گسٹاپو نازی ریاست کی سیاسی پولیس فورس تھی۔ 

گسٹاپو اپنے باضابطہ جرمن نام "Geheime Staatspolizei" کا مخفف ہے۔ اس کا براہ راست اردو ترجمہ ہے "خفیہ ریاستی پولیس"۔ 

گسٹاپو جرمن تاریخ میں پہلی سیاسی پولیس فورس نہیں تھی۔ جرمنی، یورپ کے متعدد ممالک کی طرح، سیاسی پولیسنگ کی ایک طویل تاریخ کا حامل تھا۔ 

سیاسی پولیسنگ سے مراد پولیس فرائض کی ایک مخصوص قسم ہے۔ اس کا مقصد موجود سیاسی صورتحال کو برقرار رکھنا ہے۔ سیاسی پولیس فورسز کسی ریاست یا حکومت کو تخریب کاری، سبوتاژی یا بغاوت سے محفوظ رکھتی ہیں۔ وہ نگرانی اور خفیہ معلومات جمع کرنے کے اقدامات استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریقے حکومت کے خلاف ملکی خطرات کی نشاندہی کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ سیاسی پولیس فورسز کو بعض اوقات "خفیہ پولیس" بھی کہا جاتا ہے۔ آمرانہ ریاستیں، جیسے کہ نازی حکومت، اپنی طاقت کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے اکثر ان پر انحصار کرتی ہیں۔  

گسٹاپو بطور نازی بربریت کی ایک علامت 

گسٹاپو اپنی بربریت کے سبب بدنام ہوئی۔ آج کل یہ ادارہ اور اس کے سیاسی پولیس اہلکار آمرانہ پولیسنگ کی علامت ہیں۔ 

لفظ "گسٹاپو" کو اکثر غلطی سے نازی ازم جاری رکھنے والوں کے متعدد گروہوں کے لیے ایک مجموعی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں گسٹاپو ان متعدد اداروں میں سے ایک تھا جو نازی جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ دیگر جرمن پولیس فورسز بھی ہولوکاسٹ کو جاری رکھنے والے ادارے تھے۔ اس میں کریمنل پولیس (کریپو) اور یونیفارمڈ آرڈر پولیس شامل تھی۔ 

لیکن گسٹاپو  نے ایک بدنام زمانہ شہرت حاصل کی۔ گسٹاپو پولیس اہلکار تفتیش میں ظلم و تشدد سے کام لیتے تھے۔ انہوں نے یہودیوں کی ملک بدری کو ان کی موت سے مربوط کیا۔ اور انہوں نے جرمنی اور جرمنی کے زیر تسلط یورپ میں مزاحمتی تحریکوں کو سختی سے دبا دیا۔

وائمار ریپبلک کے دوران سیاسی پولیسنگ

1933 میں نازیوں کے اقتدار میں آنے سے قبل، جرمنی جمہوری تھا جسے وائمار رپبلک (1918-1933) کہا جاتا تھا۔ ملک ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق تھا۔ ان ریاستوں میں پروشیا، باواریا اور سیکسنی شامل تھیں۔ ان میں سے بیشتر ریاستوں کی اپنی سیاسی پولیس فورسز تھیں۔ 

وائمار ریپبلک کا آئین انفرادی حقوق اور قانونی تحفظ کی ضمانت دیتا تھا۔ ان میں یہ حقوق شامل تھے: گفتگو کی آزادی؛ ذرائع ابلاغ کی آزادی؛ اور قانون کے سامنے برابری۔ سیاسی پولیس فورسز کو ان حقوق کا احترام کرنا تھا۔ آئین انہیں من مانی پولیس کارروائیاں کرنے سے روکتا تھا۔ اس کے باوجود وائمار ریپبلک کے دوران سیاسی پولیس والے سرگرم رہے۔ 

خاص طور پر سیاسی پولیس نے انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی جمہوریت مخالف تحریکوں کے درمیان سیاسی تشدد پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کی۔ اس میں نازی جماعت اور کمیونسٹ جماعت سے قانون پر عملدرآمد کرانا شامل تھا۔ دونوں جماعتوں نے 1930 میں جرمنی میں تیزی سے مقبولیت اختیار کی۔ اگلے تین سالوں تک وائمار کے دور کی سیاسی پولیس نے ان اکثر پُرتشدد بڑی تحریکوں کے خلاف کارروائی کرنے میں مشکل کا سامنا کیا۔ 

