ریاستہائے متحدہ امریکہ اور ہولوکاسٹ
امریکیوں کو نازی حکومت کی طرف سے یہودیوں پر روا رکھے جانے والے ظلم و ستم سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل تھی، لیکن زیادہ تر لوگ یہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ اُن کے قتل عام کی مہم حقیقت میں ممکن ہو سکتی تھی۔ اگرچہ زیادہ تر امریکیوں کو یورپی یہودیوں کی حالت زار پر اُن سے ہمدردی تھی، پناہ گذینوں کی مدد کرنا اور نازیوں سے اُن کو بچانا کبھی بھی قومی ترجیح نہ بن پایا۔
اہم حقائق
-
1
امریکہ میں موجود بے روزگاری اور قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ یہاں موجود یہود دشمنی اور نسل پرستی سمیت داخلی خدشات نے نازی ازم کے بارے میں رد عمل اور یورپی یہودیوں کی مدد کیلئے آمادگی کی بنیاد رکھی۔
-
2
ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دیگر اتحادی قوموں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران انسانی بھلائی کے اقدامات پر جنگ میں فوجی فتح کو ترجیح دی۔ جنگ کے دوران نازی سلطنت اور اُس کے حلیفوں کی طرف سے ہدف بنائے جانے والے یہودیوں کو بچانا اتحادیوں کا مقصد نہیں تھا۔
-
3
امریکہ نے 1933 سے 1945 کے دوران نازیوں کے ظلم و ستم سے فرار حاصل کرنے والے 180,000 سے 225,000 تک پناہ گذینوں کو داخلے کی اجازت دی۔ اگرچہ امریکہ نے کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ پناہ گزینوں کو قبول کیا، اگر امریکہ اُس زمانے کیلئے مقرر کردہ کوٹے کو پر کر لیتا تو اس سے زیادہ لوگوں کو امریکی امیگریشن ویزا فراہم کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ میں عظیم کساد بازاری کے نتیجے میں ہونے والی معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار رہنے کے عظم اور امیگرینٹس کے خلاف موجود گہرے تعصب کے باعث امریکیوں کی طرف سے امیگرینٹس کو خوش آمدید کہنے کیلئے رضامندی محدود رہی۔ نہ تو صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی انتظامیہ اور نہ ہی امریکی کانگریس نے امریکہ کے پیچیدہ اور نوکرشاہی کے تابع امیگریشن کے مراحل کو درست کرنے کی کوشش کی تاکہ یورپ سے فرار کی کوشش کرنے والے ہزاروں پناہ گذینوں کی مدد کی جا سکے۔ اس میں کوٹہ یعنی امیگرینٹس کی تعداد کی حد مقرر کرنے کا ضابطہ شامل تھا۔ اس کے بجائے امریکی محکمہ خارجہ نے اس مدت کے دوران اسے مزید محدود کرنے کے نئے اقدامات متعارف کرا دئے جن کے تحت امیگرینٹس کیلئے امریکہ میں داخل ہونا مزید مشکل ہو گیا۔ اگرچہ امریکہ جتنے لوگوں کو امیگریشن ویزا جاری کر سکتا تھا، اُن کے مقابلے میں کم لوگوں کو ویزا جاری کیا گیا، پھر بھی اس نے دیگر تمام ممالک کے مقابلے میں نازیوں سے بچ کر آنے والے زیادہ پناہ گذینوں کو قبول کیا۔
ستمبر 1939 میں جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو زیادہ تر امریکیوں کو اُمید تھی کہ امریکہ اس جنگ میں غیر جاندار رہے گا۔ امریکہ میں اگلے دو برس تک اس بارے میں شدید بحث جاری رہی۔ یہ بحث امریکہ کو الگ رکھنے والوں اور جنگ میں شامل ہونے کا مشورہ دینے والوں کے درمیان تھی۔ اول الذکر فریق جنگ سے باہر رہنے اور نصف کرہ ارض غربی کے دفا ع پر توجہ مرکوز کرنے کا حامی تھا جبکہ دوسرے فریق کا مؤقف تھا کہ امریکہ کو فعال طور پر برطانیہ کا ساتھ دینا چاہئیے چاہے اس کیلئے جنگ کود جانا پڑے۔ امریکہ نے رفتہ رفتہ اتحادی قوتوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ 7 دسمبر، 1941 کو پرل ہاربر پر جاپان کے حملے نے اس بحث کا خاتمہ کر دیا اور امریکہ نے فوری طور پر جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس کے جواب میں جلد ہی جرمنی نے بھی امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔
امریکہ دوسری جنگ عظیم میں حلیف قوتوں (جرمنی، اٹلی اور جاپان) کے خلاف اتحادی ممالک کے ساتھ لڑائی میں شریک ہو گیا۔ امریکہ کا مقصد جمہوریت کا دفاع کرنا تھا اور اس کا مقصد نازی سلطنت سے یہودیوں کو بچانا نہیں تھا۔ جنوری 1944 میں امریکی حکومت نے جنگی پناہ گذینوں کا بورڈ تشکیل دیا جس کے ذمے نازیوں کا ہدف بننے والے یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کو بچانا اور اُن کی مدد کرنا تھا۔ جنگ کے آخری سال کے دوران امریکہ نے دسیوں ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ 1945 کے موسم بہار میں بشمول لاکھوں امریکی فوجیوں کے اتحادی فوجوں نے نازی جرمنی اور اُ س کی حلیف قوتوں کو شکست سے دی اور اس طرح ہولوکاسٹ کا خاتمہ ہو گیا۔