زندہ بچنے والے افراد کے لئے ہالوکاسٹ سے قبل والی زندگی جینا ناممکن تھا۔ یورپ کے بیشتر حصے میں یہودی برادریاں باقی نہيں رہیں تھی۔ جب لوگوں نے کیمپوں یا چھپنے کی جگہوں سے اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش کی۔ ان کو معلوم ہوا کہ بیشتر اوقات ان کے گھروں کو یا تو لوٹا گیا تھا یا ان پر دوسروں نے قبضہ کرلیا تھا۔

گھر لوٹنا بھی خطرناک ہوگیا تھا۔ جنگ کے بعد پولینڈ کے متعدد شہروں میں یہودیوں کے خلاف فسادات چھڑگئے۔ سب سے بڑا یہودی مخالف پوگروم جولائی 1946 میں جنوب مشرقی پولینڈ کے شہر کیلسی میں ہوا جب 150 یہودی شہر واپس لوٹے تو وہاں کے رہنے والے لوگوں کو ڈر لگنے لگا کہ مذید سینکڑوں یہودی واپس آکر اپنے گھروں اور سازوسامان کا مطالبہ کریں گے۔ سالوں پرانی سام مخالف من گھڑت کہانیاں، جیسے کہ یہودی رسومات کے لئے عیسائیوں کا قتل، واپس ابھرنے لگيں۔ یہودیوں کے ایک پولش لڑکے کے خون کو مذہبی رسومات میں استعمال کرنے کی افواہ کے بعد، بچنے والوں کے ایک گروہ پر ایک ہجوم نے حملہ کردیا۔ فسادیوں نے 41 افراد کو ہلاک اور 50 افراد کو زخمی کردیا۔ کیلسی کے پوگروم کی خبر بہت تیزی سے پھیلی اور یہودیوں کو اس بات کا احساس ہوگيا کہ پولینڈ میں اب ان کے لئے کوئی مستقبل نہيں تھا۔

زندہ بچنے والے کئی افراد سابقہ حراستی کیمپوں کے مقامات پر اتحادیوں کے فوجی قبضے کے تحت مشرقی یورپ میں قائم کئے جانے والے بے دخل افراد کے کیمپوں میں پہنچ گئے۔ وہاں وہ امریکہ، جنوبی افریقہ یا فلسطین جیسی جگہوں میں داخلے کے منتظر رہے۔ پہلے تو کئی ممالک نے اپنی پرانی نقل مکانی کی پالیسیاں جاری رکھیں، جن کی وجہ سے قبول کئے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد کافی حد تک محدود کر دی گئی۔ برطانوی حکومت نے، جو فلسطین پر کنٹرول رکھتی تھی، یہودیوں کو بڑی تعداد میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ کئی یہودیوں نے قانونی دستاویزات کے بغیر ہی فلسطین میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پکڑے جانے پر کچھ کو جزیرہ سائپرس پر رکھا گيا جبکہ باقیوں کو جرمنی جلاوطن کردیا گيا۔ برطانیہ کے پناہ گزینوں کے ساتھ رسواکن سلوک کی وجہ سے یہودیوں کے لئے علیحدہ ملک کے لئے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہوگیا۔ آخرکار اقوام متحدہ نے فلسطین کو یہودی اور عرب ملک میں تقسیم کرنے کے لئے رائے شماری کی۔ 1948 کے آغاز میں برطانیہ نے فلسطین سے نکلنا شروع کردیا۔ 14 مئی 1948 کو یہودیوں کے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرنے والے ایک نمایاں شخص نے مملکت اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد یہودی پناہ گزینوں کے جہازوں نے نئے ملک کی بندرگاہوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے آنا شروع کردیا۔ امریکہ نے بھی اپنی نقل مکانی کی پالیسی تبدیل کرکے زيادہ یہودی پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت دی۔

باوجود اس کے کہ کئی زندہ بچنے والے یہودی اپنے نئے ممالک میں نئی زندگیاں جی سکتے تھے، جرمنی میں نازی پالیسیوں کے غیریہودی شکار افراد پر ظلم و ستم جاری رہا۔ ملک کے کچھ حصوں میں روما (خانہ بدوشوں) کے خلاف امتیازی سلوک کرنے والے قوانین 1970 تک عمل میں رہے۔ نازی جرمنی میں ہم جنس پرستوں کو زیرحراست رکھنے والا قانون 1969 تک قائم رہا۔

