قتل گاہوں کی جانب بڑے پیمانے پر جلاوطنیاں، 1942-1944

22 جولائی اور 12 ستمبر، 1942 کے دوران جرمن حکام نے 3 لاکھ یہودیوں کو جلاوطن کر دیا یا اُنہیں وارسا یہودی بستی میں قتل کر دیا۔ ایس ایس اور پولیس یونٹوں نے دو لاکھ پینسٹھ ہزار یہودیوں کو ٹریبلنکا مرکز قتل میں اور 11,580 کو جبری مشقت کے کیمپوں میں جلاوطن کر دیا۔ جرمنوں اور ان کے حلیفوں نے جلاوطنی کی کارروائیوں کے دوران وارسا یہودی بستی میں 10,000 سے زائد یہودیوں کو قتل کیا۔ جرمن حکام نے صرف 35,000 یہودیوں کو یہودی بستی میں رہنے کی اجازت دی جبکہ مذید 20,000 سے زائد یہودی بستی میں چھپے رہے۔ وارسا یہودی بستی میں باقی کم از کم 55,000-60,000 یہودیوں کے لئے جلاوطنی ناگزیر لگ رہی تھی۔

جلاوطنیوں کے جواب میں 28 جولائی، 1942 کو کئی یہودی زیر زمین تنظیموں نے ایک مسلح خود دفاعی یونٹ تخلیق کیا جسے یہودی جنگی تنظیم (زائیڈوسکا آرگنائزیکجا بوجووا) ؛زی او بی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غیر مستند تخمینے کے مطابق تشکیل کے وقت یہ یونٹ تقریباً 200 ارکان پر مستمل تھا۔ ترمیمی پارٹی (دائیں بازو کے صیہونی افراد جنہیں بیٹر کے طور پر جانا جاتا ہے) نے ایک اور مزاحمتی تنظیم، یہودی فوجی یونین زائیڈوسکی زویازیک ووجسکووی; زی زی ڈبلیو قائم کی۔ اگرچہ، ابتدائی طور پر زی او بی اور زی زی ڈبلیو کے درمیان کشیدگی تھی، دونوں گروپوں نے ساتھ مل کر جرمنوں کی جانب سے یہودی بستی کو تباہ کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بغاوت کے وقت ذی او بی کے پاس اپنی صفوں میں تقریباً 500 اور زی زی ڈبلیو کے پاس تقریباً 250 جنگجوتھے۔ 1942 کے موسم گرما کے دوران پولش زیر زمین فوجی تحریک (آرمیا کراجووا یعنی ہوم آرمی) کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں، زی او بی نے اکتوبر میں ہوم آرمی کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ہوم آرمی سے تھوڑی سی تعداد میں ہتھیار حاصل کئے جن میں زیادہ تر پستول اور دھماکہ خیز مواد شامل تھا۔

رائخس فیوہرر –ایس ایس (ایس ایس چیف) ہائنرخ ہملر کے اکتوبر 1942 کے حکم کے مطابق وارسا یہودی بستی کو ختم کرنے اور اس کے جسمانی طور پر موذوں افراد کو جنرل گورنمنٹ کے لبلن ڈسٹرکٹ میں قائم جبری مشقت کے کیمپوں میں جلاوطن کرنے کیلئے جرمن ایس ایس اور پولیس یونٹوں نے 18 جنوری 1943 کو وارسا سے یہودیوں کی اجتماعی جلاوطنی دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی۔ پستولوں کے ساتھ مسلح یہودی مزاحمت کاروں کا ایک گروپ خفیہ طور پر اُن یہودیوں کی صفوں میں شامل ہو گیا جنہیں جبری طور پر امشلیگ پلاٹز (منتقلی پوائنٹ) بھیجا رہا تھا اور پہلے سے طے شدہ ایک سگنل پر انہوں نے صفوں کو توڑتے ہوئے اپنے جرمن محافظوں سے لڑائی شروع کر دی۔ ان میں سے زیادہ تر یہودی مزاحمت کار اس لڑائی میں مارے گئے لیکن اس حملے نے جرمنوں کو کافی حد تک ہلا کر رکھ دیا جنہوں نے امشلیگ پلاٹز میں صفوں کو منظم کیا لیکن پھر اُنہیں منتشر ہونے کا موقع فراہم کر دیا۔ یہودی بستی کے 5,000-6,500 یہودی مکینوں کو جلاوطنی کیلئے پکڑنے کے بعد جرمنوں نے 21 جنوری کو مزید جلاوطنیاں معطل کر دیں۔ مزاحمت کی ظاہری کامیابی سے حوصلہ پاتے ہوئے، جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ اُس نے جلاوطنیاں روک دی تھیں، یہودی بستی کے مکینوں نے ایک بغاوت کی تیاری میں زمین دوز بنکرز اور پناہ گاہیں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ یہ اقدام اس پیش بندی کے حوالے سے کیا گیا کہ کہیں جرمن یہودی بستی میں موجود باقی تمام مکینوں کی حتمی جلاوطنی کی کوشش نہ کریں

