آش وٹز جرمنوں کا قائم کردہ سب سے بڑا کیمپ تھا۔ یہ کیمپوں کا ایک کمپلیکس تھا جو حراستی کیمپ، قتل کے مرکز اور جبری مشقت کے کیمپ پر مشتمل تھا۔ یہ کراکاؤ، پولینڈ کے قریب واقع تھا۔ آش وٹز کیمپ کا کمپلیکس تین بڑے کیمپوں پر مشتمل تھا: آش وٹز I، آش وٹز II (برکیناؤ)، اور آش وٹز III ( مونو وٹز)۔ آش وٹز میں دس لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں سے نوے فیصد یہودی تھے۔ سب سے بڑے چار گیس کے چیمبروں میں سے ہر ایک میں بیک وقت دو ہزار افراد سما سکتے تھے۔

کیمپ کے داخلی دروازے پر ایک نوٹس پر لکھا ہوا تھا، "آربیٹ ماخٹ فرائی" جس کا مطلب تھا "کام کی وجہ سے آپ آزاد ہوسکتے ہیں"۔ در حقیقت سچ بالکل اُلٹا تھا۔ مزدوری نسل کشی کا ایک اور طریقہ بن گیا جسے نازیوں نے "کام کے ذریعے خاتمہ" کا نام دیا۔

وہ لوگ جو مزدوری کے لئے منتخب ہو کر موت سے بچ گئے، ان سے آہستہ آہستہ ان کی انفرادی شناخت چھین لی گئی۔ ان کو گنجا کرکے ان کے بائيں بازو پر ایک رجسٹریشن نمبر ٹیٹو کردیا گيا تھا۔ مردوں کو پھٹی ہوئی، لکیروں والی پینٹیں اور جیکٹیس جبکہ عورتوں کو مزدوری کا لباس پہننے پر مجبور کیا گيا۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو ایسے کام کے جوتے پہننے کیلئے دئے گئے جن کا سائز بالکل غیر موذوں تھا اور بعض اوقات تو اُنہیں پہننے کیلئے کھڑاویں ہی دی جاتیں۔ ان کے پاس اور کوئی دوسرا لباس نہ تھا اور وہ جن کپڑوں میں کام کرتے تھے ان ہی میں سوتے بھی تھے۔

ہر دن ناقابل برداشت صورت حال میں زندگی کے لئے ایک لڑائی سے کم نہ تھا۔ قیدیوں کو ایسی پرانی اور خستہ بیرکوں میں رکھا گیا جن میں کوئی کھڑکیاں نہیں تھیں۔ ان بیرکوں میں گرمی یا سردی سے بچنے کی بھی کوئی سہولت نہیں تھی۔ وہاں کوئی غسل خانہ نہیں تھا۔ صرف ایک بالٹی تھی۔ ہر بیرک میں تقریبا 36 لکڑی کے بنک بیڈ تھے اور پانچ یا چھ مکینوں کو لکڑی کے تختے پر ایک ساتھ ٹھونسا جاتا تھا۔ ایک بیرک میں 500 تک مکین رہتے تھے۔
مکین ہمیشہ ہی بھوکے رہتے تھے۔ کھانے میں سڑی ہوئی سبزیوں اور گوشت کا ایک پتلا پانی جیسا سوپ، تھوڑی سے روٹی، تھوڑا سا مارجرین، چائے یا کافی سے ملتا جلتا ایک کڑوا سا مشروب ملتا تھا۔ اسہال ایک عام بات تھی۔ لوگ بھوک اور ڈیہائيڈریشن کی وجہ سے کمزور ہوتے گئے اور کیمپ میں پھیلنے والی وبائی بیماریوں کا شکار ہوتے رہے۔