سیاسی پولیس کو نازی بنانا 

ہٹلر کی تشہیری تقریر

30 جنوری 1933 کو ایڈولف ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا گیا۔ ہٹلر اور دیگر نازی سربراہان نے آمریت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے تمام سیاسی مخالفتوں کا قلع قمع کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ نئی نازی حکومت نے ان اہداف کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے جرمنی کی سیاسی پولیس کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ تاہم، اس پر قابو پانے میں کچھ رکاوٹیں حائل تھیں۔

سیاسی پولیس کو نازی بنانے میں حائل رکاوٹیں

ابتدا میں، دو اہم رکاوٹوں کا سامنا تھا: 

  1. پہلی یہ کہ وائمار رپبلک کا آئین نافذ العمل تھا۔ اس میں پولیس کی من مانی کارروائیوں کے خلاف قانونی تحفظ شامل تھا۔  
  2. دوسری یہ کہ جرمنی کی سیاسی پولیس فورسز کو غیر مرکزی بنایا گیا تھا۔ وہ متعدد ریاستی اور مقامی حکومتوں کے ماتحت رہے۔ پولیس ہٹلر کو بطور چانسلر جواب دہ نہیں تھی۔

ان دو رکاوٹوں نے اس عمل کو محدود کر دیا جس طرح ہٹلر اور نازی حکومت سیاسی پولیس کو قانونی طور پر استعمال کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر نازی حکومت کے انتدائی ہفتوں میں نازی کسی قانونی بنیاد کے بغیر سیاسی پولیس کو کمیونسٹوں کو گرفتار کرنے کا حکم نہیں دے سکتے تھے۔ لیکن یہ سب تیزی سے بدل گیا۔ 

قانونی رکاوٹوں پر قابو پانا

فروری 1933 سے آغاز کرتے ہوئے نازی حکومت نے جرمنی کو بدلنے کے لیے ہنگامی حکم ناموں کا استعمال کیا۔ ان احکامات نے سیاسی پولیس کو قانونی اور آئینی حدود سے آزاد کر دیا۔ ان میں سب سے اہم رائیک شٹاگ فائر کا حکم تھا۔ یہ 28 فروری 1933 کو جاری کیا گیا تھا۔ اس حکم نامے نے انفرادی حقوق اور قانونی تحفظ جیسے رازداری کے حق کو معطل کر دیا۔ اس سے پولیس کے لیے سیاسی مخالفین سے تفتیش، پوچھ گچھ کرنا اور گرفتار کرنا آسان ہو گیا۔ پولیس اب نجی ڈاک پڑھ سکتی تھی، خفیہ طور پر ٹیلیفون کالیں سن سکتی تھی اور وارنٹ کے بغیر گھروں کی تلاشی لے سکتی تھی۔

گسٹاپو تشکیل دینا

نازی حکومت ایک ایسی مرکزی سیاسی پولیس فورس قائم کرنا چاہتی تھی جو نازی قیادت کو براہ راست جواب دہ ہو۔ اسے تشکیل دینے کے لیے، انہیں موجودہ غیر مرکزی پولیس نظام میں اصلاح کرنا پڑی۔ اس عمل میں کئی سال کا عرصہ لگا۔ اس میں پولیس کے پورے نظام کو نازی بنانا شامل تھا۔ 

1930 کی دہائی کے اوائل میں سیاسی پولیسنگ مقامی حکومتوں سے منسلک رہی۔ پس، یہ مقامی طاقت کی جدوجہد کے تابع تھی۔ تاہم، 1936 کے آخر تک نازی حکومت نے ایس ایس کے سربراہ ہائنرک ہملر کے ماتحت ایک مضبوط، مرکزی سیاسی پولیس فورس تشکیل دی۔ یہ سیاسی پولیس فورس گسٹاپو تھی۔ 

