بڑھتے ہوئے سام دشمن اقدامات اور 1938 میں پوگروم کرسٹل ناخٹ ("ٹوٹے شیشوں کی رات") کے تناظر میں یوہنا خاندان نے جرمنی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُنہوں نے البانیا کے ویزے حاصل کئے، سرحد پار کر کے اٹلی چلے آئے اور 1939 میں بحری سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ اٹلی کے قبضے کے دوران البانیا میں مقیم رہے اور جب اٹلی نے 1943 میں ہتھیار ڈال دئے تو وہ جرمن تسلظ کے ماتحت رہے۔ اس خاندان نے جرمنوں اور البانین حامیوں کے درمیان جنگ کے نتیجے میں دسمبر 1944آزادی حاصل کی۔
۔۔۔ یہ واقعہ اگست 1938 میں پیش ایا اور یہ حکومت کی جانب سے ایک حکمنامہ تھا کہ مرد اور خواتین تمام افراد کو یہودی نام اپنانا ہو گا۔ آپ کو اپنے نام میں درمیانی نام کا اضافہ کرنا تھا۔ تمام خواتین سارا کہلانے لگیں اور تمام مرد اسرائیل ہو گئے۔ یوں میرا نام یوہنا جٹا سارا گیریشٹر ہو گیا اور میری والدہ ایلس سارا گیریشٹر کہلانے لگیں جبکہ میرے والد کا نام سیگبرٹ اسرائیل گیریشٹر ہو گیا۔ اور یہ دلچسپ بات ہے۔ میں نے ابھی کچھ عرصہ قبل محسوس کیا کہ میرے بیٹے اور بہو کی طرح کے لوگوں نے کبھی ایسے قانون کے بارے میں سنا ہی نہیں ہے کہ کسی شخص کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ اپنے نام میں ایک نئے نام کا اضافہ کرے۔۔۔ اور یہ کیسے ہو گیا۔ یہ لوگ اس قدر مشتبہ کیوں ہو گئے کہ انہیں ہر چیز ترک کرتے ہوئے جرمنی چھوڑ دینا پڑا۔ لیکن اُن کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ میرے خیال میں یہ میرے بہو کی جانب سے انتہائی واجب سوال تھا۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ میرے والد یہ کہتے رہے کہ وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک اعلٰی افسر رہے تھے۔ اُن کے پاس آئرن کراس تھا۔ اُنہوں نے یہ کراس 1935 میں ہٹلر سے وصول کیا جو صرف اگلی صفوں میں لڑنے والوں کو دیا جاتا تھا۔اور یہ اُنہی لوگوں نے اُنہیں اندہ رہنے یا روزگار کمانے سے روک دیا اور کیسے اُنہیں باہر نکال دیا؟ میرا مطلب ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا آپ یقین ہی نہیں کر سکتے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.