گیبریل جرمنی کے دارالحکومت برلن میں رہنے والے یہودی والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے دادا ایک دوا خانے اور ایک ادویات کی فیکٹری کے مالک تھے۔ اس فیکٹری سے اس کے والد بھی اپنی روزی کماتے تھے۔
1933-39: 1938 میں نازی افواج نے میرے دادا کو ایک جرمن آرین کو اپنی فیکٹری اور دوا خانہ نہایت کم قیمت کے عوض فروخت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد میرے والد نے ایمسٹرڈیم میں نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کر لیا جو یہودیوں کیلئے زیادہ محفوظ جگہ تھی۔ اس وقت میں 5 سال کی تھی اور میں برلن میں رہنا چاہتی تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھے اپنے دوست اور کھلونے کیوں چھوڑنے پڑ رہے ہیں۔ ایمسٹرڈیم میں جب میں نے ابتدائی اسکول شروع کیا تو مجھے ایک نئی زبان سیکھنی پڑی مگر میں نے جلد ہی وہاں نئے دوست بنا لئے۔
1940-44: مئی 1940 میں جرمنی نے نیدرلینڈ پر حملہ کر دیا۔ مجھے اپنے شہر کے اندر جرمن افواج کا مارچ کرنا یاد ہے۔ میں ان سے بے حد خوفزدہ تھی۔ اسکول جاتے وقت مجھے ایک پیلے رنگ کا یہودی ستارہ پہننا پڑتا تھا اور اب مجھے اپنے عیسائی دوستوں کے ساتھ کیھلنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب میں 9 سال کی تھی تو میرے خاندان کو مشرقی نیدرلینڈ میں واقع ویسٹربورک نامی ایک کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ادھر جب میرے والدین کام کر رہے ہوتے تھے میں نے کھانے کے عوض چیزیں چرانا سیکھا۔ ایک سال بعد ہمیں تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا۔ اس یہودی بستی میں میں ہر وقت بھوکی رہتی تھی۔
مئی 1945 میں بارہ سالہ گیبریل اور اس کے والدین کو تھیریسئن شٹٹ سے آزاد کر دیا گیا۔ اس جون میں سلٹن خاندان ایمسٹرڈیم لوٹ گیا جہاں وہ دوبارہ آباد ہو گیا۔
آئٹم دیکھیںہینی کے والدین کی ملاقات اس وقت ہوئی جب اس کے والد نے روس سے ہجرتکی تھی۔ ہینی اس یہودی جوڑے کی تین بیٹیوں میں پہلی بیٹی تھی۔ فرینکفرٹ تجارت، بنکاری، صنعت اور آرٹس کا ایک اہم مرکز تھا۔
1933-39: جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے "ناپسندیدہ" گروپوں کو بڑی تعداد میں اذیت دینی شروع کر دی جن میں یہودی، روما (خانہ بدوش)، ہم جنس پرست، معذور افراد اور بائیں بازو کے سیاستدان شامل تھے۔ 1938 کے بعد ایک نازی ضابطے کے مطابق یہودیوں کی نشاندہی کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تمام یہودی عورتیں سرکاری کاغذات میں اپنے پہلے نام سے پہلے "سارہ" شامل کریں۔ 24 سالہ ہینی ایک دوکان میں معاون کے طور پر کام کر رہی تھی اور اپنے خاندان کے ساتھ فرینکفرٹ میں رہتی تھی۔
1940-44: 1940 کے آغاز میں ہینی کو فرینکفرٹ میں گرفتار کر لیا گیا اور اس کو ریوینزبروئک کے زنانہ حراستی کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کی قیدیوں کی تصویر کی پشت پر لکھا ہوا تھا: "جینی سارہ شرمین، پیدائش 9 فروری 1912، فرینکفرٹ ، درائے مین۔ غیر شادی شدہ، فرینکفرٹ کی ایک دکان میں کام کرنے والی لڑکی۔ لائسنس یافتہ ہم جنس پرست، صرف ہم جنس پرستوں کی باروں میں جانے کی عادی ہے۔ 'سارہ" کے نام سے گریز کرتی ہے۔ بے ملک و قوم یہودی۔"
ہینی ریوینزبروئک کے قیدیوں میں سے ایک تھی جن کو جان سے مار دینے کیلئے چنا گیا۔ 1942 میں ہینی کو برنبرگ کی قتل گاہ میں گیس کے ذریعے ہلاک دیا گیا۔
