Theme: جوابات

امریکی حکومت اور امریکی عوام نے نازی ازم کے خلاف کیسا ردعمل دیا؟

1930 اور 1940 کی دہائیوں کے دوران نازی ازم کے حوالے سے امریکی ردعمل پر غور کسی دوسرے ملک میں مظالم یا نسل کشی کے جواب میں مداخلت کرنے کی ذمہ داری کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں۔ جیسے ہی ہٹلر نے 1933 میں اقتدار سنبھالا، امریکیوں کو نازی جرمنی کے یہودیوں اور دیگر گروہوں پر مظالم کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اگرچہ چند امریکیوں نے نازی ازم کے خلاف احتجاج کیا، تاہم، امریکہ میں یہودیوں کے ساتھ نازی سلوک کی مخالفت کے لیے کوئی مستقل اور ملک گیر کوشش نہیں کی گئی تھی۔ امریکہ کے جنگ عظیم دوم میں داخل ہونے کے بعد بھی حکومت نے یہودیوں کے بچاؤ کو اہم جنگی مقصد نہیں بنایا۔

ان عوامل اور دباؤ کے بارے میں جاننے کے لیے اس سوال کو دریافت کریں جو نازی ازم کے خلاف امریکہ کے ردعمل پر اثرانداز ہوئے۔

متعلقہ روابط

جیسے ہی ہٹلر نے 1933 میں اقتدار سنبھالا، امریکیوں کو نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اگرچہ چند امریکیوں نے نازی ازم کے خلاف احتجاج کیا، تاہم، امریکہ میں یہودیوں کے ساتھ نازی سلوک کی مخالفت کے لیے کوئی مستقل اور ملک گیر کوشش نہیں کی گئی تھی۔ غیرجانبداری کے لیے عزم اور تارکین وطن کے خلاف گہرے تعصبات کے ساتھ مل کر وسیع کساد بازاری نے یورپ سے آنے والے یہودی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے امریکی رضامندی تشکیل دینے میں مدد دی۔ اگرچہ امریکہ نے اس عرصے میں اپنی استعداد سے کافی کم ویزے جاری کیے، لیکن اس نے کسی بھی دیگر قوم کے مقابلے میں یورپ سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کو قبول کیا۔ اس کے علاوہ، افراد اور نجی امدادی ایجنسیوں نے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے کوششیں کیں۔

1941 میں جب امریکہ جنگ عظیم دوم میں داخل ہوا تو حکومت نے جمہوریت کے دفاع کو ترجیح دی۔ جنگ کے وقت حکومت کا مقصد یہودیوں کو بچانا نہیں تھا۔ 1945 کے موسم بہار میں اتحادی افواج نے، جن میں لاکھوں امریکی وردی میں خدمات انجام دے رہے تھے، نازی جرمنی اور اس کے ایکسز حواریوں نے عسکری طور پر شکست دے کر ہولوکاسٹ کا خاتمہ کیا۔

1920 کی دہائی میں امریکہ

1918 میں جنگ عظیم اول کے اختتام سے 1920 کی دہائی تک امریکہ کافی تیزی سے تنہائی پسند قوم بن گئی۔ یہ دیگر ممالک کے سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہی۔ حکومت نے اپنی فوج کے حجم میں کمی کی اور غیر جانبدار پالیسی پر کاربند رہی۔ کانگریس نے لیگ آف نیشنز میں شمولیت کے خلاف ووٹ دیا، جو امریکہ کی بین الاقوامی امور میں شمولیت کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا عندیہ دیتا ہے۔

1924 میں امریکی کانگریس نے امیگریشن کے نئے قوانین منظور کیے۔ ان قوانین نے امریکہ میں سالانہ امیگریشن کے لیے حدود طے کیں۔ آبائی ملک کے لحاظ سے مرتب کیے جانے والے منظم کوٹہ سسٹم نے شمالی اور مغربی یورپ کے تارکین وطن کو ترجیح دی۔ جنوبی اور مشرقی یورپ، جہاں یورپی یہودیوں کی اکثریت تھی، نسبتاً نقصان میں رہے۔ یہ قوانین جزوی طور پر "یوجینک سائنس" کے وسیع پیمانے پر قبول کردہ نظریات اور نسلی اور قومی گروہوں کی درجہ بندی سے متعلقہ عقائد پر مبنی تھے۔ اس دورانیے میں امریکہ کے پاس پناہ گزینوں سے متعلق کوئی ٹھوس پالیسی نہیں تھی۔ مظالم سے فرار اختیار کرنے والوں کو دیگر تارکین وطن جیسے طریقہ کار کا نشانہ بنایا گیا۔

