
معذور لوگوں کا قتل
ایڈولف ہٹلر کے مطابق جنگ کا وقت "ناقابل علاج افراد کو ختم کرنے کا بہترین وقت تھا"۔ کئی جرمن ایسے افراد کو یاد نہيں کرنا چاہتے تھے جو ان کے "عظیم نسل" کے تصور پر پورا نہيں اترتے تھے۔ جسمانی اور ذھنی طور پر معذور افراد کو معاشرے کے لئے "بے کار"، آرین نسل کی پاکیزگی کے لئے خطرہ اور آخر میں زندہ رہنے کے ناقابل سمجھا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر جسمانی یا ذہنی طور پر معذور یا جسمانی طور پر بیمار افراد کو نازیوں نے "ٹی فور" یا "رحمانہ قتل" کے پروگرام کے تحت نشانہ بنایا۔
"رحمانہ قتل" کے پروگرام میں کئی جرمن ڈاکٹروں کا تعاون ضروری تھا جنہوں نے اداروں میں مریضوں کی طبی فائلوں پر نظرثانی کرکے فیصلہ کیا کہ کن معذور یا جسمانی طور پر بیمار افراد کو قتل کیا جائے۔ ڈاکٹروں نے قتل کے اقدامات کی نگرانی بھی کی۔ بدقسمت مریضوں کو جرمنی اور آسٹریا کے چھ اداروں میں منتقل کردیا گیا جہاں انہيں خاص طور پر تعمیر کردہ گیس چیمبروں میں قتل کیا جاتا تھا۔ معذور اور چھوٹے بچوں کو بھی دوائیوں کی خطرناک مقدار دے کر یا بھوکا رکھ کر ہلاک کیا گیا۔ ان افراد کی لاشوں کو بڑی بھٹی میں جلایا گیا، جنہیںلاش بھٹی کہا جاتا تھا۔
1941 میں عوامی اجتجاج کے باوجود نازیوں نے جنگ کے دوران اس پروگرام کو خفیہ طور پر جاری رکھا۔ 1940 اور 1945 کے دوران تقریباً دو لاکھ معذور افراد کو قتل کیا گیا۔
اس ٹی فور پروگرام نے یہودیوں، روما (خانہ بدوشوں) اور 1941 اور 1942 کے درمیان نازیوں کے قائم کردہ گیس چیمبروں سے آراستہ کیمپوں میں موجود دوسرے افراد کے اجتماعی قتل کے لئے مثال قائم کی۔ یہ پروگرام ان کیمپوں میں تعینات ایس ایس ممبران کے لئے تربیت کے طور پر بھی استعمال کئے جاتے تھے۔