نازیوں نے لاکھوں لوگوں (یہودی اور غیریہودی دونوں گروپوں) کو وحشیانہ حالات میں جبری مشقت پر معمور کیا۔ 1933 کے موسم سرما میں نازی عقوبتی کیمپوں اور قید خانے کی اولین تنصیبات کے قیام ہی سے جبری مشقت عقوبتی کیمپوں کے نظام کا بنیادی خاصہ رہا ہے۔ یہ جبری مشقت اکثر بےمعنی اور ذلت آمیز ہوتی اور قیدیوں کو بغیر کسی مناسب ساز و سامان، کھانا کپڑا اور آرام کے مشقت پر مجبور کیا جاتا۔

جنگ شروع ہونے سے بھی پہلے نازیوں نے عقوبتی کیمپوں کے اندر اور باہر یہودیوں پر جبری مشقت مسلط کر دی۔ 1938 سے نازیوں نے معاشی فائدے کی خاطراور مزدوروں کی قلت سے نمٹنے کیلئے مشقت پر معمور افراد کو "ریاست کا دشمن" تصور کرتے ہوئے اُن کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنا شروع کر دیا۔ اُس برس کے اختتام تک جرمنی میں رہنے والے بیشتر مردوں کیلئے مختلف سرکاری محکموں کیلئے جبری مشقت لازمی قرار دے دی گئی۔

اکتوبر 1939 کے موسم خزاں میں جب جرمنی نے پولینڈ پر قبضہ کر لیا اور وہاں جنرل گورنمنٹ کا نظام قائم کر دیا تو جرمن قابض حکام نے تمام یہودیوں اور پولش مردوں کیلئے بلا معاوضہ جبری مشقت لازمی قرار دے دی۔ جرمن حکام نے پولش یہودیوں کو مخصوص بستیوں یعنی گھیٹو میں رکھا اور اُنہیں جبری مشقت کے کاموں پر معمور کیا جن میں زیادہ تر جسمانی مشقت کا کام ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر لوڈز کے گھیٹو میں جرمن ریاست اور نجی کاروباری افراد نے 96 پلانٹ اور فیکٹریاں قائم کیں جن میں جرمنی کی جنگی کارروائیوں کیلئے سازوسامان تیار ہوتا تھا۔ 1942 کے موسم بہار میں عقوبتی کیمپوں میں انتظامی تبدیلی لے بعد جبری مشقت میں اور بھی تیزی آ گئی۔

یہودیوں کیلئے کام کرنے کی استعداد کا اکثر مطلب یہ ہوتا کہ نازیوں کی طرف سے "حتمی حل" پر عمدرآمد شروع ہونے کے بعد اُن کے زندہ بچ جانے کا موقع موجود رہتا۔ "حتمی حل" نازیوں کے اُس منصوبے کا نام تھا جس کے تحت وہ یورپ کے تمام تر یہودیوں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ایسے یہودی جو جسمانی طور پر مشقت کے اہل نہ ہوتے وہ سب سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دئے جاتے یا پھر اُنہیں قتل گاہوں میں مرنے کیلئے بھجوا دیا جاتا۔

نازیوں نے "کام کے ذریعے ختم کر دینے" کی پالیسی بھی شعوری طور پر اپنائی جس کے تحت کیمپ کے قیدیوں کو ایسے حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا جن سے اُنہیں براہ راست اور جان بوجھ کر بیماری، چوٹ اور موت کی جانب دھکیل دیا جاتا۔ مثال کے طور پر موٹ ھوسن عقوبتی کیمپ میں کمزور اور لاغر قیدیوں کو بڑے بڑے پتھر اُٹھا کر پتھر توڑنے والی مشین یعنی اسٹون کوئیری کی 186 سیڑھیوں پر بھاگ کر چڑھنے پر مجبور کیا جاتا۔

جون 1941 میں جرمنی کے سویت یونین پر حملے کے بعد جرمنوں نے لاکھوں سوویت جنگی قیدیوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی (خوراک، کپڑوں، پناہ یا طبی دیکھ بھال کی ناکافی سہولتیں) کے ذریعے ہلاک کر دیا۔ تاہم 1942 کے موسم بہار میں جرمن حکام نے سوویت جنگی قیدیوں کو جنگ سے متعلقہ صنعتوں میں بھی جبری مشقت کیلئے متعین کرنا شروع کر دیا۔ 1942 سے 1944 تک جرمنوں نے تقریباً 30 لاکھ سوویت شہریوں کو جرمنی، آسٹریہ اور بوھیمیا۔ موریویا میں جبری مزدور کے طور پر بھیج دیا۔

جنگ کے اختتام پربے دخل ہونے والے لاکھوں افراد جرمنی میں رہ گئے تھے جن میں ھزاروں یہودی بھی تھے جو جبری مشقت کیلئے جلاوطن کئے گئے تھے اور جو "حتمی حل" کی نازی پالیسیوں سے بچنے میں کایاب ہو گئے تھے۔