آئٹم دیکھیںآرتھر جرمنی کے سب سے بڑے ساحلی شہر ہیمبرگ کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ربڑ اسٹیمپ بنانے والی فیکٹری کے مالک تھے۔ 1930 کی دہائی کے آغاز میں ہیمبرگ جرمنی بھر میں یہودی آبادی کے حوالے سے چوتھے نمبر تھا اور اس میں متعدد سماجی اور ثقافتی ادارے تھے۔
1933-39: 1935 تک ہیمبرگ میں رہائش پذیر یہودیوں کے حالات خراب تھے۔ میرے خاندان کو شہر کے دوسرے حصے میں منتقل کر دیا گيا اور 1938 میں نازیوں نے میرے والد کے کاروبار پر قبضہ کر لیا۔ قومی تعطیلات کے دوران حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے کیلئے جرمنی کے کئی باشندے نازيوں کے لال سفید اور سیاہ رنگ کے جھنڈے لہراتے تھے۔ میں نے اور میری بہن نے خود اپنا "نازی" جھنڈا بنا کر کھڑکی کے باہر لٹکا دیا۔ لیکن میرے والدین کو ہم پر بہت غصہ آیا اور اُنہوں نے جھنڈے کو واپس اندر کھینچ لیا۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم اپنے ملک کی حمایت کیوں نہیں کر سکتے۔
1940-44: 1941 میں مجھے مشرق میں 800 میل دور روس میں منسک کی یہودی بستی میں جلاوطن کر دیا گیا۔ گھیٹو یعنی یہودی بستی بہت بڑی تھی اور وہاں 8500 لوگ موجود تھے۔ مجھے ایک قریبی جرمن فوجی اڈے میں ایندھن کیلئے نباتاتی کوئلہ کاٹنے پر لگا دیا گیا۔ سپاہی باقاعدہ فوج سے تعلق رکھتے تھے اور وہ قیدیوں سے اس قدر برا سلوک نہیں کرتے تھے جتنا ایس ایس اہلکار کرتے تھے۔ مزدوری کی جگہ آتے جاتے ہوئے میں محافظ کی سائیکل کو دھکا لگاتا تھا۔ خوراک اس قدر قلیل مقدار میں تھی کہ ایک دن اُس نے مجھے آلوؤں کے گودام میں بند کر دیا تاکہ میں اُس کیلئے آلو چرا سکوں۔ وہ کچھ آلو مجھے بھی رکھ لینے دیتا تھا۔ ہم وہ آلو اُس کی سائیکل کے ذریعے کیمپ میں اسمگل کرتے تھے۔
منسک میں دو سال گزارنے کے بعد آرتھر کو پولینڈ کے متعدد کیمپوں میں جلاوطن کردیا گیا جہاں اُن کوجہازوں کی ویلڈنگ کے کام پر لگا دیا گیا۔ سن 1945 میں ڈاخو کیمپ کی جانب جبری مارچ کے دوارن اُنہیں آزاد کرا لیا گیا۔
آئٹم دیکھیںبڑھتے ہوئے سام دشمن اقدامات اور 1938 میں پوگروم کرسٹل ناخٹ ("ٹوٹے شیشوں کی رات") کے تناظر میں یوہنا خاندان نے جرمنی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُنہوں نے البانیا کے ویزے حاصل کئے، سرحد پار کر کے اٹلی چلے آئے اور 1939 میں بحری سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ اٹلی کے قبضے کے دوران البانیا میں مقیم رہے اور جب اٹلی نے 1943 میں ہتھیار ڈال دئے تو وہ جرمن تسلظ کے ماتحت رہے۔ اس خاندان نے جرمنوں اور البانین حامیوں کے درمیان جنگ کے نتیجے میں دسمبر 1944آزادی حاصل کی۔
آئٹم دیکھیںایڈورڈ ھیمبرگ میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1935 میں نیورمبرگ قوانین کے تحت جرمنی کے یہودی اور غیر یہودی افراد کے درمیان شادی یا جنسی تعلقات کی ممانعت تھی۔ ایڈورڈ اُس وقت اپنی عمر کی تیسری دہائی کے وسط میں تھے۔ ایڈورڈ کو ایک غیر یہودی عورت کے ساتھ ڈیٹ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ اُنہیں عادی مجرم قرار دیا گیا اور بعد میں اُنہیں برلن کے قریب واقع سیخسین ھاؤسن حراستی کیمپ میں جلا وطن کر دیا گیا۔ اُنہیں تعمیراتی منصو بوں میں مشقت پر مجبور کر دیا۔ ایڈورڈ نے قید میں جانے سے کچھ دیر قبل شادی کر لی تھی اور اُن کی بیوی نے جرمنی سے نقل مکانی کرنے کی خاطر انتظامات کر لئے تھے۔ ایڈورڈ کو 1938 میں حراست سے آزاد کر دیا گیااور اُنہوں نے جرمنی چھوڑ دیا۔ وہ نیدرلینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں اپنے رشتہ داروں کے پاس ٹھہرے اور پھر بعد میں اُنہوں نے امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.