مقبوضہ پولینڈ میں یہودی بستیاں، 1939-1941

نازی جرمنی یورپی یہودیوں پر مظالم اور اجتماعی قتل عام میں کلیدی اور بنیادی مرتکب فریق تھا۔ دیگر یورپی محوری قوتوں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی حد تک ہولوکاسٹ میں حصہ لیا۔ یہ ممالک اٹلی، ہنگری، رومانیہ، سلوواکیہ، بلغاریہ اور کروشیا تھے۔ 

جبکہ محوری اتحاد کے رکن جاپان نے ایشیا اور بحرالکاہل میں اپنے زیر تسلط علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظالم ڈھائے۔ تاہم، اس نے ہولوکاسٹ میں حصہ نہیں لیا۔ حتیٰ کہ بعض یورپی یہودیوں نے شنگھائی جیسے جاپانی تسلط والے علاقے میں پناہ حاصل کی۔

نازی جرمنی کے تمام یورپی محوری اتحادیوں نے جرمنی کے نیورمبرگ قوانین کی طرح یہود دشمن قوانین کو اپنایا اور حریف نسل کے طور پر اپنی یہودی رعایا پر مظالم کو قانونی حیثیت دی۔ 

1942 تک، نازی جرمنی اور اس کے یورپی محوری اتحادیوں کا تقریباً تمام براعظم یورپ اور اس کی نو ملین یہودیوں کی آبادی پر کنٹرول تھا۔ نازی جرمنی نے یورپ کے تمام یہودیوں کو قتل کرنے کے مقصد کے ساتھ "آخری حل" کا آغاز کیا۔ اور اس نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد کے لیے اپنے یورپی محوری شراکت داروں سے مدد طلب کی۔ ان ممالک کی ہر حکومت نے نازی جرمنی کی "آخری حل" کی پالیسی کو انجام دینے میں کسی حد تک حصہ لیا۔ رومانیہ اور کروشیا نے اپنی سرحدوں کے اندر یا اپنے زیر تسلط علاقوں میں یہودیوں کو قتل کیا۔ بلغاریہ، سلوواکیہ، اور جرمنی کے زیر تسلط ہنگری اور شمالی اٹلی نے یہودیوں کو ان علاقوں سے منتقل کیا جن پر ان کا کنٹرول تھا تا کہ جرمن انہیں قتل کر سکیں۔ ان چھ ممالک کی حکومتوں اور افواج کے ہاتھوں قتل یا جرمن حراست میں منتقل کیے گئے یہودیوں کی تعداد 800,000 سے زیادہ تھی۔ 

اس طرح نازی جرمنی کے یورپی محوری اتحادیوں نے یہودیوں کے طور پر نشانہ بنائے گئے چھ ملین افراد کی ہلاکت اور یورپ بھر میں یہودی کمیونٹی کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے باوجود، "آخری حل" نازیوں کا اقدام تھا۔ نازی جرمنی ہولوکاسٹ کا محرک اور اصل مجرم تھا۔

جرمنی کے یورپی اتحادی اور ہولوکاسٹ

اٹلی

1938 میں، اٹلی کی فاشسٹ حکومت نے یہود دشمن نسلی قوانین کو اپنایا جو نازی جرمنی کے 1935 کے نیورمبرگ کے نسلی قوانین پر مبنی تھے۔ جنگ عظیم دوم کے ابتدائی چار سالوں کے دوران، اطالوی افواج نے گولیوں کے ذریعے یہودیوں کے اجتماعی قتلِ عام میں حصہ نہیں لیا۔ اطالوی حکومت اور فوج نے بھی اٹلی میں یا اطالوی مقبوضہ علاقوں میں سے کسی بھی یہودی کو جرمن تحویل میں منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہزاروں یہودی اطالوی مقبوضہ علاقوں میں فرار ہو گئے، جہاں انہیں کسی حد تک تحفظ ملا۔ حتیٰ کہ اطالوی حکام نے کچھ یہودیوں کو اطالوی سرزمین کی جانب بھی بے دخل کیا۔ 