1936 کے موسم گرما میں گسٹاپو کی حیثیت مزید مستحکم ہوئی۔ اس وقت اسے کرمنل پولیس (کریپو) کے ساتھ متحد کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مل کر سیکورٹی پولیس (سیپو) کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کی۔ ہملر کے نائب، رائہارڈ ہائیڈرچ  نے سیکیورٹی پولیس کی قیادت سنبھالی۔ ہائیڈرچ  نے ایس ایس انٹیلیجنس سروس (Sicherheitsdienst یا سیکورٹی سروس) کی بھی قیادت کی۔ اس دفتر کو اس کے جرمن مخفف "ایس ڈی" سے موسوم کیا جاتا تھا۔ 

ستمبر 1939 میں، سیکورٹی پولیس کو باضابطہ طور پر ایس ایس انٹیلیجنس سروس (ایس ڈی) کے ساتھ متحد کیا گیا۔ ایک ساتھ مل کر وہ حکومتی سکیورٹی کے مرکزی دفتر (آر ایس ایچ اے) کے نام سے ایک نیا دفتر بن گئے۔ گسٹاپو آر ایس ایچ اے کا دفتر چہارم بن گیا۔ اسے ابھی بھی گسٹاپو کہا جاتا تھا۔ 

گسٹاپو کے لیے کس نے کام کیا؟ 

گسٹاپو کا عملہ سادہ لباس پولیس اہلکاروں میں تعینات تھا جنہیں اکثر گسٹاپو ایجنٹس کہا جاتا تھا۔ ان میں سے بیشتر افراد پیشہ ورانہ تربیت یافتہ تھے۔ وہ اکثر وائمار ریپبلک کے دوران جاسوسوں یا سیاسی پولیس اہلکاروں کے طور پر کام کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ہائنرک مولر 1919 سے میونخ میں پولیس کے لیے کام کر رہا تھا۔ وہ 1939 میں گسٹاپو کا سربراہ بن گیا تھا۔ مولر جیسے پیشہ ورانہ تربیت یافتہ پولیس اہلکار گسٹاپو کے لیے تجربہ، علم اور مہارت لائے۔ 

لیکن گسٹاپو کے تمام ایجنٹس دیرینہ پولیس اہلکار نہیں تھے۔ ان میں سے کچھ ایس ایس انٹیلیجنس سروس (ایس ڈی) کے ذریعے گسٹاپو میں آئے تھے۔ یہ ایس ڈی افراد معمولی یا بغیر پولیس تربیت کے نازی نظریات کے حامل تھے۔ انہیں پولیس نظام کو ایک نظریاتی لحاظ سے متحرک ادارے میں بدلنے کے ایس ایس رہنما ہائنرک ہملر کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ 

گسٹاپو  نے پیشہ ورانہ پولیس اہلکاروں کے علم کو نازی نظریات کے جوش و خروش سے متحد کر دیا۔ 

گسٹاپو کا مشن کیا تھا؟

گسٹاپو کا مشن "ریاست کو خطرے میں ڈالنے کی تمام کوششوں کی تفتیش کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا تھا۔" نازیوں کے خیال میں ریاست کو درپیش خطرات میں مختلف قسم کے رویے شامل تھے۔ ان رویوں میں منظم سیاسی مخالفت سے  لے کر نازیوں کے بارے میں انفرادی تنقیدی تبصروں تک سب کچھ شامل تھا۔ حکومت نے یہاں تک کہ بعض زمروں یا لوگوں کے گروہوں سے وابستہ افراد کو بھی ایک خطرہ قرار دیا۔ ممکنہ خطرات کے اس وسیع سلسلے کا مقابلہ کرنے کے لیے، نازی آمریت نے گسٹاپو کو غیر معمولی طاقت دے دی۔ 

ایک طریقہ جس سے گسٹاپو نے اپنا مشن انجام دیا وہ نئے نازی قوانین کو نافذ کرنا تھا۔ ان میں سے کچھ قوانین نے حکومت پر تنقید کو واضح طور پر سلامتی کے لیے ایک خطرہ بیان کیا۔ مثلاً، دسمبر 1934 کے ایک قانون نے نازی جماعت یا نازی حکومت پر تنقید کرنا غیر قانونی قرار دے دیا۔ ہٹلر کے بارے میں مضحکہ خیز بات کرنے کو "ریاست یا جماعت کے خلاف بدنیت حملہ" قرار دیا جا سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں گسٹاپو اسے گرفتار کر سکتی تھی، خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا تھا اور یہاں تک کہ حراستی کیمپ میں قید بھی کیا جا سکتا تھا۔ 

