پس منظر

نازی جرمنی کی شکست، 1942-1945

سن 1942 کے موسم خزاں کے آغاز میں حلیف طاقتوں کی حکومتوں نے نازی جنگی مجرموں کو سزا دلوانے کے عزم کا اظہار کیا۔

17 دسمبر، 1942 کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ عظمٰی اور سوویت یونین کے راہنماؤں نے پہلا اعلامیہ جاری کیا جس میں یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتل کو نوٹ کیا گیا اور شہری آبادیوں کے خلاف تشدد پھیلانے کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے عظم کا اظہار کیا گیا۔ اگرچہ کچھ سیاسی رہنماؤں نے مقدمہ چلائے بغیر فوری طور پر پھانسی کی سزا دینے کی وکالت کی، تاہم اتحادیوں نے بالآخر ایک بین الاقوامی فوجی عدالت قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کورڈیل ہل کے الفاظ میں، "اس طرح کی کارروائی کے بعد سزا سے تاریخی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور یوں جرمن یہ دعویٰ نہیں کر سکیں گے کہ اُن سے دباؤ کے تحت جنگی جرائم کا اعتراف کرایا گیا ہے۔"

اکتوبر 1943 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ، برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سوویت یونین کے لیڈر جوزف اسٹالن نے ماسکو اعلامیے پر دستخط کئے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ عارضی جنگی صلح کے وقت اُن افراد کو، جنہیں جنگی جرائم کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے، ان ملکوں میں واپس بھیج دیا جائے گا جہاں ان جرائم کا ارتاکب کیا گیا تھا اور وہاں کے قانون کے مطابق ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ایسے جنگی مجرمان کو اتحادی ممالک کی حکومتوں کے مشترکہ فیصلون کے تحت سزا دی جائے گی جن کے جرائم کو کسی مخصوص جغرافیائی علاقے سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔

بین الاقوامی فوجی عدالت

امریکہ قانونی مشیر اعلٰی جسٹس رابرٹ جیکسن بین الاقوامی فوجی عدالت میں استغاثہ کی طرف سے ابتدائی بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

بین الاقوامی فوجی عدالت (آئی ایم ٹی) میں کلیدی جرمن اہلکاروں کے مقدمات رسمی طور پر 20 نومبر، 1945 کو نیورمبرگ جرمنی میں شروع ہوئے۔ ان مقدمات کا آغاز جرمنی کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے محض ساڑھے چھ مہینے بعد ہوا۔ یہ جنگ کے بعد ہونے والے جنگی جرائم کے معروف ترین مقدمات تھے۔ 18 اکتوبر 1945 کو آئی ایم ٹی کے چیف پراسیکیوٹرز نے 24 معروف نازی افسران کے خلاف فرد جرم پڑھی۔ ان افسران کے خلاف مندرجہ ذیل چار الزامات لگائے تھے:

1۔ امن کے خلاف جرم کی سازش، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم
2۔ امن کے خلاف جرائم
3۔ جنگی جرائم
4۔ انسانیت کے خلاف جرائم

ریاستہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ عظمٰی، سوویت یونین، اور فرانس سمیت چارون اتحادی ممالک میں سے ہر ایک نے ایک جج اور استغاثہ ٹیم فراہم کی۔ برطانیہ عظمٰی کے لارڈ جسٹس جیفری لارنس نے عدالت کے اعلیٰ ترین جج کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مقدمے کی سماعت کے قوانین براعظمی اور اینگلو- امریکن عدالتی نظام کی نازک مفاہمتوں کا نتیجہ تھے۔

ترجمہ کرنے والوں کی ایک ٹیم نے چارون زبانوں یعنی جرمن، انگریزی، فرانسیسی اور روسی میں تمام کارروائی کا بیک وقت ترجمہ فراہم کیا۔

مدعا علیہان

کافی مباحثہ کے بعد نازیوں کی سفارتی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی قیادت کی جامع نمائندگی کے لئے 24 مدعا علیہان کو منتخب کیا گیا۔

ایڈولف ہٹلر، ہائنرخ ہملر اور جوزف گوئبیلز کبھی بھی مقدمہ میں پیش نہ ہوئے۔ انہوں نے جنگ کے اختتام سے قبل خودکشی کر لی تھی۔ آئی ایم ٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ مرنے کے بعد ان پر مقدمہ نہیں چلائیں گے تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ وہ اُس وقت زندہ ہو سکتے تھے۔

