Theme: جنگ کے بعد

جنگ کے بعد کی آزمائشوں نے بین الاقوامی انصاف کے حوالے سے تناظر کو کیسے تشکیل دیا؟

ہولوکاسٹ کے بعد بڑے پیمانے پر مظالم اور نسل کشی کے نتیجے میں انصاف کی تلاش پر سوالات اٹھائے گئے۔ جنگ عظیم دوم کی اتحادی قوتوں نے جنگ کے وقت کے جرائم کے لیے افراد کو سزا دینے کے لیے بین الاقوامی عدالتوں کے قیام کے لیے ایک بڑا اور انتہائی عوامی ماڈل فراہم کیا۔ 

یہ جاننے کے لیے اس سوال کو دریافت کریں کہ جنگ کے بعد کے سالوں میں جرائم کی تعریف اور سماعت کیسے کی گئی، نیز اس بنیاد نے بین الاقوامی انصاف کے لیے مستقبل کے تناظر کو کیسے متاثر کیا۔

متعلقہ روابط

جنگ عظیم دوم کی اتحادی قوتوں — برطانیہ، فرانس، سوویت یونین اور امریکہ نے نیورمبرگ میں انٹرنیشنل ملٹری ٹربیونل (IMT) تشکیل دے کر مستقبل کے لیے ایک بڑا ماڈل فراہم کیا۔ 20 نومبر 1945 اور یکم اکتوبر 1946 کے درمیان IMT نے نازی جرمنی کے زندہ بچ جانے والے 22 سابق رہنماؤں کی سماعت کی۔ (آمر ایڈولف ہٹلر اور ایس ایس رہنما ہینرک ہیملر نے جنگ کے اختتام پر خودکشی کر لی تھی۔) اس نے 19 کو مجرم قرار دیا اور 3 کو بری کیا۔ نیورمبرگ چارٹر نے، جس پر اتحادیوں نے 8 اگست 1945 کو دستخط کیے تھے، IMT کی جانب سے سماعت کردہ جرائم کی تین قسموں کا تعین کیا:

  • امن کے خلاف جرائم، جس میں جارحیت کی جنگ کی منصوبہ بندی، تیاری، آغاز، اور لڑائی، نیز ان افعال میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی سازش شامل ہے؛
  • جنگی جرائم جس میں قتل، ناروا سلوک، اور شہریوں کی غلامی والی مزدوری کے لیے بے دخلی، قتل اور جنگی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک، اور یرغمالیوں کا قتل، نیز لوٹ مار اور تباہی شامل تھے؛
  • انسانیت کے خلاف جرائم، جن کو قتل، خاتمے، غلامی، ملک بدری یا شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، اور سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر مظالم کے طور پر متعین کیا گیا۔

امریکہ قانونی مشیر اعلٰی جسٹس رابرٹ جیکسن بین الاقوامی فوجی عدالت میں استغاثہ کی طرف سے ابتدائی بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

نیورمبرگ چارٹر نے IMT کو ایک منصفانہ سماعت کرنے اور مدعا علیہان کو عمل کے مخصوص مناسب حقوق دینے کی ہدایت کی۔ ان میں قانونی کاؤنسل حاصل کرنے، گواہوں سے جرح کرنے اور ثبوت اور گواہ پیش کرنے کا حق شامل تھا۔ IMT پراسیکیوٹرز نے مدعا علیہان پر 4 الزامات لگائے، جن میں پہلا نمبر جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور امن کے خلاف جرائم کے ارتکاب کی سازش تھی۔ مدعا علیہان کو یہ دعویٰ کر کے اپنے جرائم کی ذمہ داری سے بچنے کی اجازت نہیں تھی کہ انہوں نے اعلیٰ احکامات کی پیروی کی ہے یا وہ خودمختار ریاستوں کو بین الاقوامی قانون کے ذریعے عطا کردہ اختیارات کا استعمال کر رہے تھے۔