لیکن گسٹاپو انفرادی طرزِعمل کی نگرانی کرنے سے بھی کہیں آگے بڑھ گئی تھی۔ اس نے نازی نظریے کو نافذ کیا جس نے لوگوں کے پورے کے پورے گروہوں کو نسلی یا سیاسی حریف قرار دیا۔ کمیونسٹ جماعت میں رکنیت یا یہودی پسِ منظر کسی کو ریاست کے لیے خطرہ ثابت کرنے اور گسٹاپو کی توجہ کا نشانہ بنانے کے لیے کافی تھا۔

1930 کی دہائی کے دوران، آریائی جرمنوں کی اکثریت نے گسٹاپو کا سامنا نہیں کیا اور نہ ہی ان کا سامنا کرنے کی توقع تھی۔ لیکن گسٹاپو سیاسی مخالفین، مذہبی اختلاف رائے رکھنے والوں (بشمول یہوواہ کے گواہوں)، ہم جنس پرستوں اور یہودیوں کے لیے ایک مستقل خطرہ تھی۔

حفاظتی تحویل کے ساتھ گسٹاپو کو بااختیار بنانا

نازی حکومت نے گسٹاپو کے ایجنٹس کو ان لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا بہت زیادہ اختیار دیا جنہیں وہ گرفتار کرتی تھی۔  

خصوصاً قابل ذکر یہ کہ گسٹاپو کو لوگوں کو براہ راست حراستی کیمپ میں بھیجنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔ اسے "حفاظتی تحویل"(Schutzhaft) کہا جاتا تھا۔ حفاظتی تحویل نے گسٹاپو کو عدالتی نظام کو خاطر میں نہ لانے کی اجازت دی۔ حفاظتی تحویل میں رکھے گئے افراد کسی وکیل سے مشورہ نہیں کر سکتے تھے، اپنی سزا کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے تھے، یا عدالت میں اپنا دفاع نہیں کر سکتے تھے۔ گسٹاپو  نے بعض معاملات میں عدالتی فیصلوں کو زیر کرنے کے لیے بھی حفاظتی تحویل کا استعمال کیا۔ عام طور پر انہوں نے ایسا اس وقت  کیا جب انہوں نے عدالت کی سنائی گئی سزا کو بہت رحمدلانہ سمجھا۔ 

ایک ادارے کی حیثیت سے گسٹاپو قانونی یا انتظامی نگرانی کے تابع نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ثانوی ادارہ (بشمول عدالتیں) گسٹاپو کے فیصلوں کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا تھا۔ گسٹاپو کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا تھا۔ 

گسٹاپو کیسے کام کرتی تھی؟ 

گسٹاپو  نے اپنی کارروائیوں کو بنیاد پرستانہ طریقوں سے پایہ تکمیل پہنچایا۔ نازی جرمنی میں اس نے پولیس تفتیش کے عام طریقے استعمال کیے۔ تاہم، اس نے قانونی حدود کے بغیر ایسا کیا۔ اس نے عوام کی الزام تراشیوں پر عمل کیا۔ وہ اپنی من مانی سے تلاشیاں لیتے۔ اور ظالمانہ طریقے سے پوچھ گچھ کرتے۔ آخر میں گسٹاپو ایجنٹس نے گرفتار کیے گئے لوگوں کی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ 

مخبری

بعض اوقات گسٹاپو خود پوچھ گچھ شروع کر دیتی تھی۔ دیگر اوقات میں گسٹاپو کو عوام کی جانب سے اطلاعات ملتی تھیں۔ کوئی پڑوسی، شناسا، رفیق کار، دوست، یا خاندانی رکن گسٹاپو کو اطلاع دے سکتا تھا کہ کوئی شخص غیر قانونی یا مشکوک رویہ ظاہر کر رہا ہے۔ دیگر پولیس فورسز اور نازی تنظیمیں بھی گسٹاپو کو کسی ممکنہ جرم یا خطرے کی اطلاع دے سکتی تھیں۔ 