امریکہ میں نسل پرستی اور یہود دشمنی عام تھی۔ اس علیحدگی کو اکثر قوانین، رسوم و رواج اور تشدد کے ذریعے نافذ کیا جاتا تھا۔ امیگریشن کو محدود کرنے والے قوانین نے تعصب کے اس ماحول پر انحصار کیا اور انہیں آگے بڑھایا، جس کی وجہ سے "مثالی" امریکی کو سفید فام اور پروٹسٹنٹ کے طور پر فروغ دیا۔

1929 میں اسٹاک مارکیٹ میں مندی رہی اور امریکہ میں بہت بڑی کساد بازاری کا آغاز ہوا۔ باقی دنیا میں اس کے اثرات تیزی سے پھیل گئے۔ چار سال بعد تمام کارکنوں میں سے %25 (تقریباً 13 ملین امریکی) بے روزگار ہی رہے۔ بہت سے امریکیوں کو اپنی جمع پونجی، گھروں اور املاک کا نقصان ہوا۔ صدر ہربرٹ ہوور کی انتظامیہ میں (1933-1929)، امیگریشن ڈرامائی طور پر کم ہو گئی۔ بہت سے امریکیوں کا خیال تھا کہ تارکین وطن روزگار کے محدود مواقع کے لیے مقابلے میں آئیں گے۔ معاشی تباہی نے بہت سے امریکیوں کو اندرونی معاملات تک محدود کر دیا، جس سے وہ بین الاقوامی معاملات کی بجائے اپنے کنبوں اور کمیونٹی کی مقامی بحالی پر توجہ دینے لگے۔

نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کے متعلق امریکی ردعمل

پوسٹر (ریاستہائے متحدہ امریکہ کے یہودی وار ویٹرنز کی طرف سے جاری کیا جانے والا) جس میں جرمن اشیاء کے بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

جنوری 1933 میں ایڈولف ہٹلر کے جرمنی کے چانسلر بننے کے بعد نئی نازی حکومت نے پورے ملک میں فوری طور پر محدود کرنے والے یہود دشمن قوانین کا نفاذ شروع کر دیا۔ 1930 کی دہائی میں امریکی اخبارات نے نازی جرمنی کی طرف سے یہودیوں پر مظالم کے بارے میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا۔ 1933 کے موسم بہار میں بڑے شہروں میں امریکیوں نے نازی مخالف ریلیوں اور مارچ میں شرکت کی۔ ملک بھر میں ہزاروں افراد نے یہودیوں پر نازیوں کے حملوں کے خلاف احتجاجی پٹیشنز پر بھی دستخط کیے۔ مختلف یہودی تنظیموں اور مزدور یونینز نے جرمن ساختہ اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کے لیے امریکیوں کو قائل کرنے کی بھی کوشش کی۔ نیز، امریکی عوام میں سے کچھ طبقات نے برلن کی 1936 کی سمر اولمپک گیمز کا بائیکاٹ کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ نومبر 1938 میں گریٹر جرمنی میں یہودیوں کے خلاف کرسٹلناخت کے دہشت گردانہ حملے کی عالمی سطح پر مزمت کی گئی اور یہ تقریباً تین ہفتے تک امریکہ کے بیشتر علاقوں میں صفحہ اول کی خبر رہی۔

یہ کوششیں کبھی بھی امریکہ میں مستحکم اور وسیع پیمانے پر نازی مخالف تحریک کی وجہ نہیں بنیں۔ اگرچہ امریکیوں کی اکثریت کو نازی ازم کے بارے میں معلوم تھا اور اسے ناپسند کرتی تھی، تاہم بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ امریکی حکومت کا یہ کردار نہیں ہے کہ وہ جرمنی کے اپنے شہریوں کے ساتھ سلوک میں سرگرم مداخلت کرے۔