دراصل صرف 21 مدعا علیہان عدالت میں پیش ہوئے۔ جرمن صنعت کار گستاو کروپ کو بھی اصل فرد جرم میں شامل کیا گیا تھا لیکن وہ عمر رسیدہ تھے اور ان کی صحت کمزور تھی۔ ابتدائی سماعتوں میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اُنہیں کارروائی سے خارج کر دیا جائے۔ نازی پارٹی کے سیکرٹری مارٹن بورمان پر غیر حاضری مین مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی گئی۔ مقدمے کی سماعت کے موقع پر رابرٹ لے نے خودکشی کر لی۔

الزامات

امریکی چیف پراسیکیوٹر رابرٹ ایچ جیکسن اپنی افتتاحی تقریر کر رہے ہیں۔

آئی ایم ٹی نے امن و سلامتی کے خلاف جرائم، جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے حوالے سے مدعا علیہان پر فرد جرم عائد کی۔ آئی ایم ٹی نے انسانیت کے خلاف جرائم کی وضاحت کرتے ہوئے "قتل، قتل عام، غلامی، جلاوطنی یا سیاسی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم روا رکھنے" کو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں شامل کیا۔

سازش کا ایک چوتھا الزام بھی شامل کیا گیا (1) دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے قبل داخلی نازی قانون کے تحت جرائم کا ارتکاب اور (2) مابعد عدالت بننے والے ٹرائبیونلز کو اختیار ہو گا کہ وہ تصدیق شدہ مجرمانہ تنظیم سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کے خلاف قانونی کارروائی کر سکیں۔ لہذا آئی ایم ٹی نے متعدد نازی تنظیموں کو مجرم قرار دیتے ہوئے اُن پر فرد جرم عائد کی جن میں ایلیٹ گارڈ (ایس ایس) ، سیکیورٹی سروس (ایس ڈی)ریاست کی خفیہ پولیس (گسٹاپو)، اسٹارم ٹروپرز (ایس اے) اور جرمن مصلح افواج کا جنرل اسٹاف اور ہائی کمانڈ شامل ہیں۔

مدعا علیہان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کا قانونی مشیر مقرر کر سکیں۔

فیصلہ

امریکی چیف پراسیکیوٹر رابرٹ جیکسن نے عینی شاہدوں سے گواہی لینے کے بجائے بنیادی طور پر خود نازیوں کی جانب سے تحریر کردہ دستاویزات کے پلندوں کی بنیاد پر بحث کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ اس مقدمہ میں کسی تعصب یا جانبدار گواہی پر انحصار کرنے کا الزام عائد نہ کیا جا سکے۔ نیورمبرگ میں پیش کردہ گواہی میں وہ تمام باتیں شامل کی گئیں جن کا ہمیں ہولوکاسٹ کے حوالے سے علم تھا۔ ان میں آشوٹز میں قتل کی مشینری کی تفصیلات، وارسا یہودی بستی کی تباہی اور چھ لاکھ یہودی متاثرین کا تخمینہ شامل ہیں۔

ججوں نے یکم اکتوبر، 1946 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ جرم کی سزاؤں کے لئے چار میں سے تین ججوں کی ضرورت تھی۔

ان میں سے بارہ مجرمان کو موت کی سزا سنائی گئی جن میں جواکم وان ریبن ٹروپ، ہینس فرینک، ایلفریڈ روزنبرگ اور جولیس اسٹریچر شامل تھے۔ انہیں پھانسی دے دی گئی، اُ ن کی لاش کو ڈاخاؤ میں جلا دیا گیا اور ان کی راکھ کو ایسار دریا میں بہا دیا گیا۔ ہرمن گوئرنگ اس سے ایک رات پہلے خود کشی کر کے جلاد کے ہاتھوں سزا سے بچ نکلا۔ آئی ایم ٹی نے تین مدعا علیہان کو عمر قید اور چار کو 10 سے 20 سال تک قید کی سزا سنائی۔ اس نے تین مدعا علیہان کو بری کردیا۔

