20 جنوری 1942 کو نازی پارٹی اور جرمن حکومت کے 15 اعلیٰ سطحی اہلکار برلن کے مضافاتی علاقے وانسی میں اکٹھے ہوئے۔ اس اجتماع کا مقصد اس معاملے پر غور کرنا تھا جسے وہ "یہودی مسئلے کا حتمی حل" سے موصوم کرتے تھے۔ "حتمی حل" ایک خفیہ اصطلاح تھی جس سے مراد یورپی یہودیوں کا منظم، عمداً اور حقیقی خاتمہ تھا۔ ایڈولف ہٹلر نے 1941 کے دوران کسی وقت قتل عام کیلئے اس پلان کی منظوری دی تھی۔ ایس ایس جنرل رائن ھارڈ ھیڈریچ نے وانسی کانفرنس بلائی تھی جس کے مقاصد یہ تھے: (1) شرکاء کو "حتمی حل" کے بارے میں آگاہ کرنا اور اس پر عمدرآمد کیلئے اُن کی حمایت حاصل کرنا اور (2) اس بات کا انکشاف کرنا کہ ہٹلر نے خود ھیڈریچ اور ریخ سیکیورٹی صدر دفتر کو اس پلان سے متعلق کارروائیوں کو مربوط کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ اس کانفرنس کے شرکاء نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس منصوبے پر عمل کرنا چاہئیے یا نہیں۔ اس کے برعکس اُنہوں نے اس منصوبے پر عملدرآمد پر غور کیا۔

وانسی کانفرنس کے وقت، بیشتر شرکاء پہلے ہی اس بات سے با خبر تھے کہ نازی حکومت نے سوویت یونین اور سربیا کے جرمن مقبوضہ علاقوں میں آباد یہودیوں اور دیگر شہریوں کا قتل عام شروع کر دیا ہے۔ کسی بھی اہلکار نے ھیڈریچ کی طرف سے اعلان کردہ "حتمی حل" کی پالیسی پر اعتراض نہیں کیا۔ جرمن مسلح افواج یا ریخ ریل روڈز کے نمائیندے اس اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ ایس ایس اور پولیس نے 1941 کے موسم بہار میں سوویت یونین پر حملے سے قبل سوویت یہودیوں سمیت شہریوں کے قتل عام کیلئے جرمن فوج کی ہائی کمان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ ہٹلر نے ریخ ریل روڈز کو یہ اختیار دیا کہ وہ جرمن، آسٹرین اور چیک یہودیوں کو مقبوضہ پولینڈ اور مقبوضہ سوویت یونین کے مخصوص مقامات میں پہنچائیں جہاں جرمن حکام اُن میں سے بیشتر کو ہلاک کر دیں گے۔

ھیڈریچ نے عندیہ دیا کہ یورپ کے لگ بھگ ایک کروڑ دس لاکھ یہودی "حتمی حل" کا حصہ بنیں گے۔ اس تعداد میں صرف جرمن اتحاد کے زیر کنٹرول یورپ کے یہودی ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار ملک (سوٹزرلینڈ، آئرلینڈ، سویڈن، اسپین، پرتگال اور یورپین ترکی) بھی شامل تھے۔ اس بات کے باوجود کہ اجلاس کے ضابطوں میں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے جو نسبتاً نرمی کے عکاس تھے، وانسی کانفرنس کے شرکاء کیلئے مقصد بالکل واضع تھا: یعنی یورپ بھر کے یہودیوں کے مکمل خاتمے کیلئے پالیسی کو مربوط بنانا۔