ہالوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے قتلِ عام میں اکثر یورپی لوگوں اور اُن کا ساتھ دینے والے دوسرے افراد کی بے حسی کے باوجود ہر یورپی ملک میں انفرادی لوگوں اور مختلف مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد نے یہودیوں کی مدد کرنے کیلئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔ یہودیوں کو بچانے کی اِس کوششوں میں انفرادی سطح کے اقدامات کے علاوہ چھوٹے اور بڑے دونوں ہی طرح کے منظم نیٹ ورک شامل تھے۔

وسیع پیمانے پر کی جانے والی امدادی کوششوں میں سے ایک جانی پہچانی کوشش نازی مقبوضہ ڈنمارک میں ہوئی۔ اکتوبر 1943 میں ڈنمارک کے حکام کو ایس ایس کی جانب سے ڈنمارک کے یہودیوں کی پکڑ دھکڑ کا علم ہوا۔ اُس وقت ڈنمارک میں مزاحمت نے ایک امدادی کارروائی منظم کی تھی جس میں ڈنمارک کے ماہی گیروں نے تقریباً 7200 یہودیوں کو پناہ کیلئے فیریوں کے ذریعے غیر جانبدار سویڈن میں پہنچا دیا (اُس وقت ڈنمارک میں یہودیوں کی کل تعداد 7800 تھی)۔

دوسری عالمی جنگ سے پہلے یہودیوں کی سب سے زیادہ آبادی پولینڈ میں تھی اور وہاں کچھ عیسائی باشندوں نے اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے یہودیوں کی مدد کی۔ اِن مردوں اور عورتوں نے یہودیوں کو چھپنے کی جگہ کی پیشکش کی یا پھر اُن کی زندگی کو بچانے کیلئے جعلی دستاویزات فراہم کیں۔ پولینڈ کی ایک خفیہ تنظیم زیگوٹا Zegota نے ھزاروں یہودی بچوں کو بحفاظت وارسا کی یہودی بستی یعنی گھیٹو سے باہر پہنچایا۔ دوسرے غیر یہودی افراد نے اتحادیوں کو کارروائی پر آمادہ کرنے کیلئے اُن کی توجہ نازیوں کے نسلی قتل و غارتگری کے منصوبوں کی طرف مبذول کرائی۔ پولینڈ کی جلاوطن حکومت کے ایک پیغامبر جان کارسکی نے برطانوی اور امریکی سیاستدانوں کو یہودیوں کے قتل کے نازی منصوبوں کے بارے میں چوکس کیا۔

زندگی بچانے کی کارروائیوں میں پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک، ایسٹرن آرتھوڈوکس اور مسلمانوں سمیت ہر مذہبی پس منظر کے لوگ شامل تھے۔ فرانس میں ایک چھوٹے سے گاؤں لی چیمبون سُر لِگنون Le-Chambon-sur-Lignon کی پروٹیسٹنٹ Huguenot آبادی نے کئی ھزار یہودیوں کو پناہ دی۔ اُدھر بیلجیم میں ایک Benedictine بھکشو فادر برونو نے تین ھزار سے زائد یہودیوں کو بچایا۔ یورپ کے باہر مقیم یہودیوں نے اپنے بھائی بندوں کو بچانے کیلئے خاصا کام کیا اور اکثر اُن کیلئے فرار کے راستوں کو ممکن بنایا۔ اِن میں وہ یہودی بچے بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے والدین کو چھوڑ کر کہیں اور پناہ لی تھی۔

ہالوکاسٹ کے دوران ھزاروں عام افراد نے جرمن مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی مدد کیلئے خود کو خطرے میں ڈالا۔ بالٹک ملکوں بیلجیم، چیکوسلواکیہ، فرانس، جرمنی، ہنگری، اٹلی، ہالینڈ، اسکینڈے نیویا، سوویت یونین اور یوگوسلاویہ بلکہ تمام تر یورپ میں مردوں اور عورتوں کی ایک قلیل تعداد نے یہودیوں کو چھپنے میں مدد دی۔ اُنہیں مادی مدد فراہم کی یا پھر تحفظ کیلئے جعلی شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کی۔

متعدد افراد نے یہودیوں کو بچانے کیلئے اپنا ذاتی اثرورسوخ بھی استعمال کیا۔ بوڈاپیسٹ میں سویڈن کے سفارتکار راؤل والن برگ، سوٹزرلینڈ کے سفیر کارلٹز اور اطالوی شہری جیورجیو پرلاسکا نے ھزاروں یہودیوں کو جعلی حفاظتی پاس فراہم کئے جن کے باعث وہ انتہائی یہود مخالف اقدام اور جلا وطنی سے مستثنیٰ رہے۔ جرمنی کے علاقے سوڈیٹن Sedeten سے تعلق رکھنے والے صنعتکار آسکر شنڈلر نے پولینڈ میں کراکو یہودی بستی یعنی گھیٹو کے باہر اینیمل ورکس قائم کی اور یہودی کارکنوں کو وہاں کام دے کر جلاوطنی سے تحفظ فراہم کیا۔ بلغاریہ کی حکومت کی طرف سے 1943 کے موسمِ بہار میں بلغاریہ کے یہودیوں کو ملک سے نکالنے کے منصوبوں کو اُس کی کلیدی سیاسی اور مذہبی شخصیات کی مداخلت سے ناکامی ہوئی۔ اِس کارروائی سے بلغاریہ کے بادشاہ بورس تین Boris III جلاوطنی کا عمل روک دینے پر مجبور ہو گئے۔ لیتھوئینیا میں جاپانی سفارتکار Chiune (Sempo) Sugihara نے فرار کے خواہشمند یہودی پناہ گذینوں کو دو ھزار ٹرانزٹ ویزے جاری کئے۔

ہالوکاسٹ کے بارے میں منکشف ہونے والے واقعات کے بارے میں امریکی ردِعمل کچھ بحث و تمحیص کا معاملہ ہے لیکن کچھ افراد اور امریکی مذہبی تنظیمیں نازیوں کے جبر کا شکار یہودیوں اور دوسرے افراد کے بچاؤ کیلئے فعال تھیں۔ کویکرز امریکن فرینڈز سروس کمیٹی نے فرانس، پرتگال اور سپین میں یہودی پناہ گذینوں کی امدادی کارروائیوں کیلئے رابطہ کاری کا کام کیا۔ کمیٹی نے فرانس میں یہودی بچوں کو امریکہ لانے کیلئے ویزے بھی حاصل کئے۔ مقبوضہ فرانس میں سرگرم امریکی صحافی ویرین فرائی Varian Fry نے تقریباً دو ھزار افراد کو جعلی دستاویزات کی فراہمی اور اُن کے فرار کیلئے خفیہ راستوں کی منصوبہ بندی کی۔

اُنہوں نے چاہے ایک ھزار افراد کو بچایا یا پھر ایک واحد زندگی کا بچاؤ کیا، ہالوکاسٹ کے دوران یہودیوں کی مدد کرنے والوں نے انتہائی دشوار حالات میں انفرادی انتخاب کے امکان کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ضمیر شناسی اور جرات مندی کی اِن کارروائیوں نے تباہی کا ہدف بننے والوں کی تھوڑی سی تعداد کو ضرور بچا لیا۔