یوتھینیسیا پروگرام (مقالے کی تلخیص)
اصطلاح یوتھینیسیا (لفظی طور پر "اچھی موت") سے مراد کسی ایسے شخص کو بغیر کسی تکلیف کے موت دینا ہے جو مستقل طور پر بیمار ہو یا کسی ایسی بیماری میں مبتلاء ہو جس میں موت واقع ہونا یقینی ہو، اور موت نہ ہونے کے باعث وہ مستقل طور پر تکلیف دہ صورتِ حال کا شکار ہو۔ تاہم نازی تناظر میں "یوتھینیسیا" کی اصطلاح عمداً جرمن اور جرمن مقبوضہ علاقوں میں موجود تنصیبات میں رہنے والے مریضوں کے قتلِ سے متعلق خفیہ پروگرام کیلئے استعمال کی گئٰ۔ یہ پروگرام نازی جرمنی کے قتل عام کی پہلی حکمتِ عملی تھی۔ یوری یہودیوں کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی طرح "یوتھینیسیا" کے منتظمین نے نسلی طور پر پاک اور فعال معاشرے کا تصور اپنایا اور اس کیلئے اُن تمام افراد کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جو اُن کے اس نظریے سے ہم آہنگ نہیں تھے۔
جرمن حکومت نے 18 اگست، 1939 کو ایک حکم جاری کیا جس میں طبی شعبے سے وابستہ افراد پر یہ لازمی قرار دے دیا گیا کہ وہ شدید جسمانی معذوری کے ساتھ پیدا ہونے والے تین برس سے کم عمر کے بچوں کے کوائف فراہم کریں۔ اکتوبر 1939 میں حکام نے معذور بچوں کے والدین کو ترغیب دینی شروع کر دی کہ وہ ایسے بچوں کو بچوں کے مخصوص ہسپتالوں میں داخل کرائیں۔ یہ ہسپتال دراصل قتل کے مراکز تھے جن میں طبی عملہ ایسے بچوں کو ہلاکت خیز دواؤں کی زیادہ مقدار دے کر یا بھوکا رکھ کر مار دیتا تھا۔ قتل کے اس پروگرام میں بالآخر 17 برس تک عمر کے بچوں کو شامل کر لیا گیا۔ منصوبہ سازوں نے جلد ہی قتل کے اس پروگرام کو مختلف تنصیبات میں موجود افراد پر لاگو کرنا شروع کر دیا۔ 1939 کے موسمِ خزاں میں ہٹلر نے اس کارروائی میں شامل اہلکاروں کو تفتیش سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک خفیہ حکمنامے پر دستخط کر دئے۔ اس پروگرام پر عمدرآمد کرنے والے افراد اپنی خفیہ کارروائی کو "ٹی فور" کے نام سے ظاہر کرتے تھے۔ "ٹی فور" چلانے والوں نے گیس سے ہلاک کرنے کے چھ مراکز قائم کئے۔ یہاں لائے جانے کے چند گھنٹوں کے اندر غسل خانے ظاہر کئے جانے والے ان مراکز میں یہ افراد ختم ہو جاتے تھے جنہیں ہلاک کرنے کیلئے کاربن مونو آکسائیڈ گیس استعمال کی جاتی تھی۔ ٹی فور کے اہلکار ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو وہاں موجود بھٹیوں میں جلا دیتے تھے۔ یہ کارندے پھر راکھ کے ڈیر میں سے تھوڑی تھوڑی راکھ برتنوں میں رکھ کر ایک دستاویز کے ہمراہ مرنے والوں کے ورثاء کو بھیج دیتے تھے جس میں مرنے کی وجہ کوئی فرضی بیماری لکھ دی جاتی تھی۔
جب یہ اطلاعات عوام میں پھیلنے لگیں اور اس کے بارے میں مظاہرے شروع ہو گئے تو ہٹلر نے اگست 1941 میں یہ پروگرام روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ تاہم جرمن محکمہ صحت کے اہلکارون نے اگست 1942 میں یہ پروگرام دوبارہ شروع کر دیا۔ دوبارہ شروع کی جانے والی ان کارروائیوں میں مقامی حکام کو قریبی طور پر اس پروگرام میں شامل رکھا گیا اور موت کیلئے مہلک ٹیکے اور بھوکا رکھ کر ہلاک کرنے کے خفیہ طریقے اپنائے گئے۔ جرمن مقبوضہ مشرقی علاقوں میں ایس ایس اور پولیس اہلکارون نے دسیوں ہزاروں معذور افراد کو ہجوم پر فائر کھولنے اور گیس کی وینوں کے ذریعے ہلاک کیا۔ "حتمی حل" کے منصوبہ سازوں نے یہودیوں کو ہلاک کرنے کیلئے گیس چیمبروں اور لاشیں جلانے کی پھٹیوں کا سہارا لیا جنہیں ٹی فور مہم کیلئے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔ٹی فور کے جن اہلکاروں نے قتل عام کے پہلے مرحلے میں خود کو قابل اعتبار ثابت کیا تھا، اُنہیں بعد میں نمایاں طور پر بیلزیک، سوبیبور اور ٹریبلنکا کے قتل کے مراکز میں تعینات کیا گیا تھا۔ قتل کا یہ پروگرام جنگ کے آخری دنوں تک جاری رہا جن میں توسیع دے کر عمر رسیدہ بیمار افراد، بمباری کا شکار ہونے والے افراد اور جبری مشقت پر مامور غیر ملکی افراد بھی شامل کر لئے گئے۔ تاریخ دانوں کا تخمینہ ہے کہ "یوتھینیسیا" کے مختلف مراحل میں دو لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