نازیوں کے اقتدار سنبھالنے سے پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں قائم ہونے والی پارلیمانی جمہوریت وائمر رپبلک ختم ہو گئی۔ 30 جنوری، 1933 کو ایڈولف ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد نازی ریاست (جسے تیسری سلطنت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) بہت تیزی سے ایک ایسی حکومت بن گئی جہاں جرمن لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل نہيں تھی۔ ثقافت، معیشت، تعلیم اور قانون سب کے سب نازی کنٹرول میں آ گئے۔ حکومت کے مقاصد اور نظریات کو پھیلانے کیلئے زبردست پروپیگنڈا کیا گیا۔

مقامی قانون سازی اور جرمن خارجہ پالیسی میں حتمی رائے ہٹلر کی ہی تھی۔ نازی خارجہ پالیسی نسل پرست عقیدے کے مطابق تشکیل دی گئی تھی کہ جرمنی کی قسمت میں حیاتیاتی طور پر یہ لکھا جا چکا ہے کہ وہ مشرق کی طرف فوجی طاقت سے بڑھیں۔ اس نظریاتی جنگ کے سیاق و سباق میں نازیوں نے "نسلی" دشمن سمجھے جانے والے یہودیوں کے اجتماعی قتل و غارت کی مہم، یعنی ہولوکاسٹ کی منصوبہ بندی کی اور اُس پر عملدرآمد کیا۔ حکومت کے خلاف کھلی تنقید کو دبایا جاتا تھا، لیکن ہٹلر کی حکومت کو جرمنوں کی اکثریت کا ساتھ حاصل تھا۔ اتحادیوں نے نازی جرمنی کو شکست دی اور 8 مئی سن 1945ء کو جرمنی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا.