وانسی کانفرنس کے بعد کے مہینوں میں نازی حکومت نے "حتمی حل" کے منصوبوں پر عملدرآمد جاری رکھا۔ یہودیوں کو "جلاوطن" کیا گيا – یعنی انہيں ریل گاڑیوں یا ٹرکوں کے ذریعے چھ کیمپوں میں لے جايا گیا جو سب ہی مقبوضہ پولینڈ میں واقع تھے: یہ کیمپ چیلمنو، ٹریبلنکا، سوبیبور، بیلزک، آش وٹز- برکناؤ اور مجدانیک- لبلن تھے۔

نازيوں نے ان کیمپوں کو "قتل گاہوں" کا نام دیا۔ جلاوطن ہونے والے افراد میں سے زيادہ تر کو بڑے گروپوں میں زہریلی گیس کے ذریعے فوراً ہی ماردیا جاتا تھا۔ نازیوں نے گیس کے ذریعے مارنے کو قتل و غارت کے ترجیحی طریقہ کار کے طو پر اپنا لیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ گولی مارنے سے زیادہ "صاف ستھرا" اور "تیز" تھا۔ گیس کے ذریعے مارنے سے قاتل ٹیم کے ممبران لوگوں کو آمنے سامنے گولی مارنے کی وجہ سے ہونے والی جذباتی پریشانی کا شکار نہيں ہوتے تھے۔ قتل کے مراکز نیم دیہی اور دور دراز علاقوں میں واقع تھے اور لوگوں کی نظروں سے کافی حد تک پوشیدہ تھے۔ وہ بڑی ریلوے لائنز کے قریب واقع تھے تاکہ ریل گاڑیوں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو قتل کے مقامات پر با آسانی لے جایا جاسکے۔

ان لوگوں میں سے کئی کو قریبی یہودی بستیوں سے جلاوطن کیا گيا۔ کچھ کو دسمبر 1941 سے لایا گیا تھا، یعنی وانسی اجلاس سے بھی پہلے۔ تاہم 1942 کے موسم گرما میں ایس ایس نے یہودی بستیوں کو سنجیدگی کے ساتھ خالی کرنا شروع کیا۔ دو سال میں بیس لاکھ سے زائد یہودیوں کو یہودی بستیوں سے باہر نکالا گیا۔ 1944 کے موسم گرما تک مشرقی یورپ میں چند ہی یہودی بستیاں باقی رہ گئيں۔

جس وقت یہودی بستیوں کو خالی کیا جارہا تھا، اس وقت یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے ساتھ روما (خانہ بدوشوں) کو جرمنی کے مقبوضہ علاقوں یا جرمنی کے زیر کنٹرول دور دراز علاقوں سے لے جایا جارہا تھا جن میں فرانس، بیلجیم، نیدرلینڈ، ناروے، ہنگری، رومانیہ، اٹلی، شمالی افریقہ اور یونان شامل تھے۔ جلاوطنی کے لئے کئی لوگوں کی مدد ضروری تھی جن میں جرمن حکومت کی تمام شاخیں شامل تھیں۔ پولینڈ میں جلاوطنی کے شکار افراد کو پہلے سے ہی یہودی بستیوں میں قید کردیا گیا اور وہ مکمل طور پر جرمنوں کے کنٹرول میں تھے۔ تاہم یورپ کے دوسرے علاقوں سے یہودیوں کی جلاوطنی ایک زيادہ پیچیدہ مسئلہ تھا۔ جرمنی کی وزارت خارجہ مقبوضہ اور حامی اقوام کی زيادہ تر حکومتوں پر اپنے ممالک میں یہودیوں کی جلاوطنی کے سلسلے میں جرمنوں کی مدد کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئی۔

اہم تواریخ

15 جولائی 1942
نیدرلینڈ سے منظم جلاوطنی شروع ہوگئی

نیدرلینڈ کے یہودیوں کو ویسٹربورک کے ٹرانزٹ کیمپ میں باقاعدہ جمع کیا گیا۔ ویسٹربورک بھیجے جانے والے یہودیوں میں سے بیشتر کو صرف کچھ عرصہ ہی وہاں رکھا جاتا تھا جس کے بعد انہیں جلا وطن کرکے مشرق میں قتل کے مراکز میں بھیج دیا جاتا تھا۔ 15 جولائی 1942 سے جرمنوں نے ویسٹربورک سے تقریباً ایک لاکھ یہودیوں کو جلاوطن کیا: تقریباً 60 ھزار کو آش وٹز، 34 ھزار سے زائد کو سوبیبور، تقریباً 5 ھزار کوتھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی اور تقریباً 4 ھزار کو برگن- بیلسن کے حراستی کیمپ میں بھیجا گیا۔ جلاوطن ہونے والوں کی بھاری اکثریت کو کیمپوں میں پہنچتے ہی مار دیا جاتا تھا۔

22 جولائی 1942
وارسا کے یہودیوں کو ٹریبلنکا کے قتل کے مرکز میں جلاوطن کردیا گيا

22 جولائی اور ستبمر 1942 کے درمیان تین لاکھ سے زائد افراد کو وارسا کی یہودی بستی سے جلاوطن کیا گيا: ان میں سے ڈھائی لاکھ سے زائد کو ٹریبلنکا کے قتل کے مرکز میں جلاوطن کیا گيا۔ جلاوطن کئے جانے والوں کو زبردستی امشلاگ پلاٹز (جلاوطنی کے مقام) بھیجا گیا جو وارسا- مالکینیا کی ریلوے لائن سے متصل ہے۔ انہیں سامان کی گاڑیوں میں بھرا گیا اور زيادہ تر کو مالکینیا کے ذریعے ٹریبلینکا جلاوطن کردیا گيا۔ جلاوطن ہونے والوں کی بھاری اکثریت کو ٹریبلنکا پہنچتے ہی ماردیا گيا۔ ستمبر میں 1942 کے اجتماعی جلاوطنی کے اختتام پر یہودی بستی میں صرف پچپن ہزار یہودی باقی رہ گئے۔

15 مئی 1944
یہودیوں کی ہنگری سے باقاعدہ جلاوطنی شروع

جرمن افواج نے 19 مارچ 1944 کو ہنگری پر قبضہ کرلیا۔ اپریل 1944 میں بوڈاپیسٹ میں رہنے والے یہودیوں کے علاوہ سب یہودیوں کو گھیٹو یعنی یہودی بستیوں میں جانے کا حکم دے دیا گيا۔ اگلے مہینے یعنی مئی 1944 میں ہنگری کی یہودی بستیوں سے آش وٹز برکناؤ تک جلاوطنی شروع ہوگئی۔ تین ماہ سے کم عرصے میں تقریباً 4 لاکھ 40 ہزار یہودیوں کو 145 سے زیادہ ٹرینوں میں ہنگری سے جلاوطن کردیا گيا۔ ان کی بھاری اکثریت کو آش وٹز پہنچتے ہی قتل کردیا جاتا تھا۔