اسٹیفینیا، پرزیمسل کے قریب ایک گاؤں کے کیتھولک خاندان کے ہاں پیدا ہوئی۔ وہ ایک بڑے کھیت پر رہتے تھے اور متعدد قسم کی فصلیں اُگاتے تھے۔ اس کے والد زمین پر کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور اس کی والدہ ایک تجربہ کار دائی تھیں اور گھر اور اپنے آٹھ بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔
1933-39: میرے والد ایک بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد 1938 میں انتقال کر گئے۔ اپنی والدہ کی اجازت لے کر میں 1939 میں پرزیمسل میں اپنی بہن کے پاس چلی گئی۔ 14 سال کی عمر میں میں نے ڈائمنٹس نامی ایک یہودی خاندان کی پنساری کی دکان میں کام کیا۔ انہوں نے میرے ساتھ گھر جیسا برتاؤ کیا اور 14 ستمبر 1939 میں جب جرمنوں نے [پولینڈ] پر حملہ کیا تو میں رہنے کیلئے ان کے گھر منتقل ہو گئی۔ مگر دو ہفتوں کے بعد سوویت یونین نے شہر پر قبضہ کر لیا [جرمن سوویت معاہدے کے تحت]۔ پنساری کی دکان کھلی رہی اور میں اپنے گاہکوں کو بیچنے کیلئے بازار سے کھانا خریدا کرتی تھی۔
1940-44: جون 1941 میں جرمنوں نے دوبارہ شہر پر قبضہ کر لیا۔ پرزیمسل کے تمام یہودیوں کی طرح ڈائمنٹس کو بھی یہودی بستی جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ میری والدہ کو جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا گیا۔ میری عمر 16 سال تھی اور مجھے اپنی 6 سالہ بہن کی دیکھ بھال کیلئے چھوڑ دیا گيا۔ مجھے یہودی بستی کے باہر ایک اپارٹمنٹ مل گیا اور میں اپنے کپڑوں کے بدلے کھانا لیا کرتی تھی۔ سن 1941 میں خبر پھیلی کہ یہودی بستی کو بند کیا جا رہا ہے۔ میں نے کچھ یہودیوں کو چھپا کر آخری پکڑ دھکڑ سے بچانے کا فیصلہ کر لیا۔ مزید جگہ کیلئے میں ایک جھونپڑے میں منتقل ہو گئی۔ بہت ہی جلد 13 یہودی میرے چوبارے میں ایک خفیہ جگہ میں چھپے ہوئے تھے۔
27 جولائی 1944 کو پرزیمسل کو آزادی مل گئی۔ 17 سالہ اسٹیفینیا نے جن یہودیوں کی مدد کی تھی وہ سب جنگ سے زندہ بچ گئے۔ 1961 میں وہ جوزف ڈائمینٹ کے ساتھ ہجرت کر کے امریکہ چلی گئی جس کے ساتھ اس نے شادی کر لی۔
آئٹم دیکھیںایوا غیر مذہبی یہودی والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے والد ایک صحافی تھے۔ ایوا کو اپنی کزن سوزی کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا جو اُس سے دو سال بڑی تھی۔ ایوا اپنی والدہ کے ساتھ خاص تعطیلات بھی گزارا کرتی تھی۔ بعض اوقات وہ آسٹریہ کے الپس پہاڑ پر اسکی کرنے کیلئے جایا کرتی تھیں اور کبھی وہ دریائے دنوب کے برابر واقع ایوا کے چچا کے کیبن میں رہا کرتی تھیں۔
1933-39: 1938 میں جب جرمنی نے آسٹریہ پر قبضہ کر لیا تو زندگی بالکل بدل گئی۔ گسٹاپو اس کے والد کو جرمنوں کے خلاف لکھنے کے باعث ہراساں کرتے تھے۔ میرے اچھے دوست مجھے یہودی ہونے کی وجہ سے گالیاں دیا کرتے تھے۔ میرے والدین نے کہا کہ ہمیں بھاگ جانا چاہئیے۔ ہم ریل گاڑی کے ذریعے فرار ہو کر پیرس چلے گئے۔ ایک دن جب میں تیسری کلاس میں تھی تو بم گرنے لگے۔ ہم فورا ہوائی حملوں کی پناہ گاہوں کی طرف بھاگے اور ہم نے گیس کے ماسک پہن لئے۔ ربڑ کی بو اتنی شدید تھی کہ مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
