13 سال کے تعلق کے بعد خاندان کی مخالفت کے باوجود میں نے تاؤبے فشمین سے شادی کر لی جو میرے پہلے مالک کی بیٹی تھی۔ ہم راڈوم میں رہتے تھے جہاں میں نے 49 زیرومسکیگو اسٹریٹ پر اپنے اپارٹمنٹ میں اپنا کارخانہ کھولا تھا۔ جولائی 1939 میں ہمارا بیٹا میکس پیدا ہوا۔ ستمبر میں جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اور 8 ستمبر کو ہمارے شہر پر قبضہ کر لیا۔ جرمنوں نے ہماری گلی سے جبرا تمام یہودیوں کو نکال دیا۔ ہمارے لیے صرف اپنے پہنے ہوئے کپڑے چھوڑے گئے۔
1940-44: راڈوم یہودی کونسل نے رہنے کیلئے ہمیں ایک جھونپڑا دیا جس کو بعد میں یہودی بستی میں شامل کر لیا گيا۔ میں جرمنوں کیلئے کپڑے بناتا تھا جو مجھے اس کے بدلے میں کھانا دیتے تھے۔ 1942 میں مجھے اور دیگر درزیوں کو ایس ایس کی دکان میں کام کرنے کو بھیجا گیا۔ ایک رات اگست میں جرمن افواج یہودی بستی میں داخل ہوئیں اور لوگوں کو گولیاں مارنا اور جلاوطن کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے خاندان کو دکان میں چھپانے کی کوشش کی مگر ہمیں ایک چھاپے کے دوران پکڑ لیا گیا اور میری بیوی اور بیٹا مجھ سے چھین لئے گئے۔ مجھے جبری مشقت کیلئے یہودی بستی میں رہنے کیلئے منتخب کیا گیا۔
دو سال بعد اٹزک کو آش وٹز کے ذریعے ویاہنگین کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں اسے 5 اپریل 1945 کو فرانسیسی افواج کے ہاتھوں آزادی ملی۔ 1945 میں وہ امریکہ ہجرت کر گيا۔
ایٹا پولینڈ کے وسطی مشرقی علاقے میں واقع اسٹاراکووچ نامی ایک قصبے کے مذہبی یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے نو بچوں میں سے آٹھویں نمبر پر تھی۔ ان کا چھوٹا سا ایک منزلہ مکان خاندان کی رہائش گاہ کے ساتھ ساتھ درزی کی دکان بھی تھا۔ بیشتر اوقات کپڑے، دیگر اشیاء جیسے جلانے کی لکڑی یا آلو کی بوری کے عوض سئے جاتے تھے۔ ایٹا گھر کے چھوٹے موٹے گاموں میں اکثر اپنی والدہ کی مدد کیا کرتی تھی۔
1933-39: ایٹا کے والد جون 1939 میں ہفتے کے دن یہودی عبادت گاہ سے لوٹنے کے بعد گھر میں انتقال کر گئے۔ وہ تھوڑا سا آرام کرنے کیلئے بستر پر لیٹے مگر اچانک ان کے منہ سے خون نکلنے لگا۔ ان کے بھائی چونا ڈاکٹر کو بلانے کیلئے بھاگے مگر جب وہ واپس آئے تو اس کے والد انتقال کر چکے تھے۔ انہوں نے قصبے کے باہر ایک یہودی قبرستان میں انہیں دفنا دیا۔ ایٹا کی والدہ اور بڑے بھائی بہنوں نے درزی کی دکان کھلی رکھی۔ اس ستمبر میں جرمن فوجوں نے اسٹاراکووچ پر قبضہ کر لیا۔
1940-45: اکتوبر 1942 میں ایس ایس کے گارڈز نے قصبے میں رہنے والے یہودیوں کو منڈی میں جمع کیا۔ ایٹا کو، جو پہلے ہی سے ایک قریبی فیکٹری میں جبری مزدور تھی، "جسمانی طور پر موذوں" افراد کے ساتھ لائن میں چونا کے برابر کھڑا کر دیا گیا۔ ان کو ایک قریبی جبری مشقت کے کیمپ تک مارچ کروایا گیا جہاں ایٹا کو پولش مزدوروں کیلئے کھانا لگانے کا کام دیا گیا۔ جب کیمپ میں ٹائیفائڈ کی وبا پھیلی تو ایٹا اس مرض میں مبتلا ہو گئی۔ کام کرنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے ایٹا کو بیمار قیدیوں کی بیرکوں میں بھیج دیا گیا۔ چونا ہر روز اس سے ملنے آیا کرتا تھا اور اکثر اس کے تکلیف دہ زخموں کی ٹکور کیلئے چیتھڑے لایا کرتا تھا۔
