مشرقی یورپ میں کئی ملین یہودی رہتے تھے۔ 1939 میں پولینڈ پر جرمنی کے حملے کے بعد پولینڈ میں رہنے والے دو ملین سے زیادہ یہودی جرمنوں کے کنٹرول میں آ گئے۔ جون 1941 میں جرمنی کے سوویت یونین پر حملے کے بعد مزید کئی ملین یہودی نازیوں کی حکومت کے تحت آ گئے۔ جرمنوں نے یہودیوں کی اس بڑی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے اُنہیں قصبوں اور شہروں کے کچھ مخصوص علاقوں کے اندر رہنے پر مجبور کر دیا اور ان علاقوں کو "گھیٹو" یعنی یہودی بستیوں یا پھر "یہودی رہائشی کوارٹروں" کا نام دے دیا۔ جرمنوں نے مقبوضہ علاقوں میں مجموعی طور پر کم از کم ایک ہزار یہودی بستیاں قائم کیں۔ سب سے بڑی یہودی بستی پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں تھی جہاں کم از کم پانچ لاکھ یہودی قید تھے۔

کئی یہودی بستیاں شہروں اور قصبوں میں قائم ہوئی تھیں جہاں یہودی پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یہودیوں اور کچھ روما (خانہ بدوشوں) کو آس پاس کے علاقوں اور مشرقی یورپ سے بھی یہودی بستیوں میں لایا گيا۔ اکتوبر اور دسمبر 1941 کے درمیان ہزاروں جرمن اور آسٹرین یہودیوں کو مشرقی یورپ کی یہودی بستیوں میں جلاوطن کیا گيا۔ جرمن عام طور پرشہروں کے سب سے پرانے اور بوسیدہ حصوں میں یہودی بستیاں قائم کرتے تھے۔ کبھی کبھار انہیں یہودی خاندانوں کے لئے جگہ بنانے کی خاطر عمارتوں کے غیریہودی رہائشیوں کو نکالنا پڑتا تھا۔ کئی یہودی بستیوں کے گرد خاردار تاروں کی باڑیں یا دیواریں بنا کر اُنہیں محدود کر دیا گیا تھا اور ان کے دروازوں پر مقامی اور جرمن پولیس اور ایس ایس کے اہلکاروں کا پہرہ رہتا تھا۔ رات کو کرفیو کے دوران رہائشیوں کو اپنے اپارٹمینٹ میں رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

پولینڈ کے شہروں لوڈز اور وارسا میں یہودی بستی کے درمیان ٹرالی لائنیں گزرتی تھی۔ لائنوں کو دوبارہ راستہ دینے کے بجائے اہلکاروں نے ان پر باڑیں لگا دیں اور پولیس اِس علاقے پر پہرہ دیتی تھی تاکہ یہودی ٹرالی گاڑیوں میں فرار نہ ہوسکیں۔ یہودی بستی کے باہر سے افراد ہفتے کے دوران کام پر جانے کیلئے گاڑیوں کو استعمال کرتے تھے اور کچھ اتوار کو ان پر سوار ہو کر صرف یہودیوں کو دیکھنے اور اُن کا مزاق اُڑانے کیلئے آتے تھے۔

اہم تواریخ

12 اکتوبر 1940
وارسا کے یہودیوں کو یہودی بستی میں جانے کا حکم دے دیا گيا

جرمنوں نے وارسا میں یہودی بستی کے قیام کا اعلان کیا۔ وارسا کے تمام یہودی باشندوں کو نامزد علاقے میں جانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس حصے کو نومبر 1940 میں شہر کے بقیہ حصے سے علیحدہ کیا جانے والا تھا- ایک دس سے زائد فٹ اونچی دیوار کی تعمیر شروع ہوگئی جس کے اوپر خاردار تار لگائی گئی۔ جرمنوں نے یہودی بستی کی حدود پر سخت پہرہ دیا تاکہ یہودی بستی اور وارسا کے باقی حصوں کے درمیان انسانی نقل و حمل نہ ہوسکے۔ وارسا بستی دونوں علاقوں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی کی یہودی بستی تھی۔ ساڑھے تین لاکھ یہودی – یعنی شہر کی تقریباً تیس فیصد آبادی – کو شہر کے کل رقبے کے تقریباً 2.4 فیصد حصے میں قید کردیا گيا۔

22 جولائی 1942
وارسا کے یہودیوں کو ٹریبلنکا کے قتل کے مرکز میں جلاوطن کردیا گيا

22 جولائی اور ستبمر 1942 کے درمیان تین لاکھ سے زائد افراد کو وارسا کی یہودی بستی سے جلاوطن کیا گيا: ان میں سے ڈھائی لاکھ سے زائد کو ٹریبلنکا کے قتل کے مرکز جلاوطن کیا گيا۔ جلاوطن کئے جانے والوں کو زبردستی امشلیگ پلاٹز (جلاوطنی کے مقام) بھیجا گیا، جو وارسا- مالکینیا کی ریلوے لائن سے متصل ہے۔ انہیں سامان کی گاڑیوں میں بھرا گیا اور زيادہ تر کو مالکینیا کے ذریعے ٹریبلینکا جلاوطن کردیا گيا۔ جلاوطن ہونے والوں کی بھاری اکثریت کو ٹریبلنکا پہنچتے ہی ماردیا گيا۔ ستمبر میں 1942 کے اجتماعی جلاوطنی کے اختتام پر یہودی بستی میں صرف پچپن ہزار یہودی باقی رہ گئے۔

19 اپریل 1943
J یہودی جنگجوؤں نے وارسا یہودی بستی میں جرمنوں کی مخالفت کی

جرمنوں نے وارسا یہودی بستی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اپریل 1943 میں نئی جلاوطنیوں کا اعلان کیا۔ جلاوطنیوں کو دوبارہ شروع کرنے کا عمل یہودی بستی میں ایک مسلح بغاوت کا اشارہ تھا۔ یہودی بستی کے زیادہ تر افراد نے جلاوطنی کے لئے رپورٹ کرنے سے انکار کردیا۔ کئی پہلے سے تیار کردہ بنکرز اور پناہ گاہوں میں جرمنوں سے چھپ گئے۔ یہودی جنگجوؤں نے جرمنوں سے سڑکوں پر اور خفیہ بنکرز سے لڑاٰئی کی۔ جرمنوں نے یہودی بستی کی آبادی کو کھلے میدان میں لانے کے لئے بستی کو آگ لگا کر اسے راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ 16 مئی 1943 کو جنگ ختم ہوگئی۔ ہزاروں افراد مارے گئے اور یہودی بستی کی بیشتر آبادی کو جلاوطن کرکے جبری مشقت کے کیمپوں میں بھیج دیا گيا۔ وارسا کی یہودی بستی کی بغاوت یہودیوں کی سب سے بڑی اور سب سے اہم بغاوت، اور جرمنی کے مقبوضہ یورپ کے شہری علاقوں کی پہلی بغاوت تھی۔