یہودی یورپ میں دو ہزار سال سے زائد عرصے سے رہتے آئے تھے۔ امریکی یہودی ییئر بُک نے سن 1933 میں یورپ کی مکمل یہودی آبادی 95 لاکھ کے لگ بھگ بتائی ہے۔ یہ تعداد دنیا بھر کی یہودی آبادی کے 60 فیصد کی نمائیندگی کرتی تھی جس کا تخمینہ ایک کروڑ 53 لاکھ لگایا گیا تھا۔ اکثر یہودی مشرقی یورپ میں رہتے تھے جہاں پولینڈ اور سوویت یونین میں اُن کی آبادی تقریباً 55 لاکھ تھی۔ 1933 میں نازیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے یورپ میں یہودیوں کی انتہائی فعال اور ترقی یافتہ ثقافت موجود تھی۔ ایک دہائی سے کچھ زائد عرصے میں یورپ کے اکثر حصوں پر نازیوں نے یلغار کر کے قبضہ لیا یا اُنہیں اپنے ملک میں ضم کر لیا۔ اس کے نتیجے میں یورپ کے اکثر یہودی یعنی ہر تین میں سے دو قتل کر دئے گئے۔
آئٹم دیکھیںجنوری سن 1945 میں تیسری مملکت فوجی شکست کی طرف مائل ہوئی۔ جیسے ہی اتحادی فوجیں نازی کیمپوں کے قریب پہنچیں، ایس ایس نے حراستی کیمپوں کے رہنے والوں کا موت مارچ کرایا تاکہ حراستی کیمپ کے زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو اتحادی فوجیوں کے ہاتھ نہ لگنے دیا جائے۔ "موت مارچ" کی اصطلاح غالباً حراستی کیمپ کے قیدیوں نے ہی وضع کی تھی۔ اس اصطلاح سے مراد سخت اور بھاری نگرانی اور انتہائی نا مساعد حالات میں لمبے فاصلوں تک حراستی کیمپ کے قیدیوں کو زبردستی مارچ کرانا تھی۔ موت مارچ کے دوران ایس ایس محافظوں نے قیدیوں کے ساتھ وحشی پن کا سلوک کیا اور کئی قیدیوں کو ہلاک کر دیا۔ بڑے موت مارچ آشوٹز اور شٹٹ ھوف سے کرائے گئے۔
آئٹم دیکھیںنازی کیمپوں کا نظام ستمبر 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے بعد برابر بڑھتا گیا کیونکہ جنگی سازوسامان کی پیداوار کیلئے جبری مشقت کی اہمیت بڑھ گئی۔ 1942-1943 میں اسٹالنگراڈ کی جنگ میں جرمنی کی ناکامی کے بعد جرمنی کی جنگی معیشت میں مزدوروں کی کمی ایک خطرہ بن گئی۔ اس کی وجہ سے حراستی کیمپوں کے قیدیوں کو جرمن فوجی کارخانوں میں بطور جبری مزدور استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گيا۔ خاص طور پر 1943 اور 1944 میں سینکڑوں ذیلی کیمپ صنعتی علاقوں کے اندر یا اس کے قریب قائم کئے گئے۔ ذیلی کیمپ عام طور پر وہ چھوٹے کیمپ ہوتے تھے جو اصل کیمپوں کی انتظامیہ کے تحت ہوتے تھے اور جو ان کو قیدیوں کی مطلوبہ تعداد مہیا کرتے تھے۔ پولینڈ میں آشوٹز، وسطی جرمنی میں بوخن والڈ، مشرقی جرمنی میں گروس روزن،مشرقی فرانس میں نیٹزویلر سٹرٹ ھاف، برلن کے قریب ریونزبروئک اور بالٹک کوسٹ پر ڈینزگ کے قریب شٹٹ ھاف جیسے کیمپ جبری مشقت کے ذیلی کیمپوں کے بہت بڑے نیٹ ورکوں کے انتظامی مراکز بن گئے۔
آئٹم دیکھیںجنوری 1942 میں برلن کی وانسی کانفرنس میں ایس ایس (نازی ریاست کے ایلیٹ گارڈ) اور جرمن حکومت کی وزارتوں کے نمائیندوں نے اندازہ لگایا کہ فائنل حل یعنی یورپی یہودیوں کو قتل کرنے کا نازی منصوبہ 11 ملین یورپی یہودیوں پر محیط ہو گا جس میں آئرلنڈ، سویڈن، ترکی ، اور برطانیہ جیسے غیر مقبوضہ علاقوں کے یہودی بھی شامل ہونگے۔ جرمنی اور جرمن مقبوضہ یورپ سے یہودیوں کو ریل گاڑیوں کے ذریعے مقبوضہ پولینڈ میں موجود قتل گاہوں میں لایا گيا جہاں ان لوگوں کو ہلاک کر دیا گيا۔ جرمنی نے اپنے مقاصد کو چھپانے کی کوشش میں اس جلاوطنی کو "مشرق میں نئی آبادکاری" کے نام سے موسوم کیا۔ مرنے والوں سے کہا جاتا تھا کہ انھیں مزدور کیمپوں میں لے جایا جا رہا ہے، لیکن اصل میں 1942 کے بعد سے جلاوطنی کا مطلب اکثر یہودیوں کو قتل کرنے والے مراکز میں لے جا کر اُنہیں قتل کرنا تھا۔
