سیلما وجنبرگ
پیدا ہوا: 15 مئ، 1922
گروننگن, نیدرلینڈ
سیلما، وجنبرگ کے چار بچوں میں سب سے چھوٹی اور اکلوتی بیٹی تھی۔ جب اس کی عمر 7 برس تھی تو اس کے گھر والوں نے زوولے (نیدرلینڈ میں) کے قصبے میں کاروبار کرنے کے لئے گروننگن چھوڑ دیا۔ وہاں اس کے والدین نے ایک چھوٹا ہوٹل چلایا جو اس علاقے میں کاروبار کے باعث سفر کرنے والے یہودی بزنس مینوں میں مقبول و معروف تھا۔ ہر جمعہ بھیڑ بکریوں کا بازار لگتا تھا اور کئی تاجر کاروبار کے سلسلے میں یا صرف کافی پینے کیلئے وجنبرگ کے ہوٹل میں آيا کرتے تھے۔
1933-39: گھر میں ہم یہودی عقائد کی اطاعت کرتے تھے کیونکہ میری والدہ مذہبی تھیں۔ ہمارا ہوٹل کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں یہودی قوانین کی پابندی کرتا تھا۔ جمعہ کی شام کو عبادت کے بعد ہم گھر میں جمع ہو کر عبرانی زبان میں گیت گاتے تھے۔ ہم ہر بفتے کو یہودی عبادت گاہ جایا کرتے تھے اور گھر لوٹنے پر ایک شاندار کھانا کھاتے تھے۔ میں صیہونی سرگرمیوں میں بہت سرگرم تھی اور ہر موسم گرما میں صیہونی کیمپوں میں شرکت کرتی تھی۔
1940-44: مئی 1940 میں جرمنوں نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا تھا۔ سن 1943 میں مجھے جلاوطن کر کے سوبی بور کے موت کے کیمپ میں بھیج دیا گيا جہاں مجھے اور چند اور لوگوں کو کام کروانے کی غرض سے زندہ رکھا گیا۔ سوبی بور میں پہلے دن کے ڈھلنے پر حاضری کیلئے ہم کیمپ نمبر ایک کے کھلے میدان میں جمع ہوئے۔ کیمپ نمبر تین سے آگ نکل رہی تھی۔ جلتے انسانی گوشت کی بساند بہت شدید تھی۔ کسی نے مجھ سے پوچھا "جانتی ہو اس آگ کا کیا مطلب ہے؟" میں نے سر ہلایا۔ اس نے تشریح کی کہ یہ ہماری سواری کی چتا تھی۔ پھر جرمنوں نے ہمیں جوڑیوں میں ناچنے کا حکم دیا اور ایک قیدی نے وائلن بجایا۔
جہاں تک اسے خبر تھی، سیلما سوبی بور کی قتل گاہ سے زندہ بچنے والی واحد حقیقی ڈچ قیدی تھی۔ جنگ کے بعد اس نے شادی کرلی۔ 1957 میں اس نے اور اُس کے شوہر نے امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