تاہم، ستمبر 1943 میں، مسولینی کا تختہ الٹنے اور نئی اطالوی حکومت کے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد جرمن افواج نے وسطی اور شمالی اٹلی پر قبضہ کر لیا۔ جرمنوں نے مسولینی کو شمالی اطالوی قصبے سالو میں قائم کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ مقرر کیا۔ سالو حکومت کی باضابطہ منظوری اور فاشسٹ حکام اور ملیشیا کی مدد سے، جرمنوں نے ہزاروں یہودیوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا۔ 

مجموعی طور پر، جرمنوں نے 8,564 اطالوی یہودیوں اور اٹلی میں مقیم غیر ملکی یہودیوں کو ملک بدر کیا۔ صرف 1,009 لوگ واپس لوٹے تھے۔

ہنگری

یہودیوں کی جلاوطنی۔ کوسزیگ، ہنگری، 1944ء۔

ہنگری کی حکومت نے 1938 اور 1941 میں یہود دشمن نسلی قوانین کو اپنایا۔ 1941 میں سوویت یونین پر حملے کے بعد، چیکوسلواکیہ سے الحاق شدہ علاقے میں ہنگری کی افواج نے کم از کم 16,000 یہودیوں کو یوکرین میں جرمنی کے زیر تسلط علاقے میں بے دخل کیا جہاں انہیں گولی مار دی گئی۔ جنوری 1942 میں، ہنگری کی افواج نے ہزاروں یہودیوں کو اس علاقے میں گولی مار دی جس کا ہنگری نے یوگوسلاویہ سے الحاق کیا تھا۔ تاہم 1942 کے آغاز سے، ہنگری کی حکومت نے ہنگری میں مقیم یہودیوں اور اپنے الحاق شدہ علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے جرمنوں کی متواتر درخواستوں سے انکار کر دیا۔ 

مارچ 1944 میں، جرمن افواج کے ہنگری پر قبضے کے بعد، ہنگری کی حکومت نے اپنے زیر تسلط یہودیوں کو ملک بدر کرنے پر اتفاق کیا۔ ہنگری کی پولیس نے 1944 کے وسط مئی اور وسط جولائی کے درمیان تقریباً 440,000 یہودیوں کو آشوٹز جلا وطن کر دیا۔ 300,000 سے زیادہ کو فوری طور پر قتل کر دیا گیا۔ اکتوبر 1944 میں، جرمنوں نے ہنگری میں ایک سخت یہود دشمن حکومت قائم کی جس نے ہنگری کے باقی ماندہ یہودیوں پر مظالم ڈھائے اور قتل عام کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 100,000 اموات ہوئیں۔

رومانیہ

رومانیہ میں یہود دشمن قوانین اور تشدد نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش سے پہلے ہی موجود تھے۔ جون 1941 میں، رومانیہ کی افواج کے جرمن افواج کے ساتھ مل کر سوویت یونین پر حملہ کرنے کے بعد رومانیہ نے ہزاروں رومانیائی اور یوکرینی یہودیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ رومانیہ کے حکام نے مزید بہت سے رومانیائی یہودیوں کو رومانیہ کے زیر تسلط یوکرین کی یہودی بستیوں اور کیمپوں میں بھی جلاوطن کر دیا، جہاں وہ بھوک اور بیماری سے مر گئے۔ رومانیہ کے زیر تسلط علاقوں میں 150,000 اور 200,000 کے درمیان یہودی ہلاک ہوئے۔ 

1942 میں، رومانیہ کے رہنما مارشل آئن اینٹونیسکو کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ محوری قوتیں جنگ ہار جائیں گی اور رومانیہ کو یہودیوں پر مظالم اور قتل عام کی سزا دی جائے گی۔ اس لیے رومانیہ نے اپنے باقی ماندہ یہودیوں کو جرمنی کے زیر تسلط پولینڈ منتقل کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں، رومانیہ کے اندر تقریباً 300,000 یہودی جرمنوں کے "آخری حل" پروگرام کا شکار ہونے سے بچ گئے۔