آئٹم دیکھیںاستیصالی کیمپ قتل کے ایسے مراکز تھے جو نسل کشی کیلئے تیار کئے گئے تھے۔ سن 1941 اور 1945 کے درمیان نازیوں نے چیلمنو، بیلزیک، سوبی بور، ٹریبلنکا، آشوٹز۔برکیناؤ (آشوٹز کمپلیکس کا ایک حصہ) اور مجنانیک جیسے سابق پولش علاقوں میں استیصالی کیمپ قائم کئے۔ ٹریبلنکا اور آشوٹز 1939 میں جرمن قبضے میں آنے والے علاقوں میں قائم کئے گئے۔ دوسرے کیمپ (بیلزیک، سوبی بور، ٹریبلنکا اور مجدانیک) پولینڈ کے جنرل گورنمنٹ علاقے میں قائم کئے گئے۔ آشوٹز اور مجدانیک دونوں قتل کے مراکز کے علاوہ حراستی کیمپ اور جبری مشقت کے کیمپ کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ استیصالی کیمپوں میں ہدف بننے والے افراد کی بڑی اکثریت یہودیوں پر مشتمل تھی۔ ان چھ استیصالی کیمپوں میں ایک اندازے کے مطابق 35 لاکھ یہودی حتمی حل کے تحت ہلاک کئے گئے۔ شکار ہونے والے دیگر افراد میں روما (خانہ بدوش) اور سوویت جنگی قیدی شامل تھے۔
آئٹم دیکھیںپورے جرمن مقبوضہ یورپ میں جرمنوں نے ان لوگوں کو گرفتار کیا جنھوں نے ان کے تسلط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور جنہیں نسلی یا سیاسی اعتبار سے کم تر سمجھا گيا۔ جرمن تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو زیادہ تر جبری مشقت کے کیمپوں یا حراستی کیمپوں میں بھجوا دیا گیا۔ جرمنوں نے تمام تر مقبوضہ یورپی علاقوں سے یہودیوں کو جلا وطن کر کے پولینڈ میں واقع قتل کے مراکز میں بھجوا دیا جہاں اُنہیں منظم طریقے سے قتل کر دیا گیا یا پھر اُنہیں حراستی کیمپوں میں منتقل کیا گیا جہاں اُنہیں جبری مشقت کیلئے استعمال کیا گیا۔ مغربی یورپ میں واقع ویسٹربورک، گورز، میشیلن اور ڈرینسی عبوری کیمپوں اور اٹلی میں قائم بولزینو اور فوسولی ڈی کیپری حراستی کیمپوں کو یہودیوں کو جمع کرنے کے مراکز کے طور پر استعمال کیا گیا جنہیں بعد میں ریل گاڑیوں کے ذریعے قتل کے مراکز میں منتقل کیا گیا۔ ایس ایس رپورٹوں کے مطابق جنوری 1945 میں حراستی کیمپوں میں رجسٹرڈ قیدیوں کی تعداد سات لاکھ سے زائد تھی۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے (1939 اور 1942 کے درمیان) زیادہ تر مشرقی یورپ میں اور (1944 میں) ہنگری میں بھی بہت سی یہودی بستیاں قائم کیں۔ یہ یہودی بستیاں شہر کے بند علاقے تھے جس میں جرمنوں نے یہودی آبادیوں کو انتہائی نا مساعد حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ جرمنوں نے ان یہودی بستیوں کے قیام کو عارضی اقدامات خیال کیا تاکہ یہودیوں کو علیحدہ رکھا جائے، ان پر کنٹرول رکھا جائے اور اُنہیں باقی آبادی سے الگ تھلگ کر دیا جائے۔ 1942 کے آغاز میں جب یہودیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا، جرمنوں نے منظم طریقے سے یہودی بستیوں کو تباہ کر کے یہودیوں کو قتل کے مراکز میں جلاوطن کرنا شروع کر دیا جہاں اُنہیں قتل کر دیا جاتا۔