نازی جرمنی میں اس قسم کے مشوروں کو مخبری کہا جاتا تھا۔ ان کا محرک اکثر نظریہ، سیاست یا ذاتی فائدہ ہوتا تھا۔ جن لوگوں کی مخبری کی جاتی تھی ان کے لیے نتائج سنگین ہو سکتے تھے۔ 

من مانی تلاشیاں اور نگرانی

تحقیقات کے دوران گسٹاپو افسران گواہوں سے معلومات لیتے، گھروں اور اپارٹمنٹس کی تلاشی لیتے، اور کڑی نگرانی کرتے تھے۔ نازی جرمنی میں ان سرگرمیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ گسٹاپو کو کسی مشتبہ شخص کی ڈاک پڑھنے، گھر میں داخل ہونے یا ٹیلیفون بات چیت سننے کے لیے وارنٹ کی ضرورت نہ تھی۔ 

بہت سے لوگ گسٹاپو کی نگرانی سے ڈرتے تھے۔ حقیقت میں گسٹاپو کے پاس محدود اہلکار تھے اور وہ صرف مخصوص معاملات میں ان طریقوں کو بروئے کار لاتے تھے۔ جرمن آبادی کی وسیع پیمانے پر نگرانی نہیں کی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مخبریاں بہت اہم تھیں۔ 

پوچھ گچھ

گسٹاپو پوچھ گچھ کرنے کے لیے اختیار کیے جانیوالے سنگدلانہ طریقوں کی وجہ سے بدنام تھی۔ گسٹاپو افسران عموماً ڈراتے دھمکاتے، اور ذہنی و جسمانی اذیت سے کام لیتے تھے۔ گسٹاپو افسران کے لیے زیر حراست افراد کو مارنا پیٹنا عام تھا۔ گسٹاپو کے وحشیانہ تفتیشی طریقوں کے باوجود انہوں نے اکثر ذاتی طور پر ان لوگوں کو قتل نہیں کیا جو انہوں نے گرفتار کیے تھے۔ تاہم، کچھ لوگ پوچھ گچھ کے دوران یا گسٹاپو کی حراست میں دم توڑ جاتے تھے۔ 

گرفتار شدہ افراد کی قسمت کا فیصلہ کرنا 

گسٹاپو کے ایجنٹس کو لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار تھا۔ انفرادی ایجنٹس نرمی برتنے کا انتخاب کر سکتے تھے۔ وہ لوگوں کو چھوڑ سکتے، مقدمات خارج کر سکتے، یا تنبیہ اور جرمانے عائد کر سکتے تھے۔ 

لیکن گسٹاپو ایجنٹس بے رحم بننے کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔ وہ کسی کو غیر معینہ مدت تک جیل میں بند کر سکتے یا کسی کو حراستی کیمپ بھیجنے کی سزا دے سکتے تھے۔ ان فیصلوں کی واحد نگرانی گسٹاپو ہی کے اندر سے کی جاتی تھی۔   

جنگ سے پہلے گسٹاپو اور یہودی

نازی جرمنی کے یہودیوں کو جرمن عوام اور نازی حکومت کے لیے ایک نسلی خطرہ خیال کرتے تھے۔ لہذا، گسٹاپو ریاست کے دفاع کے اپنے مشن کے ایک حصے کے طور پر یہودیوں کو قوانین پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ دار تھی۔ یہ 1930 کی دہائی کے دوسرے نصف حصے میں تیزی سے اہم ہوتی گئی۔ 

نازی حکومت کے پہلے دو سالوں میں گسٹاپو  نے جرمنی کی یہودی آبادی کی پولیسنگ پر توجہ نہ دی۔ اس وقت گسٹاپو کی ترجیح سیاسی مخالفین کی پولیسنگ تھی۔ گسٹاپو  نے 1933 اور 1934 میں کچھ یہودیوں کو گرفتار کیا تھا۔ تاہم، ان یہودیوں کو عام طور پر اس لیے حراست میں لیا گیا کہ وہ کمیونسٹ یا سوشل ڈیموکریٹس تھے۔ گسٹاپو انہیں سیاسی مخالفین سمجھتی تھی۔ 

