ظلم و ستم اور نسل کشی کی حکمت عملیوں کے نتیجے میں تمامتر مقبوضہ یورپ میں نازیوں کے خلاف مزاحمت نے جنم لیا۔ اگرچہ نازیوں کے اولین ہدف یہودی ہی تھے، اُنہوں نے بھی نازیوں کے جبر و ستم کے خلاف مجموعی اور انفرادی سطح پر کئی انداز میں مزاحمت کی۔

نازیوں کے خلاف یہودیوں کی سب سے مضبوط مخالفت منظم مسلح بغاوت کی شکل میں سامنے آئی۔ سب سے بڑی مسلح بغاوت وارسا کی یہودی بستی یا گھیٹو میں اپریل ۔ مئی 1943 میں ہونے والی بغاوت تھی جس کی وجہ یہ افراہیں تھیں کہ نازی گھیٹو میں باقی رہ جانے والے افراد کو پولینڈ میں واقع ٹریبلنکا قتل گاہ میں بھجوانے والے ہیں۔ جرمن فوجیں جونہی گھیٹو میں داخل ہوئیں، یہودی لڑاکا تنظیم (زائڈوسکا آرگنائزیکجا بوجووا یعنی زی۔ او۔ بی) نے جرمن ٹینکوں پر دستی بم پھینکے۔ اگرچہ نازیوں کے پاس ہتھیار اور نفری کہیں زیادہ تھی اُنہیں گھیٹو کو تباہ کرنے اور باقی ماندہ مزاحمت کاروں کو باہر نکالنے کیلئے 27 دن تک لڑائی جاری رکھنی پڑی۔

ولنا اور بایالسٹاک کے علاوہ متعدد دیگر یہودی بستیوں میں بھی بغاوت کی آگ بھڑکی۔ اِن بستیوں کے مزاحمت کار جانتے تھے کہ اس طرح کی تھوڑی بہت فوجی مزاحمت یہودیوں کو اجتماعی ہلاکت سے نہیں بجا سکتی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ یہودی عزت و آبرو کو بچانے اور نازیوں کی جانب سے بہت بڑی تعداد میں یہودیوں کی ہلاکت کا انتقام لینے کیلئے لڑتے رہے۔

بہت سے یہودی مذاحمت جاری رکھتے ہوئے گھیٹو سے بھاگ کر جنگلوں میں چلے گئے اور دیگر جنگجو گروپوں میں شامل ہوگئے۔ یہودی کونسلوں (جوڈین ریٹ) کے کچھ چیرمینوں نے جرمن احکام کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے مزاحمت کی اور یہودیوں کو قتل گاہوں میں بھیجنے کیلئے ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔

تین قتل گاہوں میں پُر تشدد بغاوتیں ہوئیں۔ سوبی بور اور ٹریبلنکا میں قیدیوں نے چرائے ہوئے ہتیاروں سے ایس۔ ایس کے عملے اور اُس کے یوکرینین ذیلی محافظوں پر حملہ کردیا۔ اکثر باغیوں کو گولی مار دی گئی تاہم بہت سے قیدی فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ آشوٹز میں چار یہودی عورتوں نے لاشیں جلانے والی بھٹی کو نذر آتس کرنے میں وہاں کام کرنے والوں کی مدد کی۔ اِن چاروں باغی عورتوں کو مار ڈالا گيا۔

نازیوں کے زیادہ تر زیر اثر یا مقبوضہ ملکوں میں یہودی مزاحمت دوسرے قیدیوں کی مدد اور اُنہیں بچانے پر مرکوز تھی۔ فلسطین میں یہودی حکام نے حنّا سزینس جیسے چھاتہ برداروں کو خفیہ طور پر یہودیوں کی مدد کیلئے ہنگری اور سلوواکیا بھیجا۔ فرانس میں زیر زمین یہودی تحریکوں کے بہت سے عناصر متحد ہوئے تاکہ وہ Armée Juive (یہودی فوج) کو تشکیل دیں۔ بیلجیم، فرانس، اٹلی اور مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں میں بہت سے یہودیوں نے قومی مزاحمت کی تحریکوں میں شامل ہوکر لڑائی جاری رکھی۔

تشدد ہی یہودی مزاحمت کی واحد صورت نہیں تھی۔ کچھ یہودیوں نے جبری مشقت والی اُن فیکٹریوں میں تخریبی کارروائیوں کے ذریعے بھی مزاحمت کی جن میں وہ جرمنی کی جنگی کوشش کیلئے کام پر معمور تھے۔ دوسرے لوگ خوراک کی اسمگلنگ اور دستاویز کی جعلسازی والے نیٹ ورکوں میں شامل ہوگئے یا پھر اُنہوں نے اپنے اور دوسرے لوگوں کے لئے محفوظ جگہ تلاش کرنے کیلئے کام کیا۔

گھیٹو اور دیگر کیمپوں میں رہنے والے یہودیوں نے نازیوں کے ظلم و ستم کا جواب روحانی مزاحمت کی صورت میں بھی دیا۔ خفیہ یہودی ثقافتی اداروں کا قیام، ممنوعہ مذھبی رسومات کو جاری رکھنا اور یہودیوں کی داستانوں کو یاد کرنا اور اُنہیں بیان کرنا (مثال کے طور پر وارسا یہودی بستی میں اونیگ سبت سے متعلق تاریخی دستاویزات کے ذریعہ) یہودیوں کی تاریخ، اُن کے وقار اور نسلی زندگی کے تحفظ کی شعوری کوششیں تھیں۔ یہ کوششیں یہودیوں کو انسانی تاریخ سے حذف کردینے کے نازی اقدامات کے باوجود جاری رہیں۔