اہم تواریخ

3 اگست 1945
ہیریسن نے جرمنی کے یہودیوں کے بارے میں رپورٹ جاری کر دی

امریکہ کے خصوصی ایلچی ارل ہیریسن کی سربراہی میں ایک وفد جرمنی میں ملک بدر افراد کے کیمپ پہنچا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، لاکھوں یہودی اپنے ممالک لوٹنے میں کامیاب نہ ہوئے، اور وہ جرمنی، آسٹریہ یا اٹلی میں رہ گئے۔ اتحادیوں نے پناہ گزينوں کے لئے بے دخل افراد (یعنی ڈی پی) کیلئے کیمپ قائم کئے۔ زيادہ تر یہودی بے دخل افراد نے فلسطین ہجرت کرنے کو ترجیح دی لیکن کئی امریکہ آنے کے خواہشمند تھے۔ وہ اُس وقت تک بے دخل افراد کے کیمپ میں رہے جب تک کہ وہ یورپ سے نکل نہ سکیں۔ ہیریسن نے اپنی رپورٹ میں یہودی بے دخل افراد کی صورتِ حال کو اجاگر کیا جس کی وجہ سے کیمپوں کی صورت حال بہتر ہونے لگی۔ 1946 کے اختتام تک یہودی بے دخل افراد کی تعداد تقریبا ڈھائی لاکھ تھی۔

11 جولائی 1947
برطانوی پابندیوں کے باوجود پناہ گزینوں کا بحری جہاز فلسطین کی طرف روانہ ہوگیا

برطانوی امیگریشن کی پابندیوں کے باوجود کئی یہودی بے دخل افراد نے فلسطین ہجرت کرنے کی کوشش کی۔ (1920 ميں برطانیہ کو لیگ آف نیشنز کی جانب سے فلسطین کے انتظام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور برطانیہ نے 1948 تک علاقے کا انتظام کیا)۔ پابندیوں کے باوجودایکسوڈس نامی پناہ گزینوں کا جہاز جنوبی فرانس سے فلسطین کی جانب روانہ ہوا۔ اس میں جرمنی کے بے دخل افراد کے کیمپوں سے تقریبا ساڑھے چار ہزار یہودی مسافر سوار تھے۔ برطانوی اہلکاروں نے فلسطین کے ساحل میں داخل ہونے سے پہلے ہی بحری جہاز کا راستہ روک دیا۔ مسافروں کو زبردستی برطانوی بحری جہازوں پر منتقل کردیا گيا اور انہيں فرانس میں واپس اُسی مقام پر بھجوا دیا گیا جہاں سے وہ روانہ ہوئے تھے۔ تقریبا ایک مہینے تک برطانوی حکام نے پناہ گزینوں کو فرانسیسی ساحل پر لنگرانداز جہاز پرہی رکھا۔ فرانسیسی حکام نے برطانیہ کی طرف سے مسافروں کو اتارنے کا مطالبہ رد کردیا۔ بالآخر برطانوی اہلکار پناہ گزینوں کو جرمنی کے شہر ہیمبرگ لے گئے اور انہيں زبردستی بے دخل افراد کے کیمپوں میں واپس بھیج دیا۔ پناہ گزين جہاز ایکسوڈس کے ساتھ جو ہوا، اس کی وجہ سے بے دخل افراد کے کیمپوں میں ہالوکاسٹ سے بچنے والے افراد کے حالات دنیا کے سامنے واضح ہوئے، اور برطانیہ پر فلسطین میں یہودی نقل مکانی پر پابندیاں ہٹانے کے لئے دباؤ بڑھ گیا۔

29 نومبر 1947
اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے لئے رائے شماری کی

ایک خصوصی اجلاس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے رائے شماری کی– ایک یہودی اور دوسرا عرب۔ چھ ماہ سے کم عرصے میں، 14 مئی 1948 کو نمایاں صیہونی رہنما ڈیوڈ بین گورین نے مملکت اسرائيل کے قیام کا اعلان کر دیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ نئے ملک میں یہودی نقل مکانی پر کوئی پابندیاں نہيں لگائی جائيں گی۔ 1948 اور 1951 کے درمیان، سات لاکھ کے قریب یہودی ہجرت کرکے اسرائيل چلے گئے، ان میں یورپ میں موجود بے دخل یہودیوں کا دوتہائی سے زيادہ حصہ شامل تھا۔ ہالوکاسٹ سے بچنے والے،ایکسوڈسکے مسافر، وسطی یورپ سے بے دخل افراد، اور سائپرس میں برطانوی حراستی کیمپوں سے یہودی قیدیوں کا یہودی ملک میں خیرمقدم کیا گيا۔