منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
جیکب کراکاؤ شہر میں رہنے والے ایک مذہبی یہودی والدین کے تین بیٹوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کے والد آٹے کے تاجر تھے۔ ویسرمین خاندان پروسزووچ کے قریب اُس کے دادا کے کھیت میں موسم گرما گزارتا تھا۔ ان کے دادا ایک آٹا پیسنے والی چکی کے بھی مالک تھے۔
1933-39: مارچ 1939 میں جب میں 13 برس کا ہوا تو میں نے اپنا بار متزواہ (ایک یہودی تقریب) منایا۔ حسب معمول ہم اس موسم گرما میں بھی اپنے دادا کے کھیت پر گئے۔ مگر جب ہم لوٹے تو سب کچھ ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا تھا۔ 6 ستمبر کو جرمنوں نے کراکاؤ پر قبضہ کر لیا تھا اور یہودیوں کو فٹ پاتھ پر چلنے، گاڑیاں چلانے حتی کہ ایک ریڈيو رکھنے کی اجازت بھی نہ تھی۔ ہمیں سڑکوں پر چلنے سے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ یہودیوں کو اکثر اغواء کر کے مارا پیٹا جاتا تھا۔
1940-45: 1940 میں ہم نے کھیت میں پناہ لی۔ ہفتے کے دن صبح سویرے علاقے میں موجود یہودیوں کو پکڑ کر جمع کیا گیا۔ ہمیں پروسزووچ تک مارچ کروایا جا رہا تھا۔ ایک پولش پولیس مین نے، جس کے برابر دو لاشیں پڑی ہوئی تھیں، مجھ سے پوچھا کہ میں نے اس کو "صبح بخیر" کیوں نہیں کہا۔ جیسے ہی میں اس کے قریب آیا اس نے اپنی بندوق لوڈ کر کے میری جانب کر دی۔ مگر میں جیسے ہی اس کے برار سے گزرا اس نے زور سے بیرل سے ضرب لگائی جس کے باعث میری ناک اور جبڑا ٹوٹ گیا۔ میں پیچھے رہ کر لائن سے ہٹ گیا۔ پولیس مین نے میری بجائے کسی اور پر گولی چلا دی۔ چار دن بعد میرے والد اور مجھے پروکوکیم کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔
جیکب نے جنگ کا وقت جبری مشقت کے کیمپوں میں گزارا۔ 1947 میں اس نے غیر قانونی طور پر فلسطین ہجرت کرنے کی کوشش کی مگر برطانوی اہلکاروں نے قبرص میں اسے پکڑ لیا۔ 1948 میں وہ اسرائیل میں جا کر آباد ہو گیا۔
بینجمن اور اس کا چھوٹا بھائی زگمش لوڈز کے صنعتی شہر کے ایک یہودی والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ جنگ سے پہلے لوڈز پولینڈ کا دوسرا بڑا شہر تھا اور اس کے ایک تہائی باشندے یہودی تھے۔ بینجمن کے والد موشی موم کی فیکٹری کے مالک تھے اور اس کی والدہ برونا نرس تھیں۔
1933-39: سن 1939 میں جیسے ہی میں نے تیسری جماعت شروع کی، جرمنوں نے لوڈز پر قبضہ کرلیا۔ یہودیوں کو بسوں پر سوار ہونے سے منع کر دیا گیا اور ان کو پیلے رنگ کے ستارے پہننے کا حکم دیا گیا۔ کبھی کبھار جرمن یہودیوں کو سڑکوں سے پکڑ کر انہیں جبری مشقت پر لگا دیتے تھے جس کے باعث میرے والد گھر سے نہیں نکلا کرتے تھے۔ اسلئے میں اپنے خاندان کا "پیغام بر" بن گیا اور اپنے منتظم خانہ کے بیٹے کے ساتھ گھر کے کام کیا کرتا تھا۔ جنگ سے پہلے میں اور وہ مختلف دنیاؤں میں رہا کرتے تھے--اور اب ہر روز ایک ساتھ تھے۔
1940-44: جب اپریل 1940 میں لوڈز کی یہودی بستی بنائی گئی تو میں نے اپنے پرانے گھر سے ان سب چیزوں کو یہودی بستی میں اپنی نئی رہائش گاہ میں خفیہ طریقے سے لانے کا فیصلہ کر لیا تھا جو میں لا سکتا تھا۔ پھر 1944 میں، جب میری عمر 14 برس تھی، میرے خاندان کو یہودی بستی سے نکال کر اکھٹا کر کے مویشیوں کی ایک گاڑی میں ڈالا گیا۔ میں گاڑی میں سب سے پہلے سوار ہوا تھا اور میں نے دیوار پر خون سے لکھا ہوا ایک پیغام دیکھا: " ہم آش وٹز پہنچ گئے ہیں اور یہاں وہ ہمیں مار ڈالیں گے!" جب گاڑی بھر گئی تو یہ پیغام چھپ گیا مگر اب مجھے ہماری منزل معلوم ہو گئی تھی۔
بینجمن کو پہلے آش وٹز اور بعد میں ہیناوور، جرمنی میں ایک جبری مشقت کے کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد 16 برس کی عمر میں وہ یتیموں کے ایک گروپ کے ساتھ فلسطین ہجرت کر گیا۔
مانی، ریگا، لاٹویا کے ساحلی شہر میں رہنے والے ایک مذبہی یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ مانی کی پیدائش کے بعد اُس کے والد نے بوڈاپیسٹ میں چیف کینٹر کی حیثیت سے ملازمت قبول کر لی اور ان کا خاندان ہنگری واپس لوٹ آیا جہاں وہ 1933 سے پہلے رہا کرتے تھے۔ مانی کے والد رومبیک کی گلی کے نامور معبد میں رہا کرتے تھے۔ جنگوں کے درمیان بوڈاپیسٹ یورپ کا ایک اہم یہودی مرکز تھا۔
