پس منظر

نازی جرمنی کی شکست، 1942-1945

دوسری جنگِ عظیم سے پہلے بین الاقوامی تنازعے کے بعد بحالی امن کی کوششوں میں مقدمات نے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد مثال کے طور پر تمام فاتح اتحادیوں نے جرمنی کو مجبور کیا کہ وہ اپنے علاقے سے دستبردار ہوجائے اور ایک جارحانہ جنگ کا ارتکاب کرنے کی سزا کے طور پر تاوانِ جنگ کی بڑی رقوم ادا کرے۔ بہرحال دوسری جنگِ عظیم کے دوران چونکہ نازی جرمنی اور اس کے محوری اتحادیوں نے بڑے پیمانے پر سفاکانہ جرائم کئے تو ایسے جرائم کے ذمہ داران پر قانونی عدالت میں مقدمے چلانا اتحادی قوتوں کے جنگی عزائم میں سے ایک ہوگیا۔

اکتوبر 1943 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ اور برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سویت یونین کے پریمئر جوزف اسٹالن نے جرمن سفاکانہ جرائم کے ماسکو اعلامیے پر دستخط کئے۔ اعلامیے کی رو سے التوائے جنگ کے وقت جرمن، جنہیں سفاکانہ جرائم کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے، انھیں ان ملکوں میں واپس بھیج دیا جانا تھا جہاں پر جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ وہاں ان کا فیصلہ اور سزا کا تعین متعلقہ ملک کے قوانین کے مطابق کیا جانا تھا۔ "اہم" جنگی مجرمین، جن کے جنگی جرائم کو کسی خاص جغرافیائی موقع سے مخصوص نہیں کیا جا سکا تھا، ان کو اتحادی حکومتوں کے مشترکہ فیصلے کے مطابق سزا دی جانی تھی۔ 

نیورمبرگ میں بین الاقوامی ملٹری ٹریبیونل

اگست 1945 میں برطانیہ، فرانس، سوویت یونین اور امریکہ نے لندن معاہدے اور چارٹر پر دستخط کئے (جو نیورمبرگ چارٹر بھی کہلاتا ہے)۔ چارٹر کے نتیجے میں نورمبرگ، جرمنی میں بین الاقوامی ملٹری ٹریبیونل (IMT) قائم ہوا تاکہ اہم جرمن جنگی مجرموں پر مقدمہ چلایا جائے۔ IMT کو نقصِ امن کے جرائم، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم تفویض کئے گئے، جن میں مندرجہ ذیل جرائم بھی شامل تھے جیسے "قتل، استحصال، غلام بنانا، ملک بدر کرنا یا سیاسی، نسلی، یا مذہبی بنیادوں پر عدالتی کاروائی کرنا۔"

جنگ کے بعد کئے گئے جنگی جرائم کے ٹرائلز میں IMT کی جانب سے انجام دیا گیا 22 اعلیٰ جرمن حکام کا ٹرائل سب سے زیادہ مشہور ٹرائل ہے۔ اس ٹرائل کا آغاز 20 نومبر 1945 کو ہوا۔ IMT نے یکم اکتوبر 1946 کو اپنا فیصلہ سنایا جس میں مدعا علیہان میں سے 19 کو مجرم ثابت کیا گیا اور 3 کو بری الذمہ قرار دیا گیا۔ جن پر فردِ جرم ثابت ہوئی، ان میں سے 12 کو موت کی سزا سنائی گئی، جن میں رائخ مارشل ہرمان گورنگ، ہانس فرانک، الفریڈ روزنبرگ، اور جولیس سٹرائچر شامل تھے۔ IMT نے 3 ملزموں کو عمر قید کی اور 4 کو 10 سے 20 سال تک کی سزا سنائی۔ 

نورمبرگ IMT کے علاوہ اتحادی قوتوں نے 1946 میں ٹوکیو میں مشرقِ بعید کے لئے بین الاقوامی ملٹری ٹریبیونل قائم کیا جس نے اعلیٰ جاپانی حکام پر مقدمات چلائے۔