سلواکیہ

1939 اور 1941 کے درمیان، سلوواکیہ نے یہود دشمن نسلی قوانین کا ایک سلسلہ اپنایا جو یہودی ضابطہ کے نام سے مقبول ہوئے۔ مارچ 1942 میں، سلوواکیہ جرمنی کا پہلا محوری اتحادی بنا جس نے اپنی یہودی آبادی کو ملک بدر کرنے پر اتفاق کیا۔ مارچ اور اکتوبر 1942 کے درمیان، سلوواکیہ کی پولیس اور پیرا ملٹری تنظیموں نے تقریباً 57,000 یہودیوں کو سلواکیہ کے مزدوری اور حراستی کیمپوں میں اکٹھا کیا اور انہیں جرمنی کے زیر تسلط پولینڈ بھیج دیا۔ جنگ میں صرف 300 کے قریب یہودی زندہ بچے۔ 

1942 کے موسم خزاں میں، سلوواکیہ نے اپنے باقی 24,000 یہودیوں کی ملک بدری کو روک دیا۔ 1944 میں سلواکیہ میں بغاوت کے دوران، جرمن افواج نے کئی ہزار سلوواکیائی یہودیوں کو ہلاک اور 12,000 سے زائد کو ملک بدر کیا۔ جنگ عظیم دوم کے دوران، 70,000 سے زائد سلوواکیائی یہودیوں کو جرمنی کی تحویل میں دیا گیا۔ جرمنوں نے ان میں سے 60,000 سے زائد کو قتل کیا۔ 

بلغاریہ

بلغاریہ کے مقبوضہ مقدونیہ سے یہودیوں کی جلاوطنی

بلغاریہ نے جنوری 1941 میں نیورمبرگ کے نسلی قوانین کی اپنی طرز اپنائی، جس کی متعدد بلغاریائی افراد اور بلغاریائی آرتھوڈوکس چرچ نے مذمت کی۔ مارچ 1943 میں، یونان اور یوگوسلاویہ کے علاقوں پر قابض بلغاریائی فوج اور پولیس فورسز نے ان علاقوں سے 11,343 غیر بلغاریائی یہودیوں کو جرمنی کے زیر تسلط پولینڈ میں جلاوطن کر دیا۔ عملی طور پر ان سب کو فوری طور پر ٹریبلنکا میں قتل کر دیا گیا۔ بلغاریہ کی حکومت کے بلغاریائی یہودیوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے نے احتجاج اور بڑے پیمانے پر مخالفت کو جنم دیا۔ مئی 1943 میں، بلغاریہ کی حکومت نے صوفیہ سے 20,000 یہودیوں کو دیہی علاقوں میں بے دخل کیا، ان کے اثاثے ضبط کر لیے، اور مردوں کو جبری مشقت کے کیمپوں میں رکھا۔ بلغاریہ کی حکومت نے بلغاریہ کے اندر کسی بھی یہودی کو جرمنی کی تحویل میں نہیں دیا۔ نتیجتاً، تقریباً تمام بلغاریائی یہودی جنگ عظیم دوم کے دوران بچ گئے۔ 

کروشیا

کروشیا کی آزاد ریاست 10 اپریل، 1941 کو وجود میں آئی۔ تین ہفتوں کے اندر، اس نے اپنے زیر کنٹرول کروشیئن اور بوسنیائی یہودیوں پر ظلم و ستم کیا اور انہیں قید کرنا شروع کر دیا۔ کروشیا کی استاشا (Ustaša) افواج نے 1941 کے موسم گرما میں یہودیوں کو مارنا شروع کیا۔ کروشیائی حکام نے تقریباً 20,000 سے 25,000 یہودیوں کو قتل کیا اور تقریباً 7,000 یہودیوں کو جرمنی کی تحویل میں دیا۔