ایوا یہودی والدین کےہاں پیدا ہونے والے پانچ بچوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ اُن کے والد جائیداد کا کاروبار کرتے تھے اور یہ خاندان اُس رہائشی عمارت کا مالک تھا جس میں وہ رہائش پزیر تھے۔ اِس عمارت میں ایک لفٹ بھی تھی جو اُس زمانے میں ایک پر تعیش چیز سمجھی جاتی تھی۔ ایوا نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد کیلئے کام کرنا شروع کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ ایک چھوٹی مقامی یونیورسٹی میں تاریخ کی تعلیم بھی حاصل کر رہی تھیں۔
1933-39: لوڈز میں نوجوانوں کیلئے نائٹ لائف خاصی رنگین تھی اور میں اکثر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رقص کیلئے جاتی تھی۔ ہم نے 1939 میں شادی کر لی۔ پھر جرمنوں نے حملہ کر دیا۔ ایک روز جرمن خفیہ پولیس گسٹاپو نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُنہوں نے میرے سسر کے منہ پر طمانچہ مارا اور مطالبہ کیا کہ ہم اپنے قیمتی قالین اُن کے حوالے کر دیں۔ میں نے احتجاج کیا کہ ملازمہ پہلے ہی اُنہیں لیجا چکی ہے۔ پھر جب وہ مجھ پر چلائے تو میں نے ایک شخص کا کالر پکڑ لیا اور چلائی، "تم ہم پر یقین کیوں نہیں کرتے؟ ہم یہاں سے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھو ہمارے سوٹ کیس"۔ اِس پر وہ چلے گئے۔
1940-44: ہرمین اور میں مئی 1941 میں جب خوراک کی تلاش میں پیوٹرکوف ٹریبیونلسکی کے گھیٹو میں پہنچے تو وہاں ہم پکڑے گئے۔ میرے خاندان کو بھی اِس گھیٹو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ میں نے اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ گھیٹو میں تین برس تک کام کیا۔ نومبر 1944 میں تمام عورتوں کو جرمنی کے ریون بروئک کے حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔ میرے خاندان کو بھی وہاں جلاوطن کردیا گيا۔ میں نے اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ تین سال تک اس یہودی بستی میں کام کیا۔ جب ہم ٹرین سے اترے تو نازیوں نے ہماری چھپائی ہوئی قیمتی چیزوں کیلئے ہماری تلاشی لی۔ کیمپ میں مجھے مسلسل سخت کام کرنا پڑا جس کی وجہ سے میری ریڑھ کی ہڈی کے ٹشو کو شدید نقصان پہنچا۔
جیسے جیسے اتحادیوں نے پیش قدمی کی کیمپ کے قیدیوں کو برگین بیلسن کیمپ بھجوا دیا گیا۔ وہاں ایوا کو اپریل 1945 میں برطانوی فوجیوں نے آزاد کرایا۔ وہ 1950 میں نقل مکانی کر کے امریکہ چلی آئی۔
آئٹم دیکھیںفرٹزی کے والد ترک وطن کر کے امریکہ آئے لیکن جب وہ اپنے خاندان کو امریکہ لانے والے تھے تو جنگ شروع ہو گئی اور فرٹزی کی والدہ بحر اوقیانوس سے گزرنے والے جہازوں پر حملوں سے خوفزدہ تھیں۔ فرٹزی، اُن کی والدہ اور دو بھائیوں کو بالآخر آش وٹز کیمپ بھیج دیا گیا۔ اُن کی والدہ اور بھائی وہاں موت کا شکار ہو گئے۔ فرٹزی نے بہانہ کرتے ہوئے خود کو بڑی عمر کا ظاہر کیا اور مضبوط ورکر کے طور پر کام کیا۔ آش وٹز سے موت کے مارچ پر جاتے ہوئے فرٹزی ایک جنگل میں بھاگ نکلیں جہاں سے بعد میں اُنہیں آزاد کرا لیا گیا۔
آئٹم دیکھیں1942 میں ہانا دوسرے یہودی افراد کے ساتھ تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی میں بند تھیں جہاں وہ نرس کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ وباؤں اور غربت میں وہاں کے مکین اوپرا، بحث و مباحثے اور شعر و شاعری کی مجلسیں منعقد کرتے تھے۔ 1944 میں ہانا کو جلاوطن کر کے آش وٹز بھیج دیا گیا۔ وہاں ایک ماہ گزارنے کے بعد اُُنہیں ساکش بھیج دیا گیا جو گراس روزن کا ایک ذیلی کیمپ تھا۔ وہاں وہ جبری مشقت کرتے ہوئے ہوائی جہازوں کے پرزے تیار کرتی تھیں۔ مئی 1945 میں وہ آزاد ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںبلانکا پولینڈ کے شہر لوڈز میں ایک مربوط خاندان کی اکیلی بچی تھی۔ اس کے والد کا 1937 میں انتقال ہوگيا۔ پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد بلانکا اور اسکی ماں بلانکا کی دادی کے پاس لوڈز میں ہی رہیں کیونکہ اُس کی دادی سفر کرنے سے قاصر تھی۔ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ 1940 میں اُنہیں زبردستی لوڈز یہودی بستی میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں بلانکا نے ایک بیکری میں کام کیا۔ بعد میں بلانکا اور اُس کی والدہ نے لوڈز یہودی بستی کے ایک ہسپتال میں کام کیا جہاں وہ 1944 کے آخر تک موجود رہیں اور پھر اُنہیں جرمنی میں ریونز بروئک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ ریونزبروئک کیمپ سے بلانکا اور اُس کی والدہ کو سیخسین ہاؤسن کے ذیلی کیمپ بھجوا دیا گیا۔ بلانکا کو وہاں ایک ہوابازی کی فیکٹری (اراڈو۔ ورکے) میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اُس کی والدہ کو کسی دوسرے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ سوویت فوجوں نے بلانکا کیمپ کو 1945 میں آزاد کرا لیا۔ بلانکا جو ایک ترک شدہ گھر میں رہ رہی تھی واپس لوڈز لوٹ آئی۔ وہاں اُسے معلوم ہوا کہ اُس کی والدہ سمیت کوئی بھی رشتہ دار زندہ نہیں بچا۔ بالآخر بلانکا مغرب کی جانب برلن میں بے دخل ہونے والے افراد کے ایک کیمپ میں پہنچ گئی۔ وہ 1947 میں ترک وطن کر کے امریکہ چلی آئی۔
آئٹم دیکھیںروتھ 1938 میں کرسٹل ناخٹ یعنی "ٹوٹے شیشوں کی رات" کے بعد نیدرلینڈ منتقل ہو گئیں۔ اُن کے پاس اور اُن کے والد کے پاس بحری جہاز کے ذریعے امریکہ جانے کا اجازت نامہ موجود تھا لیکن مئی 1940 میں جرمنی نے نیدرلینڈ پر حملہ کردیا اور یوں وہ لوگ وہاں سے روانہ نہ ہو سکے۔ روتھ کو 1943 میں ویسٹر بورک کیمپ میں بھیج دیا گیا اور پھر اُنہیں 1944 میں جرمنی کے برجن بیلسن کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ حلیف جماعتوں کے ساتھ ایک تبادلے کے معاہدے کے ناکان ہو جانے کے بعد روتھ کو سوٹزرلینڈ کی سرحد کے قریب کام پر لگا دیا گیا۔ بالآخر 1945 میں فرانسیسی فوجوں نے اُنہیں آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںجرمنی کے پولینڈ پر 1939 میں حملے کے بعد ڈورا کا خاندان لتھوانیا کے شہر ویلنا بھاگ گیا۔ جب جرمنی نے ویلنا پر قبضہ کر لیا تو ڈورا کے والد کو قتل کردیا گیا اور باقی ماندہ خاندان کو ویلنا یہودی بستی میں قید کردیا گیا۔ ڈورا، اُن کی بہن اور اُن کی والدہ کو لاٹویا کے کائزروالڈ کیمپ میں بھجوا دیا گیا اور پھر اُنہیں ڈینزگ کے قریب واقع شٹٹ ھوف حراستی کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ اُن کی والدہ اور بہن شٹٹ ھوف حراستی کیمپ میں ہلاک ہوگئں۔ ڈورا کو خود بھی آزادی سے کچھ ہی دیر قبل گولی مار دی گئی تھی لیکن وہ بچ گئیں۔
آئٹم دیکھیںشارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںمیڈلین چیکوسلواکیہ کے ایک علاقے میں ایک ایسے متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئیں جس پر ہنگری نے 1938-1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ اُن کے والد اپنے گھر سے ہی کام کرتے تھے اور اُن کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ میڈلین نے ہائی اسکول پاس کیا۔ اپریل 1944 میں اُن کے خاندان کو زبردستی ہنگری کی ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا۔ یہ خاندان اِس یہودی بستی میں دو ہفتے تک رہا اور پھر اُسے آش وٹز بھجوا دیا گیا۔ میڈلین اور اُن کی والدہ کو اُن کے والد اور بڑے بھائی سے الگ کردیا گيا۔ اُن کے والد اور بھائی دونوں جنگ کے دوران زندہ نہیں بچ سکے۔ آش وٹز پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میڈلین اور اُن کی والدہ کو بریسلاؤ کے ایک ہتھیاروں کے کارخانے میں کام کرنے کے لئے بھیج دیا گيا۔ یہ لوگ گراس روزن کے ذیلی کیمپ پیٹرزوالڈاؤ میں ایک سال تک رہے اور پھر مئی 1945 میں سوویت فوجیوں نے انھیں آزاد کرایا۔ میڈلین اور اُن کی والدہ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے دوران میونخ کے ایک بے گھر افراد کے کیمپ میں رہے۔ وہ مارچ 1949 میں نیویارک پہنچے۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.