سبینہ کی پرورش وارسا کے جنوب مشرق میں واقع ایک چھوٹے صنعتی شہر پیوٹرکو ٹرائیبونلسکی کے ایک یہودی خاندان میں ہوئی۔ اس کا خاندان ایک غیر یہودی محلے میں رہتا تھا۔ اس کے والد کاروبار کرتے تھے اور اس کی والدہ ایک استانی تھیں۔ ان کے گھر میں یدش اور پولش دونوں ہی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ 1929 میں سبینہ نے سرکاری اسکول جانا شروع کیا اور اس کے بعد ایک یہودی سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
1933-39: یکم ستمبر1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ چار دن بعد جرمن افواج ہمارے شہر میں گھس آئیں۔ قبضے کے ایک ماہ کے بعد میرے والد کو اپنا کاروبار چھوڑنا پڑا۔ مجھے اسکول چھوڑنا پڑا اور پانچ افراد پر مشتمل میرے خاندان کو جرمنوں کی بنائی گئی ایک یہودی بستی میں زبردستی رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ہم ایک اور خاندان کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ چند بلاک کے فاصلے پر ہمیں جرمن گشتی محافظوں اور پکی سڑکوں پر بھاری بھرکم جرمن فوجی بوٹوں کی آواز آتی تھی۔
1940-44: 1942 میں جب یہودی بستی کو ختم کیا جارہا تھا ، میر ی پولش دوستوں ڈنوٹا اور ماریا نے مجھے اور میری بہن کو جعلی پولش شناختی کارڈ دلائے۔ آخری راؤنڈ اپ کی شب کو ہم بھاگ نکلے اور ان کے گھر میں چھپ گئے۔ دو ہفتے بعد میں اور میری بہن نے جرمنی میں کام تلاش کر لیا جہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں جرمن افسران کے لئے بنے ایک ہوٹل میں میڈ کا کام کرتی تھی۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ کیا میرے خاندان میں کوئی یہودی تھے۔ اس نے اپنے آپ کو ماہر عمرانیات بتایا اور یہ کہا کہ میرے کان اور میرا خاکہ یہودی لگتے تھے۔ میں نے ناراضگی ظاہر کی اور اپنا کام جاری رکھا۔
27 اپریل 1945 کو ریجنزبرگ جرمنی میں سبینہ کو امریکی فوجوں نے رہا کرا دیا۔ 1950 میں سبینہ ہجرت کر کے امریکہ چلی آئی اور یہاں اس نے آنکھوں کی ماہر ڈاکٹر کا پیشہ اپنا لیا۔
آئٹم دیکھیںشلومو لوڈز میں رہنے والے رائخ خاندان کے سات بچوں میں سے ایک تھا۔ رائخ خاندان ایک مذہبی یہودی خاندان تھا اور شلومو کے ہاسیڈک والد ایئر لاکس اور ایک روایتی فر کی بنی ہوئی ٹوپی پہنتے تھے۔ ہر روز سرکاری اسکول کے بعد شلومو یہودی پادریوں کی ایک اکیڈمی آسٹرووٹزے ییشیوا جا کر یہودی مقدس پاروں کا مطالعہ کرتا تھا۔ شلومو کے والد کی جوتوں کی لیس بنانے کی ایک فیکٹری تھی۔
1933-39: جرمنوں نے ستمبر 1939 میں لوڈز پر حملہ کیا اور یہودی مخالف اقدامات نافذ کرنا شروع کر دئے۔ یہودیوں کو عام نقل و حمل کے ذرائع استعمال کرنے، خاص اجازت کے بغیر شہر چھوڑنے یا گاڑیوں یا ریڈیو کے مالک ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ بالاخر یہودیوں کے اپارٹمنٹ ضبط کر لیے گئے۔
1940-44: 1940 کے موسم سرما کے آغاز میں جرمنوں نے لوڈز میں ایک یہودی بستی قائم کی اور وہاں شہر کے یہودیوں کو جمع کیا۔ رائخ خاندان کو بھی یہودی بستی میں منتقل کر دیا گيا جہاں وہ سب ایک چھوٹے کمرے میں رہتے تھے۔ شلومو کو اس یہودی بستی میں کپڑوں کی ایک فیکٹری میں کام ملا جہاں اس کو دوپہر کے کھانے پر ایک پتلا سوپ ملتا تھا۔ یہودی بستی میں چار سال گزارنے کے بعد شلومو کو 1944 میں موسم گرما کے اواخر میں جلاوطن کر کے جرمنی کے ڈاخاؤ حراستی کیمپ بھیج دیا گيا۔
شلومو کو 1945 کے موسم بہار میں رہا کر دیا گيا۔ جنگ کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس کے چھ بہن بھائيوں میں سے چار زندہ بچ گئے۔ 1946 میں اس نے امریکا ہجرت کر لی۔
آئٹم دیکھیںامینویل ٹینے اور اُن کا خاندان کراکو شہر کے شمال میں ایک چھوٹے قصبے مئیخو میں رہتا تھا۔ ستمبر 1939 میں جرمنی کی طرف سے پولنڈ پر حملے کے بعد یہودیوں کی پکڑ دھکڑ اور اُن پر ظلم و ستم کا سلسلہ بڑھ گیا۔ جرمنوں نے مئیخو میں ایک یہودی بستی قائم کی۔ امینویل کو مجبوراً اس بستی میں رہنا پڑا۔ امینویل، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن 1942 میں اِس بستی کے تباہ ہونے سے پہلے وہاں سے بھاگ گئے۔ وہ ایک گرجا گھر میں پولنڈ کی ایک خفیہ تنظیم کے ارکان کے ساتھ ایک جعلی شناخت کے ساتھ رہے۔ امینویل نے یہ گرجا گھر تقریبا ایک سال کے بعد اس وقت چھوڑ دیا جب ایک ٹیچر نے اُن پر یہودی ہونے کا شک کرنا شروع کیا ۔ اُس کے بعد امینویل وارسا اور کراکو میں اشیاء کی اسمگلنگ کے کام میں شامل ہوگئے۔ وہ 1943 کے موسم خزاں میں ہنگری بھاگ گئے۔ 1944 میں ہنگری پر جرمنی کے قبضے کے بعد امینویل نے دوبارہ بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ پکڑے گئے اور اُنہیں قید کردیا گیا۔ وہ جنگ سے زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔
آئٹم دیکھیںجون سن 1941 میں جرمنی نے ویلنا پر قبضہ کر لیا۔ اکتوبر میں، روشیل اور اس کے خاندان کو ویلنا کی یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا جہاں اس کی والدہ ہلاک ہو گئيں۔ اس کے والد، جو ایک یہودی کونسل کے رکن تھے، ایسٹونیا کے کیمپ میں قتل کر دئے گئے۔ سن 1943 میں جب اس یہودی بستی کو ختم کر دیا گیا، روشیل اور اس کی بہن کو جلاوطن کیا گیا۔ پہلے لاتویا کے کائزروالڈ کیمپ میں اور اس کے بعد ڈينزگ کے قریب واقع اسٹٹہاف میں جلاوطن کیا گیا۔ سن 1945 میں موت مارچ کے چھٹے ہفتے میں جس میں دونوں بہنوں کو ان کے ننگے پیروں کو چیتھڑے باندھ کر محفوظ رکھنے کی نوبت آ پہنچی تھی، سوویت فوجیوں نے ان کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںدوسرے یہودیوں کی طرح لیونٹ خاندان کو بھی وارسا یہودی بستی میں قید کردیا گيا تھا۔ 1942 میں ابراھیم نے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر اپنی جان بچائی لیکن جرمن فوجیوں نے اس کی ماں اور بہنوں کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا۔ وہ ہلاک کردئے گئے۔ ابراھیم کو ایک قریبی مقام پر جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ لیکن وہ بچ کر اپنے والد کے پاس یہودی بستی میں چلا آیا۔ 1943 میں ان دونوں کو مجدانک بھجوا دیا گیا جہاں ابراھیم کے والد کا انتقال ہوگيا۔ بعد میں ابراھیم کو اسکارزسکو، بوخن والڈ، بیسنجن اور ڈاخو بھیج دیا گيا۔ جب جرمنوں نے کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء شروع کیا تو امریکی فوجیوں نے ابراھیم کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںشارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.