آرڈر پولیس (Ordnungspolizei, Orpo) نازی جرمنی کی باوردی پولیس فورسز تھیں۔ 

عام طور پر باوردی پولیس فورس نظم و نسق برقرار رکھنے، ٹریفک رواں رکھنے اور حادثات اور جرائم پر قابو پانے کی کارروائی کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ نازی آرڈر پولیس نے یہ عام فرائض انجام دیے۔ تاہم، وہ بھیانک جرائم کے مرتکب بن گئے۔ 

ایک جرمن پولیس اہلکار ایک یہودی شخص پر روٹی کا ایک ٹکڑا وارسا گھیٹو میں سمگل کرنے کی کوشش کے حوالے سے پوچھ گچھ کر رہا ہے۔

جنگ عظیم دوم اور ہولوکاسٹ کی تاریخ میں دلچسپی کے حامل بہت سے لوگ گسٹاپو یا ایس ایس جیسی بدنام زمانہ نازی تنظیموں سے واقف ہیں۔ اگرچہ آرڈر پولیس اتنی مشہور نہیں، تاہم اس نے ہولوکاسٹ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ وہ اکثر نازی جرمن پولیس تنظیموں کی طرف سے منظم شدہ جرائم کے ارتکاب کے لیے اضافی افرادی قوت فراہم کرتی تھی۔  

آرڈر پولیس قائم کرنا

نازی جنوری 1933 میں اقتدار میں آئے۔ اس سے قبل وائمار رپبلک (1918-1933) کے دوران جرمنی کے پاس متعدد وردی والی علاقائی پولیس فورسز موجود تھیں۔ 

1936 میں یہ فورسز آرڈر پولیس کے نئے مرکزی دفتر (Hauptamt Ordnungspolizei) کا حصہ بن گئیں۔ اس دفتر نے وردی پوش پولیس کو مرکزی حیثیت دی۔ اس کی قیادت چیف آف دی آرڈر پولیس (Chef der Ordnungspolizei) کرٹ ڈالیوج کر رہے تھے۔ ڈالیوج طویل عرصے تک ایس ایس کے لیڈر تھے۔ اس کی تنظیم نو ہینرک ہائملر کی ایس ایس اور پولیس کا انضمام کرنے کی کوششوں کا حصہ تھی۔ 

آرڈر پولیس میں وردی پوش پولیس دستوں میں تین ذیلی اقسام شامل تھیں۔ ان ذیلی اقسام کو عوام کی تعداد اور کمیونٹی، جہاں وہ فرائض منصبی پر مامور تھے، کے گنجان آباد ہونے کے لحاظ سے منظم کیا گیا تھا:

  • جینڈرمیری دیہی علاقوں میں پولیس فرائض کی ذمہ دار تھی؛ 
  • کمیونٹی پولیس یا Gemeindepolizei نے چھوٹے شہروں میں پولیس فرائض انجام دیے؛ 
  • حفاظتی پولیس یا Schutzpolizei (Schupo) بڑے شہروں میں گشت کرتی تھی۔ 

مزید برآں، آرڈر پولیس میں آتشزدگی، بچاؤ، اور ہنگامی طبی خدمات شامل تھیں۔

آرڈر پولیس کو نازی بنانا اور یہود مخالف تشدد 

1930 کی دہائی میں آرڈر پولیس نے اپنے بہت سے معمول کے فرائض انجام دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ مثال کے طور پر وہ ٹریفک ضابطوں، آرڈر بحال رکھنے، اور جرائم کی روک تھام کے ذمہ دار تھے۔ لیکن آرڈر پولیس اس وقت نازی سازی کے عمل سے بھی ہو کر گزری۔ یہ ادارہ نازی حکومت کے نظریات سے ہم آہنگ ہو گیا۔ 