نیورمبرگ میں بعد کے مقدمات

آئن سیٹزگروپن کا مقدمہ: امریکی استغاثہ نے نسل کشی کی مذمت کی۔

نورمبرگ IMT کی سرپرستی کے تحت امریکی ملٹری ٹریبیونلز نے مزید 12 ٹرائلز کروائے۔ اکثر یہ سزائيں مجموعی اعتبار سے بطور نیورمبرگ کارروائی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ 

دسمبر 1946 اور اپریل 1949 کے دوران امریکی مدعا علیہان نے 177 اشخاص کا ٹرائل کیا اور 97 افراد پر جرم ثابت ہو گیا۔ جن پر مقدمات چلائے گئے ان میں نمایاں ڈاکٹر؛ آئنسیٹزگرپین کے ارکان؛ جرمن عدلیہ کی انتظامیہ اور جرمن دفتر خارجہ؛ جرمن ہائی کمانڈ کے ارکان؛ اور معروف جرمن صنعت کار شامل تھے۔ 

اتحادی مقبوضہ علاقوں میں دیگر ٹرائلز

جنگ کے فوراً بعد کے سالوں میں جرمنی اور آسٹریا پر قابض چاروں اتحادی طاقتوں- فرانس، برطانیہ، سوویت یونین، اور امریکا - میں سے ہر ایک نے اپنے مقبوضہ علاقوں کے اندر ہونے والی جنگی جارحیتوں کے لئے مختلف مجرموں پر مقدمات چلائے۔ 1945 کی جنگ کے بعد کے جرائم کی اکثریت میں ادنیٰ سطح کے نازی حکام اور عہدیداران شامل تھے۔ جرمن حراستی کیمپ کے نظام کے متعلق جو ابتدائی معلومات ہم تک پہنچی ہيں وہ ان ٹرائلز میں سے کچھ کے دوران ثبوت اور چشم دید گواہان کی گواہیوں سے حاصل ہوئی ہیں۔

اتحادی قابض حکام نے جرمن عدالتی نظام کی تعمیرِ نو کو جرمنی سے نازی اثرات کے خاتمے میں ایک اہم مرحلے کے طور پر دیکھا۔ اتحادی کنٹرول کونسل کے قانون نمبر 10 برائے دسمبر 1945 نے جرمن عدالتوں کے لئے مجاز قرار دیا کہ وہ جنگی سالوں کے دوران جرمن شہریوں کی جانب سے دیگر جرمن قومیتوں یا جرمنی میں کوئی قانونی حیثیت نہ رکھنے والے افراد کے خلاف انسانیت سوز جرائم پر مقدمات چلا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معذوریوں کے شکار افراد کا نازی قتل (جسے نازیوں کی جانب سے "یوتھنازیا" کا نام دیا گیا) جیسے جرائم جہاں مظلوم افراد اور مجرم دونوں واضح طور پر جرمن شہری ہوتے تھے- ان جرائم پر نئے قائم شدہ جرمن ٹریبیونلز میں مقدمات چلائے گئے۔ 

جرمنی میں بعد از جنگ ٹرائلز

نیورمبرگ کے عدالتی محل میں میموگراف روم  یعنی دستاویزات کی نقول تیار کرنے کے کمرے کا ایک منظر، 1948۔

1949 میں جرمنی کو رسمی طور پر دو علیحدہ ممالک میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ فیڈرل رپبلک جرمنی (مغربی جرمنی) کا قیام ان علاقوں میں عمل میں آیا جو برطانیہ، فرانس، اور امریکہ کے زیرِ قبضہ تھے اور یہ ان ممالک کا اتحادی تھا۔ سوویت مقبوضہ علاقوں میں جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (مشرقی جرمنی) ان علاقوں میں قائم ہوئی اور یہ سوویت یونین کی اتحادی تھی۔ آنے والی دہائیوں میں دونوں ممالک نازی دور کے مدعا علیہان کے خلاف مقدمات چلاتے رہے۔ 

