جلاوطنی کی ٹرینوں کے قتل کے مراکز میں پہنچنے کے بعد محافظوں نے جلاوطن ہونے والوں کو نکال کر قطار میں کھڑا ہونے کو کہا۔ پھر انہیں ایک انتخابی عمل سے گذارا گیا۔ مردوں کو عورتوں اور بچوں سے الگ کردیا گيا۔ ایک نازی جو عام طور پر ایک ایس ایس کا ڈاکٹر ہوتا تھا، جلدی سے ہر شخص کو دیکھ کر فیصلہ کرتا تھا کہ کیا وہ جبری مشقت کے لئے صحت مند یا طاقت ور تھا یا نہیں۔ یہ ایس ایس کا افسر پھر دائيں یا بائيں طرف اشارہ کرتا تھا؛ مظلوموں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ چھوٹے بچوں، حاملہ عورتوں، بوڑھے، معذور اور بیماروں کا اس سے پہلے انتخاب میں بچنے کا کم ہی امکان تھا۔

قتل کے لئے منتخب ہونے والوں کو گیس کے چیمبروں تک لے جایا گیا۔ گھبراہٹ سے بچنے کی خاطر کیمپ کے محافظوں نے یہ کہا کہ انہیں نہانے کے لئے لے جایا جارہا ہے تاکہ وہ جوؤں سے نجات پا سکیں۔ محافظوں نے انہيں اپنی قیمتی اشیاء چھوڑنے اور کپڑے اتارنے کی ہدایات دیں۔ انہیں پھر "حماموں" میں ننگا لے جایا گیا۔ ایک چوکیدار نے لوہے کا دروازہ بند کرکے اسے لاک کردیا۔ کچھ قتل کے مراکز کے چیمبر میں پائپوں کے ذریعے کاربن مونو آکسائیڈ گزاری گئی۔ دوسرے چیمبروں میں کیمپ کے محافظوں نے ہوا کی نالی کے ذریعے "ذائکلون بی" کی گولیاں پھینکیں۔ ذائکلون بی ایک بہت ہی زہریلی کیڑے مار دوا تھی جسے چوہے اور کیڑے مارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

گیس چیمبروں میں داخل ہونے کے کچھ منٹوں ہی میں ان کے اندر موجود ہر شخص آکسیجن کی کمی سے مرجاتا تھا۔ محافظوں کی نگرانی میں قیدیوں کو لاشوں کو ایک قریبی کمرے تک لے جانے پر مجبور کیا جاتا تھا جہاں وہ بال، سونے کے دانت اور دانتوں کی فلنگز نکالتے تھے۔ لاشوں کو لاشیں جلانے کی بھٹیوں میں جلایا جاتا تھا یا اجتماعی قبروں میں دفن کیا جاتا تھا۔

بہت سے لوگوں نے لاشوں کو لوٹ کر خوب پیسے کمائے۔ کیمپ کے محافظوں نے کچھ سونا چرایا۔ باقی کو پگھلا کر ایس ایس کے بینک اکاؤنٹ میں رکھوا دیا گیا۔ نجی کمپنیوں نے بال خرید کر انہيں کئی مصنوعات میں استعمال کیا جیسے کشتی کی رسی اور گدے۔

اہم تواریخ

اکتوبر1939
جرمنوں نے معذوروں کا قتل شروع کر دیا

ان جرمنوں کا باقاعدہ قتل عام شروع ہوگیا، جنہيں نازی "زندہ رہنے کے لائق" نہيں سمجھتے تھے۔ "مشیروں" کے گروہ ہسپتالوں اور نرسنگ ہومز میں جا کر فیصلہ کرتے تھے کہ کن کو مارا جائے۔ منتخب مریضوں کو "رحمانہ قتل" کے پروگرام کے تحت قائم کی گئی گیس سے ہلاک کرنے کی چھ تنصیاب میں سے کسی ایک میں بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ تنصیبات برن برگ، برینڈن برگ، گریفینیک، ھاڈامر، ھارتھائم اور سونین سٹائن تھیں۔ ان مریضوں کو گیس چیمپر میں کاربن مونوآکسائڈ استعمال کرکے قتل کیا جاتا تھا۔ "رحمانہ قتل" کے پروگرام میں شرکت کرنے والے ماہرین نے قتل گاہیں قائم کرنے اور انہيں چلانے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔

8 دسمبر 1941
پہلے قتل کے مرکز نے کام شروع کر دیا

چیلمنو کی قتل گاہ میں کام شروع ہوا۔ نازيوں نے اس کے بعد ایسے پانچ اور کیمپ قائم کئے: بیلزک، سوبیبور، ٹریبلنکا، اًش وٹز- برکناؤ (جو اًش وٹز کے کمپلیکس کا حصہ تھا) اورمجدانیک۔ چیلمنو میں لوگوں کو گیس کی وینوں میں مارا جاتا تھا (یہ ہوا بند ٹرک تھے جن کے انجنوں کے ایگزھاسٹ کو رخ موڑ کر اندرونی خانے کی طرف کیا گيا تھا)۔ بیلسک، سوبیبار اور ٹریبلنکا کیمپوں میں گیس کے چیمبروں سے منسلک ساکن انجنوں کے ذریعے کاربن مونوآکسائڈ گیس استعمال کی جاتی تھی۔ سب سے بڑے قتل کے مرکز آش وٹز میں چار بڑے گیس کے چیمبر تھے جہاں ذائکلون بی (کرسٹل کی شکل میں ہائیڈروجن سائیانائڈ) استعمال کیا جاتا تھا۔ مجدانیک میں کاربن مونوآکسائڈ اور ذائکلون بی دونوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ "حتمی حل" کے دوران ان قتل گاہوں کے گیس چیمبروں میں کئی ملین یہودی مارے گئے۔

22 جون 1944
ریونز برویک حراستی کیمپ میں گیس کے ذریعے قتل کرنے کا پہلا واقعہ

ریونز برویک میں عورتوں کے کیمپ میں گیس کے ذریعے قتل کرنے کا پہلا ریکارڈ کردہ واقعہ رونما ہوا۔ ریونزبرویک اور دوسرے کیمپ – جن میں سٹٹہاف، ماؤتھاؤسین اور ساخسین ہاؤسن شامل تھے جنہيں مخصوص طور پر قتل کے مراکز کے طور پر قائم نہيں کیا گيا تھا۔ ان کا سائز مقابلے میں چھوٹا تھا۔ ان گیس چیمبروں کی تعمیر ان قیدیوں کو قتل کرنے کے لئے کی گئی تھی، جنہیں نازی کام کرنے کے لئے "نااہل" سمجھتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کمیپ اپنے گيس چیمبر میں مارنے کیلئے ذائکلون بی استعمال کرتے تھے۔