1933-39: میرے والد نے مجھے سائیکل خریدنے سے منع کیا ہوا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہودی ہونے کی وجہ سے مجھ سے کوئی میری سائیکل لے لے گا۔ 1938 میں جب یہودی مخالف قوانین متعارف کروائے گئے، ہنگری کے رہنے والے یہودیوں کو شدت سے ہراساں کیا گیا۔ میرے والد نے یہ جاننے کیلٰے اسکول جاتے ہوئے میرا پیچھا کیا کہ کیا میں بلا خوف و خطر وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ میرا اسکول میرے گھر سے چند بلاک دور تھا۔ مگر ان کو ڈر تھا کہ کوئی پیچھے سے آ کر مجھے ٹریفک میں دھکا دے دے گا۔ میرے والد نے کہا تھا کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوئے تھے۔
1940-44: میں صرف اتنا بڑا تھا کہ محلے میں گھوم پھر سکوں۔ جب مارچ 1944 میں جرمن بوڈاپیسٹ میں داخل ہوئے، میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ہمیں جلاوطن کیا جا رہا ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ مگر مجھے اتنا معلوم تھا کہ ہم جا رہے ہیں۔ مجھے تو وہ ایک غیر معمولی تجربہ لگا۔ مگر میری والدہ نے بتایا کہ یہ بہت خطرناک ہے۔ ہم ایک یہودی گروہ کے ساتھ تھے جس کے بدلے میں جرمن ٹرک لے رہے تھے۔ ہم ریل گاڑيوں میں سوار ہو گئے اور رات کو باہر خیموں میں سو گئے۔ ہم برجن- بیلسن کیمپ پہنچ گئے۔ وہاں بہر کیچڑ تھا اور میرے جوتے پھٹ گئے تھے۔ اس کا مطلب تھا میں یہاں وہاں نہیں بھاگ سکتا تھا، بھاگنا تو ہمارا واحد "کھیل" تھا۔
جنگ کے بعد مانی اپنی والدہ کے ساتھ 1945 میں فلسطین ہجرت کرنے سے چند ماہ پہلے سوٹزرلینڈ چلا گیا۔ 1949 میں وہ نقل مکانی کر کے امریکہ چلا گیا۔
نوربرٹ نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہ برلن میں ایک سماجی کارکن تھا۔ اس نے کنڈرٹرانسپورٹ (بچوں کی ٹرانسپورٹ) کے پروگرام پر کام کیا جو یہودی بچوں کو حفاظت کیلئے یورپ سے برطانیہ بھجوانے کا کام کرتا تھا۔ اس کے والدین کو جو برلن میں رہتے تھے، دسمبر 1942 میں جلاوطن کر دیا گیا۔ نوربرٹ، اس کی بیوی اور بچے کو مارچ 1943 میں آش وٹز میں جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کو اس کی بیوی اور بچے سے جدا کر کے جبری مشقت کیلئے آش وٹز III (مونووٹز) کے قریب بونا بھیج دیا گیا۔ نوربرٹ آش وٹز کیمپ سے زندہ بچ گیا اور اُس نے جرمنی مں مئی سن 1945 میں امریکی افواج کے ہاتھوں آزادی حاصل کی۔
جرمنوں نے کراکو پر 1939 میں قبضہ کیا۔ مرے کے خاندان کو شہر کی باقی یہودی آبادی کے ساتھ کراکو یہودی بستی میں قید کردیا گيا۔ 1942 میں مرے اور اُن کے بھائی کو جبری مشقت کیلئے قریبی پلاس زو کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ مئی 1944 میں اُن کے بھائی کو آش وٹز کیمپ میں منتقل کردیا گيا اور مرے کو جرمنی کے گراس روزن کیمپ میں بھیج دیا گيا۔ مرے کو بعد میں سوڈیٹن لینڈ کے بروئن لٹز کیمپ بھیجا گیا جہاں اُنہوں نے جرمن صنعت کار آسکر شنڈلر کے لئے جبری مشقت کی۔ شنڈلر نے ان یہودیوں کی جنگ میں بچنے کیلئے مدد کی جنھوں نے اس کے لئے کام کیا۔ مرے کو 1945 میں آزاد کرایا گيا۔
ٹوماسز ازبیکا کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ستمبر 1939 میں جنگ شروع ہونے کے بعد جرمنوں نے ازبیکا میں ایک یہودی بستی قائم کی۔ ٹوماسز کے گیریج میں کام کرنے کی وجہ سے وہ بستی میں ہونے والی پکڑ دھکڑ سے محفوظ رہے۔ 1942 میں اُنہوں نے جعلی کاغذات استعمال کرتے ہوئے ہنگری فرار ہونے کی کوشش کی۔ وہ پکڑے گئے مگر کسی نہ کسی طرح ازبیکا واپس آنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپریل 1943 میں اُنہیں اور اُن کے خاندان کو سوبی بور کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ ٹوماسز سوبی بورکی بغاوت کے دوران بچ کر بھاگ نکلے۔ وہ زیرِ زمین چلے گئے اور پولینڈ کی خفیہ تنظیم کیلئے کام کرتے رہے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.