1949 سے اب تک فیڈرل رپبلک آف جرمنی (یعنی 1990 میں دیوارِ برلن کے سقوط سے پہلے مغربی جرمنی اور بعد ازاں متحدہ جرمنی) کی جانب سے قومی سوشلسٹ دور کے جرائم کے ملزموں پر مقدمات کی 900 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں۔ ان کاروائیوں کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ زیادہ تر ملزموں کو بری کر دیا گیا یا پھر انہیں ہلکی سزائیں سنائی گئیں۔ مزید یہ کہ ہزاروں نازی حکام اور مجرموں نے کبھی ٹرائل کا سامنا نہیں کیا اور متعدد نازی پارٹی کے تیسرے دور والے عہدوں پر واپس آ گئے۔ مثال کے طور پر جنگ کے بعد کئی عشروں تک مغربی جرمنی کے ججوں کی اکثریت سابقہ نازی حکام پر مشتمل تھی۔

جنگ کے بعد کے دیگر ٹرائلز

بہت سی اقوام جن پر جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران قبضہ کر لیا تھا یا وہ اقوام جنہوں نے یہودیوں سمیت شہری آبادیوں کو ہلاک کرنے میں جرمنی کا ساتھ دیا، انہوں نے بھی جرمن مجرموں اور جنگ کے دوران جرائم کا ارتکاب کرنے والے خود اپنے شہریوں پر مقدمے چلائے۔ چند ممالک جن میں چیکوسلواکیا، فرانس، ہنگری، پولینڈ، رومانیہ، اور سوویت یونین شامل ہیں، انہوں نے ہزاروں ملزموں پر مقدمہ چلایا۔ مثال کے طور پر سوویت یونین نے 1943 میں دوسری جنگِ عظیم ختم ہونے سے بہت پہلے مقامی مددگاروں کے خلاف اپنا پہلا ٹرائل کراسنوڈور ٹرائل منعقد کیا۔

پولینڈ میں پولش سپریم نیشنل ٹریبیونل نے 49 نازی حکام کا ٹرائل کیا جنہوں نے پولینڈ کے نازی قبضے کے دوران جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ ان میں ایک روڈولف ہاس (Rudolf Höss) تھا، جو آشوٹز کا سب سے دیرینہ کمانڈنٹ تھا۔ اسے سزائے موت سنائی گئی اور اپریل 1947 میں آشوٹز کے پھانسی بلاک میں تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ سپریم نیشنل ٹریبیونل نے آشوٹز کے دیگر عملے کا بھی ٹرائل کیا اور سزائے موت سنائی جن میں سابقہ کمانڈنٹ آرتھر لائبھنشل (Arthur Liebehenschel) کے علاوہ امون گوتھ (Amon Göth) بھی شامل تھا جو پلاسزاؤ حراستی کیمپ کو احکامات جاری کرتا تھا۔

1950 تک سرد جنگ کے بارے میں بین الاقوامی خدشات نے دوسری جنگ عظیم کے جرائم کے لئے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دلچسپی کو ماند کر دیا۔ جرمنی سے باہر زیادہ تر ٹرائلز روک دیے گئے اور بہت سے الزام یافتہ مجرم جنہیں سزا نہیں دی گئی تھی انہیں 1950 کی دہائی کے دوران آزاد کر دیا گیا تھا۔ 

دی آئخمین ٹرائل

1961 میں یروشلم میں مقدمے کے دوران ایڈولف آئکمین نوٹس لے رہے ہیں۔

پولینڈ سے باہر جنگ کے بعد کے زیادہ تر ٹرائلز کی توجہ یہودیوں کے خلاف جرائم پر مرکوز نہیں تھی اور جنگ کے فورا بعد کے عرصے میں ہولوکاسٹ کی اتنی زیادہ بین الاقوامی آگاہی یا سمجھ بوجھ نہیں پائی جاتی تھی۔ 1961 میں ایک اسرائیلی عدالت کے سامنے یورپی یہودیوں کی ملک بدری کے چیف ایڈمنسٹریٹر ایڈولف آئخمین کے مقدمے سے یہ منظر نامہ بدل گیا۔ آئخمین ٹرائل نے یورپ سے باہر متعدد ملکوں میں الزام یافتہ نازی مجرموں کