یہودی بستیوں میں زندگی
یہودی بستیوں میں زندگی عام طور پر ناقابل برداشت ہی ہوا کرتی تھی۔ چھوٹی سی جگہ میں گنجائش سے زیادہ افراد بھر لینا ایک عام بات تھی۔ ایک اپارٹمنٹ میں کئی کئی خاندان رہ رہے تھے۔ غسل خانوں کی تنصیبات خراب ہوگئيں اور انسانی فضلے کو کچرے کے ساتھ سڑکوں پر پھینک دیا جاتا تھا۔ ایسے تنگ اور حفظان صحت کے منافی گھروں میں چھوت کی بیماریاں تیزی سے پھیلتی تھیں۔ لوگ ہمیشہ ہی بھوکے رہتے تھے۔ جرمنوں نے رہائشیوں کو جان بوجھ کر بھوکا مارنے کے لئے انہيں روٹی، آلو اور چربی کی بالکل کم مقدار خریدنے کی اجازت دی۔ کچھ رہائشیوں کے پاس کچھ پیسے یا قیمتی سامان تھا جس کے بدلے وہ یہودی بستی میں خفیہ طور پر کھانا لاسکتے تھے؛ دوسرے زندہ رہنے کے لئے چوری کرنے یا بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ لمبی سردیوں میں ایندھن کم تھا اور کئی افراد کے پاس مناسب لباس بھی نہ تھا۔ بھوک اور سردی کی وجہ سے کمزور افراد جلد ہی بیماریوں کا شکار ہوجاتے تھے؛ ہزاروں افراد بیماری، بھوک یا ٹھنڈ کے باعث انتقال کر گئے۔ کچھ افراد نے بے بسی سے بچنے کے لئے خودکشی کرلی۔
روزانہ بچے یتیم ہوجاتے تھے اور کئی کو اپنوں سے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑجاتی تھی۔ یتیم بچے سڑکوں پر رہتے تھے اور روٹی کے لئے دوسرے لوگوں سے بھیک مانگتے رہتے جن کے پاس خود دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔ کئی سردی میں ٹھنڈ سے مر گئے۔
زندہ رہنے کے لئے بچوں کو باوسائل ہونے اور اپنے آپ کو کارآمد ثابت کرنے کی ضرورت تھی۔ چھوٹے بچے یہودی بستی کی دیواروں میں دراڑوں کے درمیان سے گزر کر کبھی کبھار وارسا کی یہودی بستی میں رہنے والے اپنے گھر والوں اور دوستوں کے لئے خفیہ طور پر کھانا لے آتے تھے۔ ان کے لئے اس کام میں خطرہ بہت تھا کیونکہ پکڑے جانے والوں کو سخت سزائيں دی جاتی تھیں۔
کئی نوجوانوں نے کئی یہودی بستوں میں بڑوں کے زیرانتظام اسکولوں میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کی کوششیں بھی کیں۔ کیونکہ یہ کلاسیں خفیہ طور پر اور نازیوں کے حکم کی خلاف ورزی میں منعقد کی جاتی تھیں، طلبا ضرورت پڑنے پر اپنی کتابيں اپنے کپڑوں کے اندر چھپا دیا کرتے تھے۔
اپنے اطراف موت اور تکلیف کو پانے کے باوجود بچوں نے اپنے کھلونوں سے کھیلنا نہيں چھوڑا۔ کچھ یہودی بستی میں اپنے ساتھ اپنی عزیز گڑیائيں یا ٹرک لائے تھے۔ کپڑے یا لکڑی کے جو بھی ٹکڑے ملتے تھے، بچے ان سے بھی کھلونے بنا لیتے تھے۔ لوڈز کی یہودی بستی میں بچے سگرٹوں کے خالی ڈبوں کے ڈھکنوں سے تاش کھیلتے تھے۔
اہم تواریخ
8 فروری 1940
لوڈز کے یہودیوں کو یہودی بستی میں جانے کا حکم دے دیا گيا
جرمنوں نے لوڈز کے شمال مشرقی علاقے میں یہودی بستی قائم کرنے کا حکم دے دیا۔ ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد یہودیوں، یعنی لوڈز کی آبادی کے ایک تہائی سے بھی زيادہ کو شہر کے ایک چھوٹے سے علاقے میں زبردستی بھیج دیا گيا۔ وارسا کے بعد لوڈز کی یہودی آبادی جنگ سے پہلے کے پولینڈ کی دوسری بڑی یہودی آبادی تھی۔ لوڈز کی یہودی بستی کو خار دار تاروں کی باڑوں کے ساتھ باقی شہر سے الگ کردیا گيا۔ یہودی بستی کے علاقے کو دو بڑی سڑکوں کے چوراہے سے تین حصوں میں تقسیم کیا گيا جنہيں یہودی بستی سے باہر رکھا گیا۔ یہودی بستی کے تینوں حصوں کو ملانے کے لئے پل تعمیر کئے گئے۔ لوڈز کی غیر یہودی آبادی کی گاڑیاں یہودی بستی سے گزر تو سکتی تھیں، لیکن انہيں اندر ٹھہرنے کی اجازت نہيں تھی۔ یہودی بستی میں حالات زندگی بھیانک تھے۔ بیشتر علاقے میں پانی یا نکاسی آب کا نظام نہيں تھا۔ کڑی مشقت، بھوک، اور گنجائش سے زيادہ افراد بھردینا عام باتیں تھیں۔
16 جنوری 1942
لوڈز کے یہودیوں کو جلاوطن کر کے چیلمنو کے قتل کے مرکز بھیج دیا گيا
لوڈز کی یہودی بستی سے چیلمنو کے قتل کے مرکز کی جانب یہودیوں کی جلاوطنیاں شروع ہوگئيں۔ جرمنی کی پولیس نے یہودی بستی میں لوگوں کو جمع کرنا شروع کردیا، سینکڑوں یہودیوں کو جلاوطنیوں کے دوران فوری طور پر ہلاک کردیا گيا۔ ان میں سے زيادہ تر تعداد بچوں، عمردراز افراد اور بیمار افراد کی تھی۔ ستمبر 1942 تک ستر ہزار سے زائد یہودیوں اور پانچ ہزار کے قریب روما (خانہ بدوشوں) کو جلاوطن کرکے چیلمنو بھیج دیا گيا جہاں انہیں موبائل گیس کی وینوں میں ہلاک کردیا گيا (یہ ہوا بند خانوں والے ٹرک تھے جو گیس چیمبروں کا کام کرتے تھے)۔
23 جون 1944
جرمنوں نے لوڈز کی یہودی بستیوں سے جلاوطنیوں کا عمل بحال کردیا
ستمبر 1942 اور مئی 1944 کے درمیان لوڈز سے کوئی بڑی جلاوطنیاں نہيں ہوئيں۔ یہودی بستی ایک جبری مشقت کے کیمپ کی مانند تھا۔ 1944 میں بہار کے موسم میں، نازیوں نے لوڈز کی یہودی بستی کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک لوڈز پولینڈ کی آخری یہودی بستی تھی اور اس کی آبادی تقریبا 75 ہزار یہودیوں پر مشتمل تھی۔ 23 جون 1944 کو، جرمنوں نے لوڈز سے جلاوطنیوں کا عمل بحال کردیا۔ تقریبا سات ہزار یہودیوں کو چیلمنو جلاوطن کرکے قتل کردیا گيا۔ جلاوطنیاں جولائی اور اگست میں جاری رہیں؛ یہودی بستی کی باقی آبادی میں سے بیشتر کو جلاوطن کرکے اوش وٹز- برکناؤ قتل کے مرکز میں بھیج دیا گيا۔ لوڈز کی یہودی بستی کو ختم کردیا گيا۔