نیورمبرگ کی IMT کے علاوہ نیورمبرگ میں ایک امریکی فوجی ٹربیونل نے نیورمبرگ چارٹر میں بیان کردہ جرائم کے لیے جرمن رہنماؤں کے مزید بارہ مقدمات کی سماعت کی۔ ٹوکیو میں 1946 میں قائم کردہ مشرق بعید کے لیے انٹرنیشنل ملٹری ٹربیونل نے بھی جاپانی رہنماؤں پر نیورمبرگ چارٹر کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا۔

تنقید

کچھ ناقدین نے سماعتوں کو "فاتحین کا انصاف" کہا کیونکہ اتحادیوں نے صرف اپنے شکست خوردہ دشمنوں پر مقدمہ چلایا۔ اتحادیوں نے اپنے خود کے افعال کو اسی طرح کے فیصلے سے مشروط نہیں کیا۔ ناقدین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مدعا علیہان کو دیے گئے "مناسب عمل" کے حقوق اتنے وسیع نہیں تھے جتنے سویلین عدالتوں میں دیے جاتے تھے۔ کچھ لوگوں نے یہ دلیل بھی پیش کی کہ "امن کے خلاف جرائم" اور "انسانیت کے خلاف جرائم" کے الزامات غیر منصفانہ تھے کیونکہ ان کارروائیوں کو بین الاقوامی جرائم کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا جب وہ کیے گئے تھے۔

"انسانیت کے خلاف جرائم" کا الزام خاص طور پر تنقید کی زد میں آیا۔ اس کی تعریف بتاتی ہے کہ ایکسز رہنماؤں پر ان کی حکومتوں کے اپنے شہریوں کے خلاف کیے گئے اقدامات کے لیے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اس سے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوئی، جو اس بات کا نظم نہیں کرتا کہ ایک خودمختار ریاست اپنی رعایا کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے۔

دیگر نے جنگ کے بعد کے ٹربیونلز پر تنقید کی ہے کہ وہ اپنے طریقہ کار اور بین الاقوامی جرائم کی تعریفوں میں بہت زیادہ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ خاص طور پر ناقص وہ فیصلہ ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کو صرف جنگ کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔ IMT نے انسانیت کے خلاف جرائم پر غور نہیں کیا جو جرمنی نے صرف جرمنوں کے خلاف یا جنگ سے پہلے کے سالوں میں کیے تھے۔ اگرچہ نئی وضع کردہ اصطلاح "نسل کشی" کا ذکر نیورمبرگ IMT کے دوران کیا گیا تھا، لیکن یہ ان الزامات میں شامل نہیں تھا جن پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ نہ ہی جنسی زیادتی اور جنسی تشدد۔ بالآخر، نیورمبرگ کی IMT کے پراسیکیوٹرز کے بنیادی طور پر جرمن دستاویزات پر انحصار نے بطور ثبوت انہیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے انصاف کے عمل سے متاثرین کی آوازوں کو حذف کیا۔

اقوام متحدہ کا نیورمبرگ چارٹر کو پابند قانون کے طور پر تسلیم کرنا

1946 میں نیورمبرگ کی IMT کے فیصلوں کے بعد اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر فیصلے اور نیورمبرگ چارٹر کو بین الاقوامی قانون کا پابند تسلیم کیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ اہم "نیورمبرگ کے اصول" یہ ہیں:

  • امن کے خلاف جرائم، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم بین الاقوامی قانون کے تحت جرائم ہیں؛
  • کوئی بھی فرد، حتیٰ کہ حکومتی رہنما جو بین الاقوامی جرم کا ارتکاب کرتا ہے، قانونی طور پر جوابدہ ہو سکتا ہے؛
  • بین الاقوامی جرائم کے لیے سزا کا تعین حقائق اور قانون کی بنیاد پر منصفانہ سماعت کے ذریعے کیا جانا چاہیے؛
  • بین الاقوامی جرم کا مرتکب، جس نے کسی اعلیٰ افسر کے احکامات کی تعمیل میں کام کیا وہ بھی جرم کے لیے قانونی طور پر جوابدہ ہے۔