بیمار قیدیوں کیلئے دوا اور ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث ایٹا تین ماہ بعد اپنے مرض کے ہاتھوں انتقال کر گئی۔ اس کو ایک قریبی پتھروں کی کان میں دفنایا گیا۔ ایٹا کی عمر 17 سال تھی۔
نوبرٹ نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہ برلن میں ایک سماجی کارکن تھا۔ اس نے کنڈر ٹرانسپورٹ (بچوں کی ٹرانسپورٹ) کے پروگرام پر کام کیا جو یہودی بچوں کو حفاظت کیلئے یورپ سے برطانیہ بھجوانے کا کام کرتی تھی۔ اس کے والدین برلن میں رہتے تھے۔ اُنہیں دسمبر 1942 میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ناربرٹ، اس کی بیوی اور بچے کو مارچ 1943 میں آش وٹز جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کو اس کی بیوی اور بچے سے جدا کر کے جبری مشقت کیلئے آش وٹز III (مونووٹز) کے قریب بونا بھیج دیا گیا۔ ناربرٹ آش وٹز کیمپ سے زندہ بچ گیا اور اُس نے جرمنی میں مئی 1945 میں امریکی افواج کے ہاتھوں آزادی حاصل کی۔
جب یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا تو سیگفرائیڈ ایک دوست کے ساتھ وہاں سے فرار ہو گئے۔ اُنہوں نے فرانس میں داخل ہونے کے لئے کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہیں جرمنوں کے حوالے کر دیا گیا۔ سیگفرائیڈ کو جیل بھیج دیا گیا۔ پھر اُنہیں برلن لیجایا گیا اور اکتوبر 1939 میں اُنہیں برلن کے قریب واقع سیخسین ہوسن کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ وہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والے اُن یہودیوں میں شامل تھے جنہیں سب سے پہلے سیخسین ہوسن کیمپ میں قید کیا گیا۔ وہاں رہنے والوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا اور اُن سے مشقت لی جاتی۔ سیگفرائیڈ کو دو برس کے بعد گراس۔ روزن حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں اُنہیں پتھر توڑنے والی فیکٹری میں مشقت پر لگا دیا گیا۔ اکتوبر 1942 میں سیگفرائیڈ کو گراس روزن کیمپ سے مقبوضہ پولینڈ کے آشوٹز کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں سیگفرائیڈ نے فارمیسسٹ کی حیثیت سے اپنے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے بیمار قیدیوں کی مدد کی۔ جب سوویت فوجیں جنوری 1945 میں آشوٹز کیمپ پہنچیں تو سیگفرائیڈ کو کیمپ سے موت کے مارچ پر مجبور کر دیا گیا۔ جو قیدی مارچ میں چلنا جاری نہ رکھ سکے، اُنہیں ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم سیگفرائیڈ اپنی زندگی بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
فراینکفرٹ میں روتھ کے خاندان کو بڑھتی ہوئی سام دشمنی کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑا؛ اس کے والد کا کاروبار چھین لیا گیا اور روتھ کا یہودی اسکول بند کر دیا گیا۔ اپریل سن 1943 میں روتھ اور اس کے خاندان کو آش وٹز کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ روتھ کو جبری مشقت کے لئے منتخب کیا گیا اور اسے سڑک کی مرمت کے کام پر لگا دیا گیا۔ اس نے "کناڈا" یونٹ میں کیمپ میں لائے جانے والے سامان کو چھانٹنے کا کام بھی کیا۔ نومبر سن 1944 میں روتھ کو جرمنی کے ریونزبروئک کیمپ میں منتقل کر دیا گيا۔ مئی سن 1945 میں مالچو کیمپ سے ایک موت مارچ کے دوران اسے آزاد کرایا گیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.