مہاجرین کا بحران

مارچ 1938 میں جرمنی کے آسٹریا (آنشولس) کے ساتھ الحاق کے بعد لاکھوں یہودی امریکہ کے لیے امیگریشن کے ویزوں کے حصول کے لیے انتظار کی طویل فہرست میں شامل ہو گئے۔ امریکی امیگریشن کا عمل پیچیدہ اور افسر شاہی کی من مانیوں پر مبنی تھا۔ اس کے لیے درخواست گزاروں کو کافی زیادہ کاغذی کارروائی جمع کروانے کی ضرورت ہوتی تھی، جن میں سے کچھ مہنگی اور حاصل کرنے میں مشکل ہوتی تھیں۔ جو یہودی امریکہ ہجرت کرنا چاہتے تھے، انہیں ویزوں اور سفری اختیارات کی محدود تعداد کے لیے کوشش کرنی پڑی، جو جنگ شروع ہونے کے بعد مزید محدود اور مہنگے ہو گئے تھے۔ زیادہ تر لوگ ویزا حاصل کرنے سے قاصر تھے کیونکہ کوٹہ کے نظام نے ان تارکین وطن کی تعداد کو محدود کر دیا تھا جو کسی ایک سال کے دوران امریکہ میں داخل ہو سکتے تھے۔ 1939 تک 300,000 سے زائد لوگ جرمنی سے امریکی امیگریشن ویزے کے لیے انتظار کی فہرست میں تھے — اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ تمام دستیاب ویزے جاری کیے جائیں گے، ان کے لیے انتظار کا وقت 10 سال سے زیادہ تھا۔

متعدد اندرونی مباحثوں کے باوجود نہ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی انتظامیہ، اور نہ امریکی کانگریس نے یورپ سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کرنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی مدد کے لیے امیگریشن کے قوانین کو نرم بنایا۔ اس کے برعکس اس دور میں سرحدیں کھولنے کے بجائے امیگریشن کو مزید کم کرنے کے حوالے سے کانگریس میں بہت سی تجاویز موجود تھیں۔

1938 تک نازی جرمنی کی جانب سے یہودیوں پر مظالم اور پورے یورپ میں علاقائی توسیع کی وجہ سے پیدا ہونے والے مہاجرین کے بحران سے امریکی بخوبی آگاہ ہو چکے تھے۔ ہزاروں امریکیوں نے امریکہ ہجرت کرنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کو سپانسر کرنے کے حلف ناموں پر دستخط کیے یا امدادی ایجنسیوں کو رقم عطیہ کی۔ ہمدرد صحافیوں، مشہور شخصیات، اور ترجمانوں، جیسا کہ ڈوروتھی تھامسن اور ایلینور روزویلٹ نے امریکیوں کو تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی امریکہ کے لیے مثبت کردار کے متعلق آگاہ کرنے کی کوشش کی۔

 بہت سی نجی ایجنسیوں — کچھ یہودی اور کچھ غیر یہودی، بعض طویل عرصے سے قائم شدہ اور کچھ نئی — نے پناہ گزینوں کی جانب سے اہم قیادت فراہم کی۔ ان ایجنسیوں نے مہاجرین کو امیگریشن کے پیچیدہ عمل سے گزرنے میں مدد کی۔ اپنی کوششوں کے جزو کے طور پر انہوں نے کاغذی کارروائی کی وضاحت کی، مالیاتی سپانسر تلاش کیے اور جہازوں کے ٹکٹ خریدے۔ انہوں نے امریکی شہری بننے کے عمل، روزگار اور پناہ گزینوں کے لیے رہائش کے حوالے سے ان لوگوں کی مدد کی جو امریکہ داخل ہونے کے لحاظ سے کافی خوش قسمت رہے۔ یہودی اور غیر یہودی تنظیموں نے بھی یورپ میں رہنے والوں کے لیے خوراک، کپڑے اور ادویات فراہم کیں۔ اہم لیکن محدود حکومتی کارروائی کے ساتھ ان کوششوں کی وجہ سے 1938 اور 1941 کے درمیان کم از کم 111,000 یہودی پناہ گزینوں کو امریکہ پہنچنے میں مدد ملی۔  

پھر بھی 1930 کی دہائی کے دوران امریکہ میں یہود دشمنی میں اضافہ ہوا۔ امریکیوں کی اکثریت نے یورپ سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے لاکھوں یہودیوں کی مدد کے لیے امیگریشن کے محدود قوانین میں نرمی کی حمایت نہیں کی تھی۔ زیادہ تر ہمدردی نازی ازم کا شکار لوگوں کی مدد کے لیے عمل میں تبدیل نہیں ہوئی۔ 1940 میں فرانس کی شکست کے بعد امریکیوں کو مزید تشویش لاحق ہوئی کہ تارکین وطن، حتیٰ کہ یہودی پناہ گزینوں کی وجہ سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ امریکہ میں داخل ہونے والے کسی بھی فرد کو ممکنہ نازی جاسوس کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اس لیے امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکاروں نے ویزے کے ان تمام درخواست دہندگان کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کے خیال میں سکیورٹی کو خطرہ لاحق کر سکتے تھے۔