کیمپ کے کچہ مکین کیمپ کے اندر جبری مزدوری کا کام کرتے تھے مثلاً باورچی خانے میں یا پھر حجام کا کام وغیرہ۔ عورتیں اکثر جوتے، کپڑے اور قیدیوں کے دوسرے سامان کے ڈھیر کو چھانٹتی تھیں جنہیں استعمال کے لئے جرمنی بھیجا جانے والا تھا۔ میت سوزی کے دو مراکز کے قریب واقع آش وٹز برکیناؤ کے گوداموں کو "کینیڈا" کہا جاتا تھا کیونکہ پولینڈ کے باشندے اس جگہ کو امارتوں کا گہوارہ مانتے تھے۔ رائخ اور مقبوضہ یورپ کے سینکڑوں دوسرے کیمپوں کی طرح، جہاں جرمن جبری مزدوروں کو استعمال کرتے تھے، آش وٹز میں بھی قیدیوں سے کیمپوں کے باہر کوئلے اور پتھروں کی کانوں اور تعمیراتی منصوبوں میں سرنگیں اور نہریں کھودنے کا کام لیا جاتا تھا۔ مسلح افراد کی زیر نگرانی، وہ راستوں پر سے برف ہٹاتے تھے اور ہوائی حملوں کے دوران متاثرہ سڑکوں اور شہروں سے ملبہ صاف کرتے تھے۔ جبروں مزدوروں کی کثیر تعداد سے بالآخر ہتھیاروں اور جرمنی کے جنگ کے دوسرے ساز و سامان بنانے والی فیکٹریوں میں کام کروایا گيا۔ گاڑیوں اور طیاروں کے انجن بنانے والی آئی جی فاربین اور بویرین موٹر ورکس (بی ایم ڈبلیو) جیسی کئی نجی کمپنیوں نے مزدوری سستی ہونے کی وجہ سے قیدیوں کا بھرپور استعمال کیا۔

آش وٹز سے فرار ہونا تقریباً نا ممکن تھا۔ حراستی کیمپ اور قتل کے مرکز کے گرد خار دار تاروں کی باڑ لگائی گئی تھی جن میں بجلی گزاری گئی تھی۔ مشین گن اور آٹو میٹک رائفلوں سے آراستہ چوکیدار چوکیوں پر کھڑے رہتے تھے۔ قیدیوں کی زندگی مکمل طور پر ان کے چوکیداروں کے ہاتھ میں تھی جو اپنی مرضی سے ان کو ظالمانہ سزائیں دینے کا حق رکھتے تھے۔ قیدیوں کے ساتھ وہ مکین بھی برا سلوک کرتے تھے جنہیں چوکیداروں سے خاص عنایتوں کے بدلے میں دوسروں کی نگرانی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

آش وٹز میں کئی ظالمانہ طبی تجربات کئے گئے۔ عورتوں، مردوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ایس ایس کے ڈاکٹر جوزف مینگلے چھوٹے بچوں سمیت بونوں اور جڑواں بچوں پر تکلیف دہ اور اذیت ناک تجربے کرتے تھے۔ کچھ تجربات کا مقصد جرمن فوجیوں اور ہوا بازوں کے لئے بہتر طبی علاج کی تلاش تھا۔ دوسرے تجربات ان لوگوں کی نس بندی کرنے کے طریقے بہتر بنانے کے لئے کئے جاتے تھے جنہیں نازی کمتر سمجھتے تھے۔ ان تجربات کے دوران کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ دوسروں کو "تحقیق" مکمل ہونے کے بعد اور مزید تحقیق کے لئے اُن کے اعضاء نکال لئے جانے کے بعد مار دیا گیا۔

آش وٹز کے بیشتر قیدی صرف چند ہفتے یا چند مہینے ہی زندہ رہے۔ جو لوگ بیماری یا کمزوری کے باعث کام نہیں کرسکتے تھے، انہيں گیس کے چیمبروں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو بجلی کی تاروں پر پھینک کر خودکشی کرلی۔ دوسرے لوگ زندہ لاشوں کی طرح تھے، جن کا جسم اور جن کی روح ٹوٹ چکے تھے۔ تاہم دوسرے مکینوں نے زندہ رہنے کی ٹھان لی۔

اہم تواریخ

20 مئی 1940
آش وٹز I کیمپ کھلتا ہے

آش وٹز I جو آش وٹز کیمپ کمپلیکس کا مرکزی کیمپ تھا، اوشوسیم کے قریب قائم کردہ پہلا کیمپ تھا۔ اس کی تعمیر مئی 1940 میں اوشوسیم کے مضافاتی علاقے زیسول میں ایک توپ خانے کی بیرکوں میں ہوئی جو اس سے قبل پولش فوج کے استعمال میں تھا۔ کیمپ کو مستقل جبری مشقت کے ذریعے بڑھایا گيا۔ اگرچہ آش وٹز I بنیادی طور پر ایک حراستی کیمپ تھا جس میں سزائيں دی جاتی تھیں، اس میں ایک گیس چیمبر اور لاشوں کی بھٹی بھی تھی۔ قید خانے (بلاک نمبر 11) کے تہہ خانے میں ایک عارضی گیس کا چیمبر بھی واقع تھا۔ بعد میں لاشوں کی بھٹی کے اندر ایک گیس چیمبر بھی بنایا گیا۔