اب وردی پوش پولیس اہلکار نازی ریاست کے ایجنٹ تھے۔ پس انہوں نے نازی قوانین کو نافذ کیا جس میں یہود مخالف قانون سازی شامل تھی۔ آرڈر پولیس، یہودیوں یا یہودیوں کی ملکیتی املاک کو ماورائے قانون نازی تشدد سے بچانے کے لیے شاذ و نادر ہی مداخلت کرتی تھی۔ یہ معاملہ تب بھی ہوتا تھا جب تشدد  نے خواہ واضح طور پر قانون کی خلاف ورزی کی ہو اور عوامی انتشار پیدا کیا ہو۔ 

نیورمبرگ قوانین کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا

آرڈر پولیس  نے کبھی بھی ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے نازیوں کو گرفتار نہیں کیا۔ مثلاً جولائی 1935 میں اوسٹروڈا (Ostróda) کے قصبے میں پولیس اہلکاروں نے نوعمر لڑکوں کے ایک ہجوم کو ایک یہودی مرد کو گلیوں میں مارنے پیٹنے کی اجازت دی۔ اور لڑکوں کو گرفتار نہ کیا گیا۔ 

جنگ میں بنیاد پرست بنانا 

پولیس کا کردار اس وقت بدل گیا جب جرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کیا اور جنگِ عظیم دوم شروع ہو گئی۔ 

جرمن افواج کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی پولیس یونٹس تعینات کی گئیں۔ ان میں آئن سیٹزگروپن بھی شامل تھا۔ آرڈر پولیس یونٹس پولینڈ میں بھی تعینات کی گئیں۔ ان یونٹوں کو پولیس بٹالین کہا جاتا تھا۔ بٹالین عسکری یونٹس تھیں۔ انہوں نے جنگی کارروائیوں میں حصہ لیا اور فرنٹ لائنز کے پیچھے سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیے۔ آئن سیٹزگروپن اور آرڈر پولیس بٹالینز دونوں پولش افراد اور یہودیوں کے قتلِ عام میں شامل ہو گئے۔

آرڈر پولیس کو وسعت دینا

نازی قیادت کے مطابق پولینڈ پر حملے کے دوران پولیس بٹالینز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ نازیوں کا خیال تھا کہ آرڈر پولیس پیشہ ورانہ فرائض اور مستقبل کی فوجی مہمات کے لیے کارآمد ثابت ہوگی۔ لہذا، چیف آف دی آرڈر پولیس کرٹ ڈالیوج نے مزید یونٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ خاص طور پر قابل ذکر تھا کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان نوجوانوں کو فوجی خدمات کے لیے بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔ 

ڈالیوج  نے 95,000 افراد پر مشتمل آرڈر پولیس ریزرو تشکیل دی۔ پولیس ریزرو تیس اور چالیس سال کی عمروں کے غیر ضروری کارکنوں پر مشتمل تھی۔ ڈالیوج  نے 26,000 نوجوان مردوں کے لیے بھرتیاں بھی شروع کیں۔ ان بھرتیوں نے آرڈر پولیس میں مزید مستقل بنیادوں پر خدمات انجام دینا تھیں۔ 

بیس سال کے نوجوان جو فوج میں خدمات انجام نہیں دینا چاہتے تھے یا جو پولیس کو ذریعہ معاش بنانے کی امید رکھتے تھے انہوں نے شمولیت اختیار کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ نئے بھرتی ہوئے افراد اور ریزرو افراد نے نازی اور عسکری انداز میں تربیت حاصل کی۔ تربیت میں پولیس کی معمول کی سرگرمیاں شامل تھیں۔ تاہم، مردوں کو نازی نظریہ ذہن نشیں کرایا گیا اور انہیں جنگ میں لڑنے کی تربیت دی گئی تھی۔

نئے پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا

بہت سے بھرتی کیے گئے اور ریزرو رکھے گئے افراد کو تقریباً 550 جوانوں کی پولیس بٹالینز میں منظم کیا گیا تھا۔ ان کی قیادت تجربہ کار آرڈر پولیس اہلکار اور نوجوان، نئے شامل کردہ، بہترین نازی افسران کر رہے تھے۔ 