میوزیم کے اندازے کے مطابق 1933 اور 1945 کے درمیان نازی مظالم سے فرار ہونے والے 180,000 سے 225,000 کے درمیان پناہ گزینوں نے امریکہ ہجرت کی۔ اگرچہ امریکہ نے کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے میں زیادہ پناہ گزینوں کو قبول کیا، لیکن اگر اس مدت کے دوران کوٹے کو پورا کیا جاتا یا بڑھا دیا جاتا تو ہزاروں مزید افراد کو امریکہ امیگریشن کے ویزے دیے جا سکتے تھے۔  

جنگ کے وقت ردعمل

ستمبر 1939 میں جنگ عظیم دوم کے آغاز کے بعد زیادہ تر امریکیوں کو امید تھی کہ امریکہ غیر جانبدار رہے گا۔ بہت سے لوگ اب بھی سمجھتے تھے کہ 1917 میں جنگ عظیم اول میں امریکی مداخلت ایک غلطی تھی اور جنگ کے دوران امریکیوں سے مانگی گئی قربانیاں غیر ضروری تھیں۔ تاہم، اگلے دو سالوں میں تنہائی اور مداخلت کے مابین قومی بحث و مباحثے کی وجہ سے امریکی حکومت اور امریکی عوام نے آہستہ آہستہ اتحادی قوتوں کی حمایت شروع کردی۔ اس کے باوجود امریکہ اس وقت تک جنگ میں داخل نہیں ہواا جب تک کہ اس پر براہ راست حملہ نہ ہوا۔

7 دسمبر 1941 کو جاپان کی جانب سے پرل ہاربر پر بمباری کے بعد امریکہ نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور جنگ عظیم دوم میں شریک ہو گیا۔ نازی جرمنی نے 11 دسمبر 1941 کو امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ امریکی فوج 1941 میں عالمی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ 1942 کے بیشتر دورانیے میں امریکی بحریہ نے بحرالکاہل میں جنگ لڑی، جبکہ بری افواج نے شمالی افریقہ اور یورپ میں لڑائی کے لیے تربیت حاصل کی۔ نومبر 1942 میں محکمہ خارجہ نے تصدیق کی کہ نازی جرمنی یورپ کے تمام یہودیوں کو قتل کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ 8 نومبر 1942 کو شمالی افریقہ پر اتحادیوں کے حملے کے چند ہفتے بعد ہی امریکی عوام نے نازی جرمنی کے منصوبے کے متعلق پڑھنے کے لیے پہلی بار اپنے اخبارات کھولے۔ اکثریت نے نازی ازم کے خلاف جنگ کو جمہوریت کے تحفظ کی جنگ تصور کیا۔ یہودیوں کو بچانا امریکہ کی ترجیح یا جنگی مقصد نہیں تھا۔

ایک معمولی اقلیت نے یورپ کے یہودیوں کی جانب سے بات کی۔ جب 1943 میں یہودیوں کے قتل عام کے متعلق مزید معلومات امریکیوں تک پہنچیں، تو کچھ تنظیموں، جیسا کہ پیٹر برگسن کی ایمرجنسی کمیٹی ٹو سیو دی جیوش پیپل آف یورپ (Emergency Committee to Save the Jewish People of Europe) نے ریلیاں نکالیں، مارچ کیے اور روزویلٹ انتظامیہ سے امدادی منصوبہ تشکیل دینے کے لیے پورے صفحے کے اخباری اشتہارات لگائے۔ انہوں نے امریکی عوام کے سامنے اعلان کیا کہ نازی حکومت اور اس کے حواری پہلے ہی دو ملین سے زائد یہودیوں کو قتل کر چکے ہیں۔ (اب مؤرخین کا اندازہ ہے کہ 1943 کے آخر تک پانچ ملین سے زیادہ یہودیوں کو قتل کیا جا چکا تھا۔)

