"پروپیگنڈا تمام لوگوں پر ایک نظرئیے کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ پروپیگنڈا عام لوگوں پر ایک خیال کی حیثیت سے اثرانداز ہوتا ہے اور پھر اِس خیال کی فتح کیلئے اُنہیں تیار کرتا ہے"۔ یہ الفاظ ایڈولف ہٹلر نے اپنی کتاب مین کیمپف (1926) میں لکھے تھے جس میں اُس نے پہلے قومی سوشلزم کے تصورات کو پھیلانے کیلئے پروپیگنڈے کے استعمال کی وکالت کی جس میں نسلی امتیاز، سام دشمنی اور بالشویکی تحریک کی مخالفت شامل ہے۔

1933 میں نازیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہٹلر نے عوامی روشن خیالی اور پروپیگنڈے کی ریخ وزارت قائم کی جس کا سربراہ جوزف گیبیلز تھا۔ وزارت کا مقصد اِس بات کو یقینی بنانا تھا کہ آرٹ، موسیقی، تھیٹر، فلموں، کتابوں، ریڈیو، تعلیمی مواد اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے نازی پیغام کو کامیابی کے ساتھ فروغ دیا جائے۔

نازی پروگینڈے کی رسائی کئی طرح کے لوگوں کیلئے تھی۔ جرمنوں کو غیر ملکی دشمنوں اور یہودی بغاوت کے خلاف جدوجہد سے روشناس کرایا گیا۔ یہودیوں کے خلاف قانون سازی یا سرکاری اقدامات سے پہلے کے زمانے میں پروپیگندا مہموں سے ایسا ماحول تیار گیا جس میں یہودیوں کے خلاف تشدد کو برداشت کیا جائے خاص طور پر 1935 (ستمبر کے نیورم برگ نسلی قوانین سے پہلے) اور 1938 (کرسٹل ناخٹ کے بعد سام دشمنی پر مبنی اقتصادی قانون سازی سے پہلے)۔ پروپیگندا غیر فعالیت اور یہودیوں کے خلاف ہونے والے ایسے اقدامات کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتا تھا جن سے بظاہر یہ تاثر دیا جاتا کہ نازی حکومت اقدامات کرتے ہوئے "نظم و نسق کی بحالی" کی کوشش کر رہی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی ایماء پر چیکوسلواکیہ اور پولینڈ جیسے مشرقی یورپ کے جن ممالک نے مزید علاقے ہتھیا لئے تھے اُن میں نسلی جرمنوں کے خلاف حقیقی یا پھر تصوراتی امتیاز ہی نازی پروپیگنڈے کا موضوع تھا۔ اِس پروپیگنڈے کے ذریعے جرمن نسلی آبادی کی طرف سے سیاسی وفاداری اور نسلی احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اِس نے یورپ کی بڑی قوتوں سمیت بیرونی ممالک کی حکومتوں کو بھی یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ نازی جرمنی دیگر ممالک سے رعایتوں اور اُن کے علاقوں پر قبضے سے متعلق قابل فہم اور منصفانہ مطالبات کر رہا ہے۔

جرمنی کے سوویت یونین پر حملے بعد جرمن پروپیگنڈے نے اندرون ملک سویلین افراد اور فوجیوں، پولیس افسروں اور مقبوضہ علاقوں میں متعین غیر جرمن ذیلی فوجیوں پر ایسے تاثر کو تھوپنے کی کوشش کی کہ جس میں سوویت اشتراکیت کو یورپ کے یہودیوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی اور ایسا کرتے ہوئے جرمنی کو یہودی بورژوائی خطرے کے خلاف "مغربی" ثقافت کا دفاع کرنے والے کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور سوویت یونین کی طرف سے جنگ جیت جانے کی صورت میں ایک خوفناک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اقدام اُس وقت زیادہ شدت سے سامنے آیا جب جرمنی کو فروری 1943 میں اسٹالن گراڈ میں شکست ہو گئی۔ یہ پروپیگنڈا نازیوں اور غیر نازی جرمنوں کے ساتھ ساتھ مقامی حامیوں کو آخری وقت تک لڑتے رہنے کیلئے ترغیب دینے میں شاید سودمند رہا ہو گا۔

فلموں نے نسلی بنیادوں پر سام دشمنی، جرمن فوجی طاقت کی برتری اور نازی نصب العین کے تحت واضع کی جانے والی دشمنوں کی مخفی برائی کو اجاگر کرنے میں خاص طور پر اہم کردار ادا کیا۔ نازی فملوں میں یہودیوں کو "گھٹیا انسانی" مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا جو آرین سوسائٹی میں در آیا تھا۔ مثال کے طور پر فرٹز ہپلر کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم "دی ایٹرنل جیو" (1940 ) میں یہودیوں کو ایسی ثقافتی جونکوں سے تعبیر کیا گیا جو جنسیت اور روپے پیسے کی لت میں مبتلاء تھے۔ لینی رائے فینسٹاہل کی فلم "دی ٹرائمف آف دی ول" (1935) جیسی کچھ فلموں میں ہٹلر اور قومی سوشلسٹ تحریک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ رائے فینسٹاہل کی دو دیگر فملوں "فیسٹول آف دا نیشنز" اور "فیسٹول آف بیوٹی" (1938 ) میں 1936 کے برلن اولمپک کھیل دکھائے گئے اور اِن اولمپک کھیلوں کے دوران نازی حکومت کی کامیابیوں کے حوالے سے قومی عظمت کو اجاگر کیا گیا۔