8 اکتوبر 1941
آش وٹز II (برکیناؤ) کی تعمیر شروع ہوتی ہے

برزیزینکا میں آش وٹز II یا آش وٹز-برکیناؤ کی تعمیر شروع ہوئی۔ اوشوسیم کے قریب آش وٹز کیمپ کمپلیکس کے ایک حصے کے طور پر تعمیر کئے گئے تین کیمپوں میں آشوٹز برکیناؤ ایسا کیمپ تھا جہاں قیدیوں کی تعداد سے سے زیادہ تھی۔ اسے نو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر حصے کو خار دار تاروں سے الگ کیا گیا تھا جن میں بجلی گذاری گئی تھی اور جن کی نگرانی ایس ایس محافظوں کے گشت اور کتوں کے ذریعے کی جاتی تھی۔ کیمپ میں عورتوں، مردوں، روما (خانہ بدوشوں) اور تھیریسئن شٹٹ سے جلاوطن کئے گئے خاندونوں کیلئے الگ حصے تھے۔ یورپ کے یہودیوں کو ختم کرنے کے جرمن منصوبے میں آش وٹز برکیناؤ کا اہم کردار تھا۔ مارچ اور جون 1943 کے درمیان چار بڑی لاشیں جلانے کی بھٹیوں کی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ ہر ایک کے تین حصے تھے: کپڑے اتارنے کی جگہ، ایک بڑا گیس چیمبر اور لاشیں جلانے کے بڑے تندور۔ گیس سے ہلاک کرنے کے اقدامات نومبر 1944 تک جاری رہے۔ p>اکتوبر 1942
آش وٹز III کیمپ کا آغاز

جرمنوں نے بونا کے مصنوعی ربڑ کے کام (جو جرمن کاروباری ادارے آئی جی فاربین کا حصہ تھا) کے لئے جبری مزدور فراہم کرنے کے لئے مونووائس میں آش وٹز III قائم کیا جسے بونا یا مونو وٹز بھی کہا جاتا تھا۔ آئی جی فاربین نے آش وٹز III میں 700 ملین سے زیادہ رائخ مارک یعنی تقریباً1۔4 ملین امریکی ڈالر 1942 کے مطابق) اس منصوبے پر خرچ کئے۔ آش وٹز I میں جبری مزدوری کے لئے منتخب کئے جانے والے قیدیوں کے بائيں بازوؤں پر شناختی نمبروں کو ٹیٹو کرکے رجسٹر کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں آش وٹز میں یا آش وٹز III کے ذیلی کیمپوں میں سے کسی ایک میں جبری مزدوری پر متعین کردیا جاتا۔

27 جنوری 1945
سوویت فوج نے آش وٹز کیمپ کمپلیکس کو آزاد کرا لیا

سوویت فوج نے آش وٹز میں داخل ہو کر باقی قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ صرف کچہ ہزار قیدی کیمپ میں باقی رہ گئے۔ تقریباً 60 ہزار قیدیوں کو، جن کی اکثریت یہودیوں پر مشتمل تھی، رہائی سے کچھ عرصہ قبل کیمپ سے موت کے مارچ میں چلنے پر مجبور کیا گيا۔ آش وٹز کو زبردستی خالی کرائے جانے کے دوران، قیدیوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا گيا اور کئی کو ہلاک کردیا گیا۔ ایس ایس کے محافظ پیچھے رہنے والوں کو گولی ماردیتے تھے۔ آشوٹز کیمپ کے وجود کی مختصر تاریخ کے دوران آش وٹز میں تقریبا 10 لاکھ یہودیوں کو ماردیا گیا۔ اس کے علاوہ 70 ہزار سے 74 ہزار پولز، 21 ہزار روما (خانہ بدوشوں) اور تقریباً 15 ہزار سوویت جنگی قیدی بھی اس کا شکار ہوئے۔