جرمن افواج نے 19 اپریل 1943 کو پاسوور تہوار کے موقع پر وارسا یہودی بستی کو ختم کرنے کے لئے آپریشن شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ جب ایس ایس اور پولیس کی نفری اس دن صبح یہودی بستی میں داخل ہوئی تو سڑکیں ویران تھیں۔ یہودی بستی کے تقریباً تمام مکین چھپنے کی جگہوں یا بنکروں میں چلے گئے تھے۔ جلاوطنیوں کی دوبارہ شروعات یہودی بستی کے اندر ایک مسلح بغاوت کے لئے ایک اشارہ تھی۔

زی او بی کمانڈر مورڈیکائی آنئیلیویچ نے وارسا یہودی بستی کی بغاوت کے دوران یہودی جنگجوؤں کی کمان کی۔ پستول، دستی بم (ان میں سے بہت سے گھر پر بنے ہوئے تھے) اور چند خود کار ہتھیاروں اور رائفلوں سے مسلح زی او بی کے جنگجوؤں نے جرمنوں اور اُن کے اتحادیوں کو لڑائی کے پہلے ہی روز ششدر کر دیا اور اُنہیں پسپا ہوتے ہوئے یہودی بستی کی دیوار کے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ جرمن کمانڈر ایس ایس جنرل جرگن اسٹروپ نے بتایا کہ یہودی بستی پر پہلے حملے کے دوران اُن کے 12 افراد مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ بغاوت کے تیسرے دن اسٹروپ کی ایس ایس اور پولیس فورسز نے یہودی بستی کی عمارتوں کو ایک ایک کر کے گرانا شروع کر دیا تا کہ چھپے ہوئے یہودیوں کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہودی مزاحمتی جنگجوؤں نے اپنے بنکروں سے وقتاً فوقتا" حملے کیے لیکن جرمنوں نے منظم طریقے سے بستی کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا۔ جرمن فورسز نے 18 میلا اسٹریٹ پر واقع زی او بی کے کمانڈ بنکر پر حملہ میں انیلیوکز اور اس کے ہمراہ ساتھیوں کو ہلاک کر دیا، جن پر اُنہوں نے 8 مئی کو قبضہ کر لیا تھا۔

وارسا یہودی بستی کی بغاوت - تصویریں

اگرچہ جرمن افواج نے بغاوت کے شروع ہونے کے بعد چند دنوں کے اندر منظم فوجی مزاحمت ختم کر دی تھی، تاہم انفرادی طور پر اور چھوٹے گروپوں کی شکل میں لوگ چھپے رہے اور وہ لگ بھگ ایک ماہ تک جرمنوں سے لڑتے رہے۔

جرمن فتح کو علامت بناتے ہوئے اسٹروپ نے 16 مئی، 1943 کو ٹلوماکی اسٹریٹ پر واقع عظیم سیناگاگ کی تباہی کا حکم دیا۔ یہودی بستی اب خود کھنڈر بن چکی تھی۔ اسٹروپ نے رپورٹ دی کہ اس نے 56,065 یہودیوں کو گرفتار کر لیا ہے اور 631 بنکروں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ بغاوت کے دوران اس کے یونٹوں نے 7,000 تک یہودیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ جرمن حکام نے وارسا کے تقریباً 7,000 مزید یہودیوں کو ٹریبلنکا کی قتل گاہ میں جلاوطن کر دیا جہاں پہنچنے پر تقریباً تمام ہی گیس چیمبروں میں ہلاک کر دئے گئے۔ جرمنوں نے باقی تقریباً تمام 42,000 یہودیوں کو لوبلن/مجدانیک حراستی کیمپوں، اور پونیا ٹووا، ٹرونیکی، بڈزائن اور کراسنک کے جبری مشقت کے کیمپوں میں جلاوطن کر دیا۔ جرمن ایس ایس اور پولیس یونٹس نے بعد میں بڈزائن اور کراسنک کے چند ہزار جبری مزدوروں کے سوا وارسا کے تقریباً تمام یہودیوں کو "آپریشن ہارویسٹ فیسٹیول" (اُنٹرنیہمن ارنٹافیسٹ) کے دوران قتل کر دیا جنہیں نومبر 1943 میں لوبلن/مجدانیک، پونیا ٹووا اور ٹرونیکی جلاوطن کیا گیا تھا۔

جرمنوں نے تین دن میں وارسا یہودی بستی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہودی بستی کے مزاحمت کاروں نے ایک ماہ سے زیادہ تک مزاحمت جاری رکھی۔ 16 مئی، 1943 کو بغاوت کے اختتام کے بعد بھی یہودی بستی کے کھنڈرات میں چھپے ہوئے یہودیوں نے انفرادی طور پر گشت کرنے والے جرمنوں اور ان کے حلیفوں پر حملے جاری رکھے۔ وارسا کی یہودی بستی کی بغاوت یہودیوں کی طرف سے سب سے بڑی بغاوت تھی اور علامتی طور پر بھی سب اہم بغاوت تھی۔ یہ جرمن مقبوضہ یورپ کے شہری علاقوں میں ہونے والی پہلی بغاوت تھی۔ وارسا کی مزاحمت نے دیگر یہودی بستیوں (مثلاً بیالسٹاک اور مینسک) اور قتل گاہوں (ٹریبلینکا اور سوبیبور) کو متاثر کرتے ہوئے وہاں بھی بغاوت کو اُبھارا۔

آجکل ہولوکاسٹ کا شکار ہونے والے افراد اور ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والوں کی یاد میں ہونے والی تقریبات کے خاص دن وارسا یہودی بستی کی بغاوت سے جڑے ہوئے ہیں۔