وارسا سے جلاوطنی

ہولوکاسٹ (1933-1945) ایک منظم، سرکاری سرپرستی میں ہونے والا ظلم اور قتلِ عام تھا جس میں نازی جرمن حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں کی جانب سے 6 ملین یورپی یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کے مطابق ہولوکاسٹ 1933 سے 1945 کے دوران جاری رہا۔ اس کا آغاز 1933 میں ہوا جب ایڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی جرمنی میں برسرِ اقتدار آئے۔ اس کا اختتام 1945 میں ہوا جب اتحادی قوتوں نے عالمی جنگِ عظیم دوم میں نازی جرمنی کو شکست دی۔ 

نازی پارٹی ایک یہود دشمن سیاسی تحریک تھی۔ جب 1933 میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آئے، تو انہوں نے یہودیوں کو ہدف بنانے اور انہیں جرمن معاشرے سے نکال باہر کرنے کے لیے حکومت کو استعمال کیا۔ دیگر یہود دشمن اقدامات کے علاوہ، نازی جرمن حکومت نے امتیازی قوانین نافذ کیے اور جرمنی کے یہودیوں کے خلاف منظم انداز میں پُرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا۔ حکومت نے یہ اور ان جیسے دیگر اقدامات کے ذریعے ہجرت کرنے کے لیے جرمن یہودیوں پر دباؤ ڈالا۔

1930 کی دہائی کے اواخر میں، نازیوں نے اپنی یہود دشمن پالیسیوں کا دائرہ جرمنی سے باہر تک وسیع کر دیا اور ایک جارحانہ خارجہ پالیسی اور سرحدی توسیع کی راہ ہموار کی۔عالمی جنگِ عظیم دوم (1939–1945) کے دوران، نازی جرمنی نے دیگر ممالک کو فتح کرنے، دیگر حکومتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے، اور کٹھ پتلی ریاستیں بنانے کے ذریعے یورپ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی۔ 1942 تک، نازی جرمنی نے براعظم یورپ کے بیشتر حصے اور شمالی افریقہ کے حصوں پر اپنا تسلط جما لیا۔ 

عالمی جنگِ عظیم دوم کے دوران، نازی قائدین نے یورپ کے 9 ملین یہودیوں کے ساتھ انتہاپسندانہ سلوک کو ظلم و ستم سے بڑھا کر اجتماعی قتلِ عام تک پہنچا دیا۔ ستمبر 1939 میں، پولینڈ پر جرمن حملے کے دوران اور بعد میں، جرمن حکام نے شہری آبادی کے ساتھ سفاکانہ سلوک کیا۔ اس میں بڑی یہودی آبادی کے خلاف تشدد شامل تھا۔ جرمن حکام نے اقلیتی یہودی بستیاں بنائیں تاکہ مقبوضہ پولینڈ میں یہودیوں کو الگ تھلگ اور مفلس رکھا جائے۔ اقلیتی یہودی بستیاں شہروں یا قصبوں کے وہ حصے تھے جہاں جرمن قابض افواج نے یہودیوں کو ضرورت سے زیادہ گنجان اور حفظانِ صحت سے عاری حالات میں رہنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ان یہودی بستیوں میں زندگی قحط زدہ، وبائی امراض کی حامل، اور من مانے تشدد پر مبنی تھی۔ بالآخر، جرمن حکام نے مقبوضہ مشرقی یورپ اور ہنگری کے دیگر حصوں میں بھی اقلیتی یہودی بستیاں تعمیر کر ڈالیں۔ 1939 اور 1945 کے درمیان ان یہودی بستیوں میں لاکھوں یہودی ہلاک ہوئے۔ 

1941 میں، نازی قائدین نے یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتلِ عام کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ماہرانہ انداز سے اسے "یہودیوں کا آخری حل" کا نام دے رکھا تھا۔ نسل کشی کے ارتکاب کا یہ فیصلہ جون 1941 میں سوویت یونین پر جرمن حملے کے تناظر میں ہوا۔ مشرقی یورپ کے مقبوضہ شہروں، قصبوں، اور دیہات میں، جرمن یونٹس نے انتہائی بڑے پیمانے پر گولیوں کے ذریعے مقامی یہودیوں کے اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے پوری کی پوری یہودی برادریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ گولیوں کے ذریعے قتلِ عام کے علاوہ، جرمن یونٹس نے یہودیوں کے قتل کے لیے بعض اوقات خصوصی طور پر تیار کردہ موبائل گیس گاڑیاں بھی استعمال کیں۔ ان خونریزیوں میں اندازاً 2 ملین یہودی مرد، عورتوں، اور بچوں کو قتل کیا گیا۔ 