نیورمبرگ کے اصولوں کے علاوہ اقوام متحدہ نے جنگ کے ابتدائی دور کے دوران مختلف کنونشنز، معاہدوں اور اعلانات کی توثیق کی۔ اس کا مقصد بین الاقوامی قانون کا ایک ایسا نظام تیار کرنا تھا جو پوری انسانیت کے امن اور سلامتی کا تحفظ کرتا ہو، اور ایسے اعمال کی سزا دیتا ہو جن سے ان کو خطرات لاحق ہوں۔ دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن کو اپنایا۔ 1949 میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے نئے جنیوا کنونشن کی منظوری دی۔ جنیوا کنونشنز نے جنگ عظیم دوم سے پہلے کے کنونشنز کی جگہ لے لی جو بین الاقوامی مسلح تنازعات کے دوران جنگجوؤں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ ابتدائی حفاظتوں کو وسیع کرنے کے علاوہ نئے کنونشنز نے پہلی بار شہریوں کو تحفظ فراہم کیا۔ انہوں نے گھریلو مسلح تنازعات جیسے کہ خانہ جنگی کے لیے بھی اصول بنائے۔

IMT کی سماعتوں کے بعد اقوام متحدہ نے بین الاقوامی جرائم کا ایک عالمگیر ضابطہ اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک مستقل بین الاقوامی ٹریبونل بنانے کی کوشش کی۔ سرد جنگ کے تناؤ نے ان کوششوں کو 50 سال تک روک دیا۔ اس دوران بین الاقوامی جرائم بڑے پیمانے پر ہوتے رہے۔

صرف 1990 کی دہائی میں اقوام متحدہ نے سابقہ یوگوسلاویہ اور روانڈا میں نسلی تنازعات کے دوران جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی "ایڈ ہاک" بین الاقوامی ٹربیونل بنانے پر اتفاق کیا۔ نیورمبرگ کی IMT کے برعکس، یوگوسلاویہ اور روانڈا کے ٹربیونل عسکری کے بجائے سول تھے۔ ان کے پاس ایسے ممالک کے پراسیکیوٹر یا جج نہیں تھے جو تنازعات میں شامل تھے۔ انہوں نے نسل کشی کے لیے ابتدائی سزائیں سنائیں اور یہ قرار دیا کہ عصمت دری اور جنسی تشدد کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے طور پر عائد کیا جا سکتا ہے۔

اضافی تنازعات نے خصوصی "ہائبرڈ" عدالتوں کو جنم دیا جو قومی اور بین الاقوامی قانون اور اہلکاروں کو یکجا کرتی ہیں۔ 2012 میں خصوصی عدالت برائے سیرالیون نے نیورمبرگ میں قائم کی گئی ایک مثال کو دہرایا۔ اس مثال نے یہ ثابت کیا کہ سربراہان مملکت کو بھی بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس نے لائبیریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب پایا۔

بین الاقوامی قانون پر نیورمبرگ کا ابتدائی اثر

1961 میں یروشلم میں مقدمے کے دوران ایڈولف آئکمین نوٹس لے رہے ہیں۔

ان ٹربیونلز میں چلنے والے مقدمات نے اہم مثالیں قائم کیں۔ ان سے پہلے بین الاقوامی قانون اور طرز عمل خود مختار ریاستوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے تک محدود تھے۔ دو نئے جرائم — "امن کے خلاف جرائم" اور "انسانیت کے خلاف جرائم" — تشکیل دے کے نیورمبرگ چارٹر نے قرار دیا کہ بین الاقوامی قانون کو افراد کو ریاستی جارحیت، قتل، بدسلوکی اور ظلم و ستم سے بھی بچانا چاہئیے۔ مزید برآں، نیورمبرگ اور ٹوکیو کے متعدد ممالک میں ہونے والے جرائم کے مقدمے کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی جرائم کے لیے قانونی چارہ جوئی ان ریاستوں کی عدالتوں میں نہیں ہونی چاہئیے جہاں جرائم رونما ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے عالمگیر دائرہ اختیار کے اس تصور کو 1961 میں یروشلم کے ایک کمرہ عدالت میں ایڈولف ایچمن کی سماعت کے لیے استعمال کیا۔

یورپ، ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کی گھریلو عدالتوں کے سامنے ہزاروں ایکسز مجرموں کے جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت نے اس اصول کو مزید تقویت بخشی کہ جنگ کے دوران تشدد کے لیے افراد کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