دیگر مقدمات

ڈاکٹروں کے مقدمے کے دوران ڈیفنس کونسل کے ممبران اور مدعا علیہان کا کٹہرا۔

نیورمبرگ میں آئی ایم ٹی مقدمے کی سماعت جنگی جرائم کے بارے میں ہونے والے متعدد جنگی جرائم کے مقدمات کے اولین اور سب سے مشہور مقدمات میں سے ایک مقدمہ تھا۔ ہر روز 400 سے زائد لوگ مقدمے کی سماعت دیکھنے کیلئے آتے رہے۔ اُن کے علاوہ 23 مختلف ممالک کی نمائندگی کرنے والے 325 اخباری نمسئندوں نے بھی یہ مقدمہ باقاعدگی سے دیکھا۔۔

سن 1945 کی جنگ کے بعد منعقد ہونے والے جنگی جرائم کے مقدموں کی واضح اکثریت نچلے درجہ کے سرکاری اہلکاروں اور افسروں سے متعلق تھی۔ ان میں حراستی کیمپوں کے گارڈ اور کمانڈنٹ، پولس آفیسرز، آئن سیٹزگروپن (قتل کے گشتی یونٹ) کے ارکان اور طبی تجربات اور وہ ڈاکٹر شامل تھے جنہوں نے طبی تجربات میں شرکت کی تھی۔ ان جنگی مجرموں کے خلاف مقدمات برطانیہ، امریکہ، فرانس اور مقبوضہ جرمنی اور آسٹریہ کے سوویت زون میں فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔ان کے علاوہ جنگ کے بعد کے برسوں میں یہ مقدمات اٹلی میں بھی چلے۔

آئی ایم ٹی کے مدعا علیہان کو پھانسی دینے کے صرف ایک دن کے بعد 17 اکتوبر، 1946 کو صدر ہیری ٹرومین نے ٹیلفورڈ ٹیلر کو امریکہ کا جنگی جرائم کا نیا چیف پراسیکیوٹر مقرر کر دیا۔ اُنہوں نے 12 الگ الگ مقدمات میں 183 اعلٰی سطحی جرمن اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی۔ ان امریکی فوجی ٹرائبیونلز کو مجموعی طور پر نیورمبرگ کے ذیلی مقدمات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ گسٹاپو اور ایس ایس ارکان کے علاوہ جرمن صنعتکاروں پر نیرمبرگ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے مقدمات چلائے گئے جن میں "آریانی بنانے کی کوششوں،" حراستی مراکز میں یہودیوں کی بڑے پیمانے پر فائرنگ سے قتل، آئن سیٹزگروپن کی طرف سے فائرنگ اور جلاوطنیاں شامل ہیں۔

دوسرے جنگی مجرموں پر ان ملکوں کی عدالتوں نے مقدمے چلائے جہاں انھوں نے جرم کئے تھے۔ 1947 میں پولینڈ کی ایک عدالت نے آشوٹز کیمپ کے کمانڈر روڈولف ہوئس کو سزائے موت دی۔ مغربی جرمنی کی عدالتوں میں بہت سے سابق نازیوں کو سخت سزائیں نہیں ملیں کیونکہ اُن کا مؤقف تھا کہ وہ اپنے اعلیٰ حکام کے احکام پر ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ اس جواز نے اُن کیلئے حالات کو آسان بنا دیا تھا۔ اس لئے بہت سے نازی مجرم جرمنی سوسائٹی کی عام زندگی میں لوٹ گئے۔ ان میں خاص طور پر کاروباری دنیا کے افراد شامل تھے۔

1961 میں یروشلم میں مقدمے کے دوران ایڈولف آئکمین نوٹس لے رہے ہیں۔

نازی شکاریوں (مثلاً سائمن وائزینتھل اور بیاتے کلارزفیلڈ) کی کوششوں سے ایسے متعدد نازیوں پکڑنے، سپردگی اور مقدمات چلانے میں مدد ملی جو جنگ کے بعد جرمنی سے فرار ہو گئے تھے۔ 1961 میں یروشلم میں ہونے والے ایڈولف آئخمین کے مقدمے نے پوری دنیا میں شہرت حاصل کی تھی۔

تاہم بہت سے جنگی مجرموں پر نہ تو مقدمہ نہ چلایا جا سکا اور نہ ہی اُنہیں سزا دی جا سکی۔