آئٹم دیکھیںروما (خانہ بدوش) اُن گروپوں میں شامل تھے جنہیں نسلی بنیادوں پر نازیوں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ روما خانہ بدوشوں کو قید کیا گیا، جلاوطن کیا گیا اور جبری مشقت پر مجبور کیا گیا۔ اُنہیں قتل کے مراکز میں بھی بھجوایا گیا۔ آئن سیٹزگروپن (یعنی گشتی قاتل یونٹوں)نے بھی جرمن مقبوضہ مشرقی علاقوں میں ھزاروں روما افراد کو قتل کیا۔ روما خانہ بدوشوں کی قسمت بھی کم و بیش وہی تھی جو یہودیوں کی تھی۔ ھالوکاسٹ میں قتل ہونے والے روما افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم تخمینوں کے مطابق جنگ سے پہلے یورپ میں رہنے والے روما خانہ بدوشوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ تھی اور ان میں سے دو لاکھ سے پانچ لاکھ کے دوران قتل کر دئے گئے۔
آئٹم دیکھیںنازیوں کی اصطلاح میں 'رحیمانہ قتل" کا مطلب ان جرمنوں کو منظم طریقے سے قتل کرنا تھا جنھیں وہ جینیاتی بیماریوں یا خامیوں کے باعث "زندہ رہنے کے قابل" نہیں سمجھتے تھے۔ 1939 کے شروع میں گیس سے ہلاک کرنے کی تنصیبات برن برگ، برینڈن برگ، گریفینیک، ھادامار، ھارٹ ھائم اور سونین سٹائن میں قائم کی گئیں۔ ڈاکٹر مریضوں کا انتخاب کرتے تھے اور انھیں مطب سے ان میں سے کسی ایک گیس چیمبر میں بھیج کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ مریضوں کو اس طرح ہلاک کرنے لے خلاف جب عوام میں غیض و غضب بھڑک اٹھا تو ڈاکٹروں نے پورے جرمنی میں موجود کلینکوں اور اسپتالوں میں "رحیمانہ قتل" کیلئے منتخب مریضوں کو موت کا انجکشن دینا شروع کر دیا۔ اس طرح "رحیمانہ قتل" کا منصوبہ چلتا رہا اور جنگ کے اختتام تک جاری رہا۔
آئٹم دیکھیںجرمنی میں اولین حراستی کیمپ ہٹلر کے جنوری سن 1933 میں چانسلر بننے کے بعد ہی قائم کئے گئے۔ اسٹارم ٹروپرز (ایس اے) اور پولیس نے یہ حراستی کیمپ ایسے لوگوں سے نمٹنے کیلئے قائم کئے جنہیں حکومت کا مخالف خیال کیا گیا۔ یہ تمام کیمپ جرمنی بھر میں مقامی سطح پر قائم کئے گئے۔ رفتہ رفتہ ان کیمپوں میں سے اکثر کو بند کر کے ان کی جگہ مرکز کے تحت حراستی کیمپ قائم کئے گئے۔ یہ کیمپ ایس ایس (شٹزاسٹیفل؛ یعنی نازیوں کے ایلیٹ گارڈ) کے مکمل دائرہ اختیار میں تھے۔ 1939 تک سات بڑے حراستی کیمپ قائم کئے جا چکے تھے۔ ڈاخاؤ کے علاوہ یہ کیمپ برلن کے شمال میں سیخسین ھاؤسن (1936)، وائمر کے قریب بوخن والڈ (1937)، ہیمبرگ کے نزدیک نیوئن گامے (1938)، فلوسینبیوئرگ (1938)، ماؤٹہوسن (1938) اور ریوینزبروئک (1939) تھے۔
آئٹم دیکھیںحتمی حل پر عمل درآمد کیلئے یوروپی ریلوے نیٹ ورک نے اہم کردار ادا کیا۔ جرمنی اور جرمن مقبوضہ یورپ سے یہودیوں کو ان ریل گاڑیوں سے مقبوضہ پولینڈ کے استیصالی کیمپوں میں لایا جاتا تھا جہاں انہیں ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ جرمنوں نے اپنے مقاصد کو چھپانے کی کوشش میں اس جلاوطنی کو "مشرق کی جانب نئی آبادکاری" کا نام دیا۔ مرنے والوں سے کہا جاتا تھا کہ انھیں مزدور کیمپوں میں لے جایا جا رہا ہے، لیکن اصل میں سن 1942 کے بعد سے جلاوطنی کے معنی اکثر یہودیوں کو قتل کرنے والے مراکز میں لے جانا تھا۔ اس سطح پر جلاوطنی کیلئے بہت سی جرمن وزارتوں میں باہم ربط درکار تھا جن میں ریخ کا سلامتی سے متعلق بڑا دفتر (آر ایس ایچ اے)، وزارت نقل و حمل اور وزارت حارجہ شامل ہیں۔ آر ایس ایچ اے نے باہم رابطے کے فرائض انجام دئے اور جلاوطنیوں کے احکام جاری کئے؛ وزارت نقل و حمل نے ٹرینوں کے شیڈول جاری کئے؛ اور وزارت خارجہ نے حلیف ریاستوں کے ساتھ مزاکرات کر کے اُنہیں راضی کیا کہ وہ اپنے یہودیوں کو اُن کے حوالے کر دیں۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.