جنوری 1944 میں امریکی محکمہ خزانہ کے عملے کو پتہ چلا کہ محکمہ خارجہ نے انسانی بنیادوں پر امداد کو یورپ پہنچانے میں تاخیر کی اور یہودیوں کے قتل کے بارے میں معلومات کو امریکی عوام تک پہنچنے سے روکا۔ محکمہ خزانہ کے عملے کے ان ارکان نے صدر روزویلٹ کو بورڈ برائے جنگی پناہ گزین (War Refugee Board) قائم کرنے پر آمادہ کیا۔ بورڈ برائے جنگی پناہ گزین کو امداد اور ریسکیو کے منصوبے انجام دینے کا کام سونپا گیا تھا، بشرطیکہ یہ منصوبے جنگ کی کوششوں میں رکاوٹ نہ بنیں۔ بورڈ اوسویگو، نیویارک میں پناہ گزین کیمپ کھولنے میں کامیاب ہوا۔ بورڈ نے سویڈن کے تاجر راؤل والن برگ کو بھی وہاں کے یہودیوں کی حفاظت کے لیے بوداپیسٹ بھیجا۔ حتمی طور پر بورڈ نے لاکھوں جانیں بچائیں اور جنگ کے آخری ڈیڑھ سال میں مزید لاکھوں لوگوں کی مدد کی۔

ہولوکاسٹ کا اختتام 1945 کے موسم بہار میں اس وقت ہوا جب اتحادی افواج، بشمول خدمات انجام دینے والے لاکھوں امریکیوں نے نازی جرمنی اور اس کے ایکسز حواریوں کو شکست دی اور تب تک موجود حراستی کیمپوں کو آزاد کروایا۔

جنگ کے بعد امریکی ردعمل

بے گھر لوگ ریاستہائے متحدہ کی طرف کوچ کررہے ہیں

جنگ کے خاتمے کے بعد کے مہینوں میں اتحادی عسکری کمانڈ نے جنگ سے بے دخل ہونے والے لاکھوں شہریوں کے لیے بے دخل افراد کے کیمپ کھولے، جن میں نئی آزادی پانے اور زندہ بچ جانے والے یہودی اور جبری مزدور بھی شامل تھے۔ 1945 کے موسم گرما میں صدر ہیری ایس ٹرومین نے ایک امریکی وکیل ارل ہیریسن کو یورپ میں بے دخل افراد (DP) کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا۔ ہیریسن نے ان DP کیمپوں کے حالات کے بارے میں ایک پریشان کن رپورٹ پیش کی۔ اس نے صدر ٹرومین کو بتایا کہ "ایسا لگتا ہے کہ ہم یہودیوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جیسا نازیوں نے کیا، ماسوائے اس کے کہ ہم انہیں ختم نہیں کر رہے۔" ہیریسن کی رپورٹ سے ان کیمپوں کے نظم و نسق میں بہتری آئی۔ ان مہاجرین کو آباد کرنے کا کام نہ تو جلدی ممکن تھا اور نہ ہی آسان۔ کچھ DP کیمپ 1950 کی دہائی تک کھلے رہے۔

جنگ کے بعد اتحادی افواج نے نازی جرمنی کے جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے جنگی جرائم کے مقدمات بھی چلائے۔ تاہم، بعض صورتوں میں امریکہ نے اس شرط پر نازی حکومت کے ساتھ لوگوں کے تعاون کو نظر انداز کرنے پر آمادگی ظاہر کی، اگر وہ امریکی حکومت کو سائنسی علم یا سوویت انٹیلی جنس فراہم کر سکیں، جو تب سرد جنگ میں داخل ہو رہی تھی۔

امریکہ نے فوری طور پر ہولوکاسٹ کے متاثرین کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولے۔ بالآخر، 1948 میں ڈسپلیسڈ پرسنز ایکٹ (Displaced Persons Act) نے 400,000 بے دخل افراد کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دی، اگرچہ اکثریت یہودی نہیں تھی۔ میوزیم کے اندازے کے مطابق 1945 اور 1952 کے درمیان تقریباً 80,000 زندہ بچنے والے یہودی امریکہ ہجرت کر گئے تھے۔

تنقیدی سوچ سے متعلق سوالات

  • 1939 سے پہلے امیگریشن اور ہجرت کے خلاف امریکی مزاحمت کی بنیادی وجوہات کیا تھیں؟ کیا یہ عوامل جنگ عظیم دوم کے دوران تبدیل ہوئے؟

  • اندرون اور بیرون ملک کون سے دباؤ اور محرکات آپ کے ملک میں امیگریشن، یا حتیٰ کہ پناہ گزینوں کی مدد کی حمایت یا مزاحمت کا باعث بنتے ہیں؟

  • نازیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے جرمنی اور یورپ میں ہونے والے واقعات کا علم آج کے شہریوں کو نسل کشی اور اجتماعی مظالم کے خطرات کا جواب دینے میں کیسے مدد کر سکتا ہے؟

Thank you for supporting our work

We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.