یہ بٹالینز 1940 کے اوائل میں بیرون ملک تعینات کی گئیں۔ کچھ ناروے اور ہالینڈ گئیں (دونوں 1940 میں فتح ہوئے)۔دیگر جنرل گورنمنٹ اور جرمنی سے نئے الحاق کیے گئے علاقوں میں بھیجی گئیں (دونوں قبل از جنگ پولینڈ کا حصہ تھے)۔ انہیں بوہیمیا اور موراویا کے ماتحت علاقوں میں بھی تعینات کیا گیا۔ ان بٹالینز  نے سیکورٹی کے مختلف امور میں حصہ لیا۔ مثلاً انہوں نے عمارتوں اور پلوں کو تخریب کاری سے بچایا۔ 

پولیس یونٹس کو عموماً جغرافیائی طور پر منظم کیا جاتا تھا اور بلحاظ اعداد ان کی شناخت کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر پولیس بٹالین 309 نوجوان نئے بھرتی شدہ افراد پر مشتمل تھی۔ یہ ستمبر 1940 میں کولون سے جنرل گورنمنٹ کے راڈوم ڈسٹرکٹ میں تعینات کی گئی تھی۔ 

جرمن کے زیرِ تسلط پولینڈ میں آرڈر پولیس

1939–1940 کے آغاز سے آرڈر پولیس اہلکاروں نے مقبوضہ پولینڈ میں خاص طور پر سفاکیت کا رویہ اختیار کیا۔ وہاں وہ یہودیوں اور پولز باشندوں پر نازی حکومت کے ظلم و ستم میں ملوث دیگر جرمن قابض افواج کے ساتھ شامل ہو گئی۔ 

آرڈر پولیس نے جرمنی اور جرمنی کے زیر قبضہ پولینڈ میں جبری مشقت کے لیے پولش باشندوں کو ایک جگہ جمع کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے انتقامی قتل بھی کیے۔ آرڈر پولیس نے جرمن قبضے کے خلاف مزاحمت کی معمولی کارروائی کرنے پر بھی پولش افراد کا قتل کیا۔ ایسی کارروائیوں کی دستاویز بند مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پولش افراد کو کسی جرمن پولیس اہلکار سے ٹکرانے، جرمن اہلکار پر تھوکنے، اور جرمن حکام پر سوال اٹھانے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔  

آرڈر پولیس اہلکار یہودیوں کی توہین اور تذلیل کرتے تھے۔ وہ مذہبی یہودی مردوں کی داڑھیاں منڈوانے کے لیے مشہور تھے۔ اس عام سام مخالف حملے کا مقصد یہودیوں کی مذہبی رسومات کا مذاق اڑانا اور توہین کرنا تھا۔ آرڈر پولیس اہلکاروں نے یہودیوں کے ساتھ بدسلوکی بھی کی اور انہیں مارا پیٹا۔ اور انہوں نے یہودیوں کو سرعام تضحیک آمیز افعال کرنے پر مجبور کیا۔مثلاً انہوں نے یہودیوں کو مذاق اڑانے والے ہجوم کے سامنے رقص کرنے یا جمناسٹک کی ورزشیں کرنے کا حکم دیا۔ 

بالآخر، آرڈر پولیس یونٹس کو کچھ نئی یہودی بستیوں کی رکھوالی کرنے کی ذمہ دار سونپی گئی۔ جنوری 1942 میں پولیس بٹالین 61 کمپنی نے وارسا یہودی بستی میں گارڈ کے فرائض سنبھالے۔ وہاں انہوں نے سزا سے بریت کا طرزعمل اختیار کیا۔ پولیس اہلکار من مانی سے یہودی بستی کے مکینوں کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ ان متاثرین کی موت کا جشن بھی مناتے تھے۔ 

پولیس بٹالین نے پولینڈ کو "جرمنی جیسا بنانے" میں بھی مدد دی۔ اس منصوبے کا مقصد مشرقی یورپ کی آبادیاتی صورت حال کو بدلنا تھا۔ اس سے مراد جرمن نو آباد کاروں کی گنجائش بنانے کے لیے لاکھوں لوگوں—یہودیوں اور غیر یہودیوں کو—اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ 

