جان ڈولی بوئیس 13 سال کی عمر میں 1931 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جا بسے تھے۔ کالج سے گریجوئیشن کرنے کے بعد ڈولی بوئیس نے امریکی فوج کے 16 ویں بکتر بند ڈویژن میں شمولیت اختیار کی۔ جرمن زبان کی مہارت کی وجہ سے وہ ملٹری انٹیلی جنس میں شامل ہو گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب وہ اس عہدہ و صلاحیت کے ساتھ یورپ میں واپس آئے۔ ڈولی بوئیس نے جنگی مجروں پر جنگ کے بعد کے مقدمات کی تیاری کے لیے سرکردہ نازیوں سمیت جرمن جنگی قیدیوں سے پوچھ گچھ کی۔ بعد میں اُنہیں اپنے پیدائشی ملک لگزمبرگ میں امریکی سفیر مقرر کیا گیا۔
مئی میں جب ہم نے ان آدمیوں سے پوچھ گچھ کرنا شروع کی تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک پر مقدمہ چلایا جانیوالا ہے۔ ہم جانتے تھے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ لیکن ہمیں اس فیصلے پر پہنچنے سے پہلے بہت سی معلومات حاصل کرنا تھیں۔ اور لگزمبرگ میں حراستی مرکز "ایشکن" کا واقعی یہی کام تھا۔ ایک مقدمہ تیار کرنے میں میں مقدمہ چلانے والے عملے کی معاونت کرتا، جو بعد میں ایک گرینڈ جیوری کی طرح ہو ، "جی ہاں، ایک جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔" اور اب اس شخص پر یہ مقدمہ چلایا جانا ہے۔ اور یہی طریقۂ کار ہے۔ اور ہم اس نام نہاد گرینڈ جیوری، جنگی جرائم کمیشن، کے لئے تفتیش کار تھے۔ میں یہ تفتیش کرنے کے علاوہ ان کے پاس جاتا اور ان سے گپ شپ کرتا اور ان کی تھوڑی سی معاونت کرتا جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ اگر جوتوں کا ایک تسمہ ٹوٹ جاتا تو میں انہیں ایک نیا تسمہ لا دیتا۔ بس اسی طرح کی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں۔ تھوڑا سا ٹوتھ پیسٹ۔ اگر انہیں کوئی مسئلہ ہوتا، دانت میں درد ہوتا، تو انہیں دیکھنے کے لئے میں دانتوں کے ڈاکٹر کا بندوبست کرتا۔ اور اس طرح انہوں نے بات کرنا شروع کی۔ مجھے کہنا چاہئے کبھی نہیں۔ اپنے بارے میں شاذ و نادر ہی، جب یہ بات ہوتی، مثال کے طور پر "کیا میں اس کا مجرم ہوں، یا میں اُس کا مجرم ہوں، یا کیا میں حراستی کیمپوں کے بارے میں جانتا ہوں،" ۔ لیکن وہ کہتے، "اوہ، ڈاخاؤ، جی ہاں، اسی طرح کی ایک جگہ تھی۔ فلاں فلاں سے پوچھیں، وہ اس میں ملوث تھا۔" اور یہ ایک طرح کی خفیہ خبر ہوتی جو ہماری تفتیش میں ہماری مدد کرتی۔ لہذا لگزمبرگ میں ہمارے گرمیوں کے دوروں کا مقصد بنیادی طور پر قیدیوں، ان کے کردار اور ان کی شخصیات کو جانتے سے متعلق تھا جو پراسیکیوٹرز کو ان کے نقطہ نظر تک پہنچنے میں مدد کرتا، جب وہ ان پر مقدمہ چلاتے۔ اور تاریخی مقاصد کے لئے بھی۔ ہمارے پاس بے شمار تاریخی جنگی محکموں کے کمیشن اور مورخین تھے، جو ان قیدیوں سے تفتیش کرنا چاہتے تھے۔ کئی بار ہمارے پاس ہوور انسٹی ٹیوٹ یا کسی دوسرے تھنک ٹینک کا ایک پروفیسر ہوتا جو جنگ کی تاریخ کے ایک خاص پہلو پر کام کر رہا ہوتا۔ وہ آتا اور ہم ان کی طرف سے تفتیش کرتے۔ وہ تفتیش کے دوران وہاں بیٹھتے لیکن وہ جرمن نہیں بول سکتے تھے، اور ہم قیدی سے تفتیش کرتے اور وہ معلومات حاصل کرتے جو وہ تاریخی طور پر چاہتے تھے۔ انٹرویو لینے والا: آپ اس دورے کی وضاحت کیسے کریں گے؟ جان: ہم انہیں سچ بتائیں گے کہ یہ آدمی ایک تاریخ دان ہے اور وہ ٹینک کی تاریخ لکھ رہا ہے جو جرمن کمانڈ کی جانب سے استعمال کئے گئے، اور وہ حکمتِ عملیاں جو رومیل کی جانب سے افریقہ میں استعمال کی گئیں، ٹینک کی جنگ میں گاڈیرین کی جانب سے، اور ہاں، وہ آپ کو اس کے بارے میں سب کچھ بتائیں گے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.