مقبوضہ پولینڈ میں استیصالی کیمپ، 1942

1941 اور 1942 میں، نازی جرمنی نے جرمنی کے زیرِ قبضہ پولینڈ میں پانچ قتل گاہيں تعمیر کیں: چیلمنو، بیلزیک، سوبیبور، ٹریبلنکا اور آشوٹز۔برکیناؤ۔ جرمن حکام، اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کی مدد سے یہودیوں کو پورے یورپ سے ان قتل گاہوں تک لاتے تھے۔ ان میں سے بہت کم تعداد میں لوگوں کو جبری مشقت کے لیے منتخب کیا جاتا تھا، جبکہ وسیع اکثریت کو فوراً ہی گیس چیمبرز یا گاڑیوں میں مار دیا جاتا تھا۔ ان پانچ قتل گاہوں میں تقریباً 2.7 ملین یہودی مردوں، عورتوں، اور بچوں کو قتل کیا گیا۔

بہت سے لوگ ہولوکاسٹ اور "آخری حل" کے ذمہ دار تھے۔ بلند ترین سطح پر، ایڈولف ہٹلر نے یورپ کے یہودیوں کی نسل کشی کی ترغیب، حکم، منظوری اور معاونت فراہم کی۔ تاہم، ہٹلر نے اکیلے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ دیگر نازی قائدین نے براہِ راست ہولوکاسٹ کو منظم کیا، اس کی منصوبہ بندی کی، اور اس پر عملدرآمد کیا۔ انہوں نے یہودیوں کو سزائیں دینے، ان کے خلاف جنگی اقدام کرنے، اور اجتماعی قتلِ عام انجام دینے کے لیے بہت سے جرمن اداروں، تنظیموں، اور افراد سے مدد طلب کی۔ نازی جرمنی نے حلیف ممالک میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ، مقبوضہ علاقوں میں حلیفوں کی مدد پر بھی انحصار کیا۔ لاکھوں یورپی لوگوں (جرمن اور دیگر دونوں) کی شمولیت کے بغیر، ہولوکاسٹ کبھی بھی ممکن نہ ہوتا۔ 

ہولوکاسٹ تخصیصی طور پر 1933 اور 1945 کے درمیان 6 ملین یہودیوں کے منظم، سرکاری سرپرستی میں کیے جانے والے ظلم و ستم اور قتلِ عام کو کہا جاتا ہے۔ تاہم، اس عرصے کے دوران نازیوں کے ظلم اور قتلِ عام کا نشانہ بننے والے دیگر لاکھوں مظلومین بھی تھے۔ یہودیوں کے علاوہ، نازیوں نے جرمنوں کے لیے خطرہ بننے والے دیگر گروہوں پر بھی ظلم و ستم کیا۔ ان گروہوں میں یہ لوگ شامل ہیں: سیاسی مخالفین؛ یہوواہ کے گواہ (Jehovah's Witnesses)؛ مبینہ طور پر ہم جنس پرستی میں ملوث افراد؛ نام نہاد راہب؛ مبینہ طور پر پیشہ ور یا عادی مجرم؛ ایفرو جرمنز؛ معذور افراد؛ اور روما (خانہ بدوش)۔ عالمی جنگِ عظیم دوم کے دوران، نازی حکومت نے ایسے لوگوں کا اجتماعی قتلِ عام کیا جنہیں نسلی، سیاسی، یا نظریاتی دشمن سمجھا جاتا تھا۔ اس میں معذور افراد، روما، پولش (خصوصاً پولش دانشور اور اشرافیہ)، سوویت عہدیداران، اور جنگ کے سوویت قیدی شامل تھے۔ 

یورپ میں عالمی جنگِ عظیم دوم اور ہولوکاسٹ کا اختتام مئی 1945 میں ہوا جب اتحادی قوتوں نے نازی جرمنی کو شکست دی۔

اگرچہ نازی جرمن حکومت نے پوری کوشش کی تھی کہ تمام یورپی یہودیوں کو قتل کر دیا جائے، لیکن پھر بھی کچھ یہودی ہولوکاسٹ میں بچ گئے۔ جوں جوں اتحادی افواج جارحانہ تسلسل میں یورپ میں آگے بڑھتی گئیں، وہ یہودیوں کو نازی تسلط سے آزاد کراتی چلی گئیں۔ ان کی زندگیوں کا بچ جانا صرف غیر معمولی صورتحال، انفرادی انتخاب، دوسروں کی مدد (یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں کی طرف سے)، اور محض قسمت کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا۔ 

بے دخل ہونے والے افراد کے بیڈ ریخن ھال کیمپ  میں بچے۔

جنگ کے بعد، ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے بہت سے یہودی جب اپنی نئی زندگیوں کا آغاز کرنے جا رہے تھے تو انہیں پُرتشدد یہود دشمنی اور جلاوطنی کے مسلسل خطرات کا سامنا رہا۔ وہ لوگ جو جنگ سے قبل کے اپنے گھروں کو واپس نہ جا سکے یا نہیں گئے، انہیں عموماً گمشدہ اور جلاوطن لوگوں کے کیمپوں میں زندگیاں گزارنا پڑیں۔ یہاں بہت سے افراد کو ہجرت کرنے اور اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے سے پہلے کئی سال انتظار کرنا پڑا۔