آرڈر پولیس اہلکار جرمنی کے زیر قبضہ پولش دیہی علاقوں کے قصبوں میں بھی چھوٹے چھوٹے گروپ میں تعینات کیے گئے تھے۔ وہ وہاں سیکیورٹی کے ذمہ دار تھے۔ یہ کردار بڑی اور زیادہ متحرک پولیس بٹالین کے ساتھ منسلک تھا۔ تاہم، بڑی بٹالینز کے برعکس یہ گروپس عام طور پر ایک ہی قصبے میں مہینوں یا سالوں تک ٹھہرے رہے تھے۔ انہوں نے سفاکانہ قبضہ جمانے کی پالیسیوں پر عمل کیا اور سزا سے بریت کا طرزعمل اختیار کیا۔ 

سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد

مشرقی محاذ پر دسمبر 1943 میں سوویت حملہ کے دوران سوویت یونین میں جرمن فوجی۔

پولیس یونٹس فوج کی اگلی صفوں کے پیچھے سیکورٹی برقرار رکھنے میں مدد کرنے کی ذمہ دار تھیں۔ آئن سیٹزگروپن اور آرڈر پولیس بٹالینز ان میں شامل تھیں۔ سن 1941 میں ان کے کارہائے منصبی نے ایک خاص طور پر مہلک کردار ادا کیا۔ 

اسی جون میں نازی جرمنی نے کمیونسٹ سوویت یونین پر حملہ کر دیا۔ اس حملے  نے جرمن سوویت معاہدہ توڑ دیا۔ نازیوں کے اہداف میں سے ایک سوویت یونین کی نظریاتی بنیاد، کمیونزم کو ختم کرنا تھا۔ دوسرا مقصد لیبنسروم یعنی رہنے کی جگہ حاصل کرنا تھا۔ نازی حکومت نے مشرق میں مزید توسیع کی کوشش کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یورپ کا یہ حصہ کئی صدیوں سے بڑی تعداد میں یہودی برادریوں کا گھر رہا تھا۔ 

جرمن فوج اور پولیس حکام کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ نازی جرمنی کے مبینہ نسلی اور نظریاتی دشمنوں کے خلاف بے رحم جنگ کا آغاز کریں۔ جون 1941 کے تقریباً فوراً بعد آرڈر پولیس بٹالینز نے بڑے پیمانے پر فائرنگ کر کے یہودیوں اور دیگر لوگوں کا قتلِ عام کیا۔ یہ کارروائیاں آئن سیٹزگروپن اور دیگر ایس ایس اور پولیس یونٹس کے ساتھ مل کر انجام دی گئیں۔ 27 جون، 1941 کو پولیس بٹالین 309 نے حال ہی میں مقبوضہ بیالیستوک میں ایک ہولناک قتل عام کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے 2,000–3,000 یہودیوں کو قتل کیا۔ ان میں سے سینکڑوں متاثرین کو عظیم کنیسہ میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ 

یہودیوں کو بڑی تعداد میں قتل کرنا 1941 کے موسم گرما اور موسم خزاں میں وسعت اختیار کر گیا۔ آئن سیٹزگروپن، جرمن فوج اور آرڈر پولیس بٹالینز  نے اس کا ارتکاب کیا۔ بٹالینز  نے دوسری جنگ عظیم کے کچھ انتہائی بدنام زمانہ قتل عام میں حصہ لیا۔ ستمبر میں پولیس بٹالینز 45، 303 اور 314 نے مقبوضہ یوکرین میں کیف کے مضافات میں بابی یار میں قتلِ عام میں حصہ لیا۔ انہوں نے وہاں 33,000 سے زائد یہودیوں کے قتل میں مدد کی۔ 

آرڈر پولیس، ملک بدریاں، اور "حتمی حل"

اگرچہ ایک بالکل درست تاریخ کا تعین کرنا مشکل ہے، 1941 میں ہی کسی وقت، نازیوں نے یورپ کے تمام یہودیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اسے "یہودی مسئلے کے حتمی حل" کا نام دیا۔  

نازیوں نے یورپ کے یہودیوں کا قتل عام کرنے کے لیے قتل گاہیں بنائیں۔ آرڈر پولیس عموماً قتل کے مراکز میں موجود نہیں ہوتی تھی۔ تاہم وہ یہودیوں کو ان مقامات پر منظم طریقے سے لانے کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔  انہوں نے جرمنی کے زیر تسلط یورپ کے تمام یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کو یقینی بنایا۔  انہوں نے جن افراد کی نقل و حمل میں مدد کی وہ وارسا بستی، برلن اور بوڈاپیسٹ سے تعلق رکھتے تھے۔

حتمی حل کے حصے کے طور پر جرمنوں نے جرمن مقبوضہ مشرقی یورپ میں یہودی بستیوں میں رہنے والے یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔1941 کے آخری حصے کے آغاز میں آرڈر پولیس نے اس میں حصہ لیا جسے جرمن "قلع قمع کرنا" کہتے تھے۔ یہ کارروائیاں یہودی بستیوں اور ان میں رہنے والے یہودیوں کی ایک منظم تباہی تھیں۔ ایس ایس اور پولیس یونٹس بشمول آرڈر پولیس اہلکاروں نے یہودیوں کو یا تو قریبی اجتماعی قبروں میں گولی مار ہلاک کر دیا یا انہیں جلاوطن کر دیا۔ جلاوطنی عموماً قتل کے مراکز میں ہوتی تھی۔ اس کے بعد آرڈر پولیس اہلکار ان یہودیوں کو ڈھونڈھنے میں مدد کرتے جو چھپ جاتے یا ملک بدری سے بچنے کی کوشش کرتے۔

نازی جرمنی میں (بشمول جرمنی، آسٹریا، اور بوہیمیا اور موراویا کے ماتحت علاقے) میں آرڈر پولیس نے مقامی یہودی برادریوں کی جلاوطنی میں ایک خاص کردار ادا کیا۔ وہ جلاوطنی کی ٹرینوں کی رکھوالی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر 14 جون، 1942 سے شروع کرتے ہوئے سولہ وینیز آرڈر پولیس اہلکاروں کی ایک چھوٹی یونٹ نے سوبیبور میں قتل کے مرکز میں جلاوطنی کے عمل کی رکھوالی کی۔ ویانا سے سوبیبور تک کے سفر میں تین دن لگے۔ اس ٹرین میں تقریباً 1,000 یہودی سوبیبور پہنچے۔ اس میں سوار تقریباً ہر شخص کو اسی وقت قتل کر دیا گیا۔ 

آرڈر پولیس گارڈ یونٹس اکثر جرمنی کے زیر قبضہ دیگر علاقوں سے جلاوطنی میں کم سے کم سفر کے ایک حصے کے طور پر بھی ہمراہ ہوتی تھیں۔ مجموعی طور پر آرڈر پولیس اہلکاروں  نے 700 سے زائد نقل و حمل کے ذرائع کی حفاظت کی۔ یہ نقل و حمل کی گاڑیاں نازی جرمنی، بیلجیم، فرانس، ہنگری، نیدرلینڈز اور سلوواکیہ جیسی جگہوں سے آئی تھیں۔ مشرقی یورپ کی یہودی بستیوں سے ایک غیر معینہ تعداد میں جلاوطن کیے جانے والے بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس طرح سے آرڈر پولیس نے لاکھوں یہودیوں کے قتل میں سہولت فراہم کی۔ انہیں تقریباً یقینی طور پر ان لوگوں کی تباہ حال قسمت کے بارے میں معلوم ہوتا تھا جنہیں کسی دوسری جگہ  لے جایا جا رہا ہوتا تھا۔

جنگ کے بعد بہت سے آرڈر پولیس اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ وہ نازی جرائم میں ملوث نہیں تھے۔