نیورمبرگ قوانین اور نسلی بنیاد پر تذلیل کرنا

ایک چارٹ جس کا عنوان ہے:

یہودی مخالف اقدامات میں گسٹاپو کی شمولیت 1935 کے موسم خزاں میں نیورمبرگ کے قوانین کی منظوری کے ساتھ ہی بدلنا شروع ہو گئی۔ ان قوانین نے یہودیوں اور غیر یہودی جرمنوں (یعنی وہ افراد جنہیں نازی "جرمن خون کے لوگ" سمجھتے تھے) کے مابین مستقبل میں شادیوں پر پابندی عائد کر دی۔ انہوں نے یہودیوں اور غیر یہودی جرمنوں کے درمیان غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو بھی جرم قرار دیا۔ نازیوں نے اس جرم کو "نسل کی تذلیل" Rassenschande)) کا نام دیا۔ 

نئے قوانین کے ردعمل میں تمامتر جرمنی میں گسٹاپو کے دفاتر  نے خصوصی یہودی محکمے Judenreferate)) قائم کیے۔ ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری نسل کی تذلیل کے معاملات کی چھان بین کرنا تھا۔ 

نقل مکانی اور "یہودی سوال"

گسٹاپو کے یہودی محکمے بھی یہودیوں کی نقل مکانی پر نظر رکھتے تھے۔ 1930 کی دہائی میں نازی ریاست نے یہودیوں کی ہجرت کو جرمنی کے "یہودی مسئلے" کو حل کرنے کا ایک بہترین طریقہ سمجھا۔ گسٹاپو  نے ان کی نقل مکانی کے عمل کے بہت سے پہلوؤں کو مربوط اور تیز کرنے میں مدد کرنے کے لیے کام کیا۔ یہ نازی حکومت کے لیے فرض کردہ یہودی خطرے سے نمٹنے کا ان کا ایک طریقہ تھا۔ خاص طور پر، گسٹاپو کے یہودی محکمے یہ یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے تھے کہ یہودی اپنے مالی اثاثے پیچھے چھوڑ جائیں اور وہ نازی ریاست کو منتقل کر دیے جائیں۔

گسٹاپو جنگ کے دوران 

سب سے زیادہ بدنام اور مہلک گسٹاپو جرائم کا ارتکاب دوسری جنگ عظیم کے دوران 1939-1945 کے درمیان کیا گیا تھا۔ 

اس دوران گسٹاپو  نے اندرون ملک نازی جرمنی میں اور بیرون ملک جرمنی کے زیر قبضہ علاقوں میں متعدد امور انجام دیے۔ ان امور کا مقصد نازی حکومت کی سلامتی کی ضمانت دینا تھا۔ جنگ گسٹاپو کے کردار کے بنیاد پرست بننے کا سبب بنی۔ جب گسٹاپو ایجنٹس جرمنی کے زیر قبضہ علاقوں میں تعینات کیے گئے، تو انہوں نے وحشیانہ اور مقامی آبادی کے ساتھ بربریت کا طرزعمل اختیار کیا۔  

دورانِ جنگ، گسٹاپو  نے: 

  • تحقیق و تفتیش کی اور جنگی کوششوں کو کمزور کرنے یا حکومت کو للکارنے والے شہریوں کو سخت سزا دی
  • آئن سیٹزگروپن میں شمولیت اختیار کی اور یہودیوں اور دیگر افراد کی ایک بڑی تعداد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا
  • جرمنی اور جرمنی کے زیر قبضہ علاقوں میں غیرملکی جبری مزدورں کو زیر اختیار رکھا
  • جرمنی اور جرمن مقبوضہ علاقوں میں مزاحمتی تحریکوں کو کچل دیا
  • پورے یورپ سے یہودیوں کو یہودی بستیوں، حراستی کیمپوں، قتل گاہوں اور قتل مراکز میں کلا وطن کرنے کا بندوبست کیا۔