1940-44: 1940 میں جرمنوں کے پیرس میں داخل ہونے کے بعد ہم غیر مقبوضہ جنوبی علاقے کی طرف فرار ہو گئے۔ دو سال بعد جب میں 13 سال کی تھی تو جرمنوں نے جنوبی علاقے پر بھی قبضہ کر لیا اور ہم پھر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ سوٹزر لينڈ اور فرانس کے درمیان واقع پہاڑوں کے طویل اور خطرناک سفر کے دوران ہم نے سینٹ مارٹن نامی ایک چھوٹے سے فرانسیسی گاؤں میں پناہ لی۔ گاؤں کے پادری فادر لانگرے نے میرے والدین کو تہہ خانے میں چھپنے کی اجازت دے دی۔ میں پادری کے گھر میں بھیڑ بکریوں کی رکھوالی کرنے والی کی حیثیت سے کھلی زندگی گزارتی تھی۔ میں دوسرے بچوں کے ساتھ گرجا گھر جایا کرتی تھی اور میں نے لاطینی زبان میں کیتھولک ماس بھی سیکھا۔
ایوا اور اس کے والدین سینٹ مارٹن میں چھپے رہے۔ 1944 کے آخر میں ان کو رہا کر دیا گیا۔ 1948 میں جب ایوا 18 برس کی تھی، وہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے امریکا چلی آئی۔
آئٹم دیکھیںلیسا ایک دیندار یہودی خاندان کے تین بچوں میں سے ایک تھی۔ سن 1939 میں اس کے وطن پر جرمنی کے قبضے کے بعد لیسا اور اس کا خاندان پہلے اگستو پھر سلونم (سوویت مقبوضہ مشرقی پولینڈ) منتقل ہو گيا۔ سوویت یونین پر حملہ کے دوران جرمن فوجوں نے جون سن 1941 میں سلونم پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ سلونم میں جرمنوں نے ایک یہودی بستی قائم کی جو سن 1941 سے 1942 تک قائم رہی۔ آخر میں لیسا سلونم سے بچ کر بھاگ نکلی اور پہلے وہ گروڈنو پھر ویلنا گئی جہاں وہ مزاحمتی تحریک میں شامل ہو گئی۔ وہ ایک حامی جماعت میں شامل ہوئی جو نوروچ جنگل سے جرمنوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔ سوویت فوجیوں نے اس علاقہ کو سن 1944 میں آزاد کرایا۔ ہالوکاسٹ میں زندہ بچنے والے ڈھائی لاکھ یہودیوں کی مشرقی یورپ سے فرار ہونے والی بریہا ("بچنا"، "بچ کر بھاگنا") تحریک میں شامل ایک رکن کی حیثیت سے وہ اور اس کے شوہر ایرن نے یورپ چھوڑنے کی کوشش کی۔ فلسطین میں داخل نہ ہو سکنے کے بعد وہ لوگ آخرکار امریکہ میں جا بسے۔
آئٹم دیکھیںجرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ جرمن قبضے کے بعد سارا (جو اُس وقت صرف تین سال کی تھیں) اور اُن کی والدہ کو زبردستی یہودی بستی میں بھیج دیا گيا۔ ایک دن پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک کیتھولک پولیس مین نے اُنہیں خبردار کیا کہ یہودی بستی ختم کی جانے والی ہے۔ اس نے پہلے سارا اور اُن کی والدہ کو اپنے گھر میں پناہ دی پھر ان کو آلوؤں کے گودام میں اور اُس کے بعد اپنی جائداد میں موجود مرغیوں کے ڈربے میں چھپائے رکھا۔ سارا وہاں تقریبا دو سال تک چھپی رہیں یہاں تک کہ سوویت فوجوں نے اس جگہ کو آزاد کرا لیا۔ جنگ کے بعد سارا یورپ سے پہلے 1947 میں اسرائيل آئیں اور پھر 1963 میں امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںھینے کے خاندان کا ایک فوٹوگرافی کا اسٹوڈیو تھا۔ اکتوبر 1940 میں اُنہیں اور اُن کے خاندان کے ارکان کو جنوبی فرانس میں گرس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ ستمبر 1941 میں چلڈرنز ایڈ سوسائٹی (او۔ ایس۔ ای) نے ھینی کو بچایا اور وہ لی چیمبون ۔ سر ۔ لگنون میں بچوں کے ایک رہائشی مرکز میں چھپ گئیں۔ اُن کی والدہ آشوٹز میں انتقال کر گئیں۔ 1943 میں ھینی نے جعلی کاغذات حاصل کئے اور سرحد پار کر کے سوٹزرلینڈ پہنچ گئیں۔ اُنہوں نے 1945 میں جنیوا میں شادی کر لی۔ 1946 میں اُن کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور 1948 میں وہ امریکہ اُن بسیں۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.