جون سن 1941 میں جرمنی نے ویلنا پر قبضہ کر لیا۔ اکتوبر میں، روشیل اور اس کے خاندان کو ویلنا کی یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا جہاں اس کی والدہ ہلاک ہو گئيں۔ اس کے والد، جو ایک یہودی کونسل کے رکن تھے، ایسٹونیا کے کیمپ میں قتل کر دئے گئے۔ سن 1943 میں جب اس یہودی بستی کو ختم کر دیا گیا، روشیل اور اس کی بہن کو جلاوطن کیا گیا۔ پہلے لاتویا کے کائزروالڈ کیمپ میں اور اس کے بعد ڈينزگ کے قریب واقع اسٹٹہاف میں جلاوطن کیا گیا۔ سن 1945 میں موت مارچ کے چھٹے ہفتے میں جس میں دونوں بہنوں کو ان کے ننگے پیروں کو چیتھڑے باندھ کر محفوظ رکھنے کی نوبت آ پہنچی تھی، سوویت فوجیوں نے ان کو آزاد کرا لیا۔
سن 41 میں۔۔۔جیسے وہ۔۔۔یہودی چھٹیوں۔۔۔سے پہلے انہوں نے۔۔۔ ایس ایس نے ہمارے قصبے ویلنا میں یہودی بستی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اور وہاں ایک غریبوں کا علاقہ تھا جس میں بہت سے یہودی رہتے تھے۔ اور ہاں، وہاں عمر رسیدہ یہودیوں کے لئے گھر اور ویلنا شہر کا سب سے بڑا یہودی عبادت خانہ۔ یتیم خانہ یہودی ہسپتال وہاں تھا اور اس علاقے کے ارد گرد بہت یہودی رہتے تھے۔ ایک رات، ایس ایس یوکرینی پولیس اور لیتھووانین لوگوں کی مدد سے اندر آئے اور سارے یہودیوں کو وہاں سے لے گئے اور ان کو ایک جگہ پھنچا دیا۔ پوناری، جو ویلنا کے مضافات میں تھا، اور وہاں سب کو گولی مار دی۔ رات بھر ہمیں چیخوں اور رونے دھونے کی آوازیں آتی رہیں۔ لیکن ہمیں کھڑکی سے باہر دیکھنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ باہر دیکھنے والوں کو بھی گولی مار دی جاتی تھی۔ ہمیں اگلے دن تک معلوم نہیں تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے، جب ہمارے پڑوسیوں نے ہمیں بتایا کہ وہاں کیا ہو رہا تھا۔ ہمارے بہت سے رشتہ دار وہاں تھے۔ میری والدہ کے کزن۔۔۔سب۔۔۔میری والدہ کے سب رشتہ دار وہاں رہتے تھے۔ دو ہفتے کے بعد انہوں نے سب یہودیوں کو ان کے شہروں اور مضافات سے جمع کیا اور ہم سب کو یہودی بستی میں ڈال دیا گیا۔ اس میں دیواریں اور گارڈ کا پہرہ لگا دیا، اور ہم سب ایک ۔۔۔ فلیٹ میں رہتے تھے، دو سے تین خاندان ایک دو کمرے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.