1933 میں نازی وزیر برائے مقبول روشن خیالی اور پراپیگينڈا جوزف گوئبیلز نے ثقافت کی ہم آہنگی کے اقدامات شروع کئے جن کے تحت مختلف فنون کو نازی مقاصد کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ حکومت نے ثقافتی تنظیموں سے یہودیوں اور سیاسی یا فنی طور پر مشکوک افراد کو الگ کردیا۔ برلن میں کتابیں جلانے کی ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں برٹولٹ بریخٹ، لائن فیوخٹ وینگر اور ایلفریڈ کر جیسے نامور جرمن ادیبوں کی کتابوں کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔

ستمبر 1933 میں ریخ ایوان ثقافت قا‏ئم کیا گيا جو ریخ ایوان فلم، ایوان موسیقی، ایوان تھییٹر، ایوان صحافت، ایوان تحریر، ایوان فنون لطیفہ اور ایوان ریڈیو پر مشتمل تھا۔ یہ ثقافتی ایوان جرمن ثقافت کے ہر ایک پہلو کی نگرانی اور انتظام کرتا تھا۔ نازیوں کی جمال پرستی نے فنون کی پراپیگینڈا سے متعلق قدروں پر زور دیا اور کسانوں، "آریائی" اور جنگی ہیرو پرستی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ یہ نظریہ جدید اور جدت پسند فن سے بالکل متضاد تھا مثلاً تجریدی آرٹ جسے زوال پذیر فن اور "فنی بولشیوائی" اور "ثقافتی پولشیوائی" بھی کہا جانے لگا

تعمیرات میں نازیوں نے شاندار، کلاسیکی انداز کی یادگاریں تعمیر کیں جن کا مقصد ان کی سیاسی تحریک کی "عظمت" کو ظاہر کرنا تھا۔ ادب میں انہوں نے ایڈولف بارٹیلز جیسے ادیب اور ہٹلر یوتھ سے تعلق رکھنے والے شاعر ھینز بیومان جیسے شاعروں کے کام کو فرو‏‏غ دیا اور عوامی لائبریروں سے "ناقابل قبول" کتابیں ہٹا دینے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے ایک بلیک لسٹ بھی تیار کی۔ واک (عوام) کے اردگرد گھومنے والے کسانوں کے ادب اور تاریخی ناولوں کے علاوہ جرمن ثقافتی حکام نے لوگوں کو تصادم کیلئے تیار کرنے کی خاطر جنگ کے متعلق ناولوں کو بھی فروغ دیا۔

جرمن "فن کی تخلیق" (فنون اور فنکاروں کو فروغ دینے کی خاطر تمام تدابیر کے لئے ایک اصطلاح) فلم پر بھی حاوی رہی۔ اسے حکومت کی طرف سے بھاری مراعات حاصل رہیں اور فلمی صنعت پراپیگینڈا کا ایک اہم ذریعہ تھی۔ "لینی ریفینسٹاھل کی "ٹرائمف آف دا وِل" اور "ڈیر ھٹلرجُنگے کوئیکس" جیسی فلموں نے نازی پارٹی اور ہٹلر یوتھ کی تعریفیں بیان کیں جبکہ "ایچ کلاگے این" جیسی دیگر فلموں کے ذریعے رحیمانہ قتل کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح "جوڈ سوئیس" اور "ڈیر ایویگے جوڈے" (آوارہ یہودی) میں سام دشمنی سے متعلق روایتی تصورات کی عکاسی کی گئی۔

موسیقی میں نازیوں نے یوہین سیبھاشین باخ، لوڈ وگ وان بیتھوون، اینٹن برکنر اور رچرڈ ویگنر جیسے جرمن موسیقاروں کی تخلیقات کو فروغ دیا جبکہ اُنہوں نے فیلکس مینڈیل سوھن اور گُسٹاف ماہلر جیسے "غیر آریائی" موسیقاروں کی تخلیق شدہ دھنوں پر پابندی عائد کر دی۔ ھٹلر خود موسیقار رچرڈ ویگنر کے اعزاز میں منعاد ہونے والے بے ریوتھ تہواروں میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتا تھا۔ نازیوں نے قوم پرستی پر پبنی نغموں اور مارچوں کو فروغ دیا تاکہ اپنے نطریات لوگوں پر ٹھونسے جا سکیں۔

تھیٹر کمپنیوں نے گوئٹے اور شیلر جیسے مصنفوں کے ڈرامے پیش کئے اور ان کے ساتھ ساتھ قومی سوشلسٹ ڈراموں کا بھی انعقاد کیا۔ واک یا قومی برادری (واکس جیمین شافٹ) کا عظیم تصور اجاگر کرنے کی خاطر نازیوں نے آوٹ ڈور ایمفی تھیٹر تعمیر کئے۔

"آریائی" ثقافت کو فروغ دینا اور فن کی دوسری تخلیقات کو دبانا نازیوں کی جرمنی کو "پاک" بنانے کی ایک اور کوشش تھی۔