جرمنی کے اخبارات خاص طور پر دئر شٹرمر (حملہ آور) نے ایسے کارٹون شائع کئے جن میں یہودیوں کو دکھانے کیلئے سام دشمنی پر مبنی مسخ شدہ خاکے شامل کئے گئے۔ ستمبر 1939 میں جرمنوں کی طرف سے پولینڈ پر حملے کے ساتھ دوسری عالمی جنگ شروع کرنے کے بعد نازی حکومت نے جرمن شہریوں اور فوجیوں کو یہ باور کرانے کیلئے پراپیگنڈے کا استعمال کیا کہ یہودی نہ صرف گھٹیا انسان ہیں بلکہ جرمن ریخ کیلئے خطرناک دشمن بھی ہیں۔ نازی حکومت نے جرمن بستیوں میں سے یہودیوں کو مستقل طور پر نکالنے کیلئے حمایت یا پھر خاموش تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔

نام نہاد حتمی حل پر عمل درآمد یعنی یورپی یہودیوں کے قتل عام کے دوران قتل گاہوں میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ہالوکاسٹ کے شکار افراد کو مجبور کیا کہ وہ جرمنی اور مقبوضہ یورپ سے یہودیوں کو ممکن حد تک سہولت کے ساتھ جلا وطن کرنے کے عمل کو لازمی طور پر مخفی رکھیں۔ حراستی کیمپ اور قتل گاہ کے اہکار قیدیوں پر دباؤ ڈالتے کہ وہ اپنے گھروں کو ایسے پوسٹ کارڈ روانہ کریں جن میں وہ کہیں کہ اُن کے ساتھ بہترین سلوک کیا جا رہا ہے اور وہ نہایت شاندار ماحول میں رہ رہے ہیں اگرچہ ان میں سے اکثر کو جلد ہی گیس چیمبرز میں ہلاک کر دیا جانا تھا۔ یوں کیمپ حکام نے اپنے ظلم و ستم اور قتل عام کے اقدامات کو چھپانے کیلئے پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔

جون 1944 میں جرمن سیکورٹی پولیس نے بین الاقوامی ریڈ کراس کی ٹیم کو تھیریسئن شٹٹ کیمپ گھیٹو کے معائنے کی اجازت دے دی جو بوہیمیا اور موراویہ کے پروٹیکٹوریٹ میں واقع تھا۔ (یہ علاقہ اب جمہوریہ چیک کہلاتا ہے)۔ ایس۔ ایس اور پولیس نے تھیریسئن شٹٹ نومبر 1941 میں قائم کیا تھا جس کا مقصد جرمن ریخ میں داخلی طور پر پروپیگنڈے کیلئے اسے استعمال کرنا تھا۔ کیمپ گھیٹو کو جرمن شہریوں کو مطمئن کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا جو اِس بات پر حیرت کا شکار تھے کہ جنگ میں حصہ لیتے ہوئے جسمانی طور پر معزور ہونے والے یا مقامی طور پر معروف فنکاروں اور موسیقاروں سمیت زیادہ عمر کے جرمن اور آسٹرئن یہودیوں کو جلاوطن کر کے "مشرق کی جانب" "جبری مشقت" کیلئے کیوں بھجا جا رہا ہے۔ 1944 کے اِس دورے کی تیاری میں گھیٹو میں "آرائش و زیبائش" کے ایک پروگرام کے تحت اسے سجایا گیا۔ معائنے کے تناظر میں پروٹیکٹوریٹ میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ایک فلم تیار کی جس میں گھیٹو کے رہائشیوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ تھیریسئن شٹٹ کے یہودی "رہائشیوں" کے ساتھ فرضی طور پر کس قدر فراخدلی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب فلم تیار ہو گئی تو ایس۔ ایس اہلکاروں نے اِس فلم کی "کاسٹ" کے بیشتر لوگوں کو آشوٹز۔ برکیناؤ قتل گاہ روانہ کر دیا۔

نازی حکومت نے جنگیں جیتنے کے سلسلے میں جرمن عوام کی تائید و حمایت کے حصول کی خاطر اپنی حکومت کے آخر تک پروپیگنڈے کا مؤثر استعمال کیا۔ اسی طرح یورپین یہودیوں اور نازی حکومت کے شکار دیگر افراد کے قتل عام پر معمور افراد کا حوصلہ بڑھانے کیلئے بھی یہ پروپیگنڈا بہت ضروری تھا۔ اسے نسلی طور پر ہدف بنا کر ہراساں کرنے اور قتل عام کے اقدامات کے سلسلے میں تمائشایوں کی حیثیت سے لاکھوں دیگر افراد کی تائید حاصل کرنے کی خاطر بھی استعمال کیا گیا۔