1998 کا روم کا قانون نیورمبرگ چارٹر پر مبنی ہے

1998 میں اقوام متحدہ کے چند رکن ممالک نے روم کا قانون اپنایا۔ روم کے قانون نے نسل کشی، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم کے بین الاقوامی جرائم کو ضابطہ بنایا۔ اس نے مجرموں پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک مستقل بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) بھی تشکیل دی۔ نسل کشی کے علاوہ روم کے قانون نے ان کارروائیوں میں اضافہ کیا جن کو نیورمبرگ کے چارٹر نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے طور پر بیان کیا جس میں تشدد، جنسی تشدد اور نسل پرستی جیسی کارروائیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ روم کے قانون نے یہ بھی قرار دیا کہ انسانیت کے خلاف جرائم امن کے وقت، نیز مسلح تصادم کے دوران بھی کیے جا سکتے ہیں۔ روم کے قانون کے تحت مدعا علیہان کو فراہم کردہ نیورمبرگ چارٹر سے زیادہ واجبی کارروائی کے حقوق حاصل ہیں۔ متاثرین کو استغاثہ کے پیش کردہ شواہد کے علاوہ ثبوت بھی پیش کرنے کی اجازت ہے۔

ICC نے 2002 میں کام شروع کیا۔ 2010 میں روم کے قانون پر دستخط کرنے والی طاقتوں نے جارحیت کے بین الاقوامی جرم کی تعریف پر اتفاق کیا۔ انہوں نے اسے ICC کے دائرہ اختیار میں شامل کیا جس کا آغاز 2018 میں ہوا۔ فی الحال، 123 ممالک نے روم کے قانون کی توثیق کی ہے اور ICC کے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا ہے۔ جن ریاستوں نے روم کے قانون کو نہیں اپنایا ان میں چین، روس اور امریکہ شامل ہیں۔

آج، مجرموں کو ICC، متعدد ہائبرڈ ٹربیونلز اور کئی ریاستوں کی مقامی عدالتوں سے انصاف کا سامنا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مجرموں کو بین الاقوامی جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی یہ کوششیں نیورمبرگ چارٹر اور سماعتوں کی فراہم کردہ انتہائی عوامی ماڈل کے بغیر ہو رہی ہوں گی۔ جیسا کہ نیورمبرگ کے پراسیکیوٹر بنجمن فیرنز نے لکھا ہے، نیورمبرگ کی سماعتوں نے

"مستقبل کے قانونی حکم کے بیج لگائے جس کی بنیاد تمام لوگوں کی ساتھی انسانوں سے انسانی ہمدردی پر مبنی ہے، جو مساوی وقار اور امن کے حقدار ہیں۔"

اس کے باوجود پوری دنیا میں بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب جاری ہے۔ ان کے مجرموں کو شاذونادر ہی انصاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری قانون کے نظام کو تیار کرنے میں نمایاں پیش رفت کے باوجود نیورمبرگ میں لگائے گئے بیج ابھی تک مکمل طور پر پھل نہیں دے پائے۔

تنقیدی سوچ سے متعلق سوالات

  • کیا انصاف کے حصول میں کبھی تاخیر ہوتی ہے؟

  • فوجی شرکاء کے علاوہ ہولوکاسٹ کے تناظر میں دیگر کون سے پیشہ ور افراد پر جرائم کا الزام عائد کیا گیا؟ کیا دیگر پیشہ ور افراد پر نسل کشی کے دیگر مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی ہے؟

  • بین الاقوامی ٹربیونلز کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟ قومی ٹربیونلز کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟

  • کیا کسی قوم کی ماضی کی میراث تنازعات اور اجتماعی مظالم کے بعد انصاف کے حصول کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہے؟ کیا قومی عزائم انصاف کی تلاش کو غصب کر سکتے ہیں؟

  • اجتماعی مظالم اور نسل کشی کو دستاویز بند کرنا کیوں ضروری ہے؟ سماعتوں میں ثبوت کے طور پر کون سے مختلف قسم کے ذرائع استعمال کیے گئے؟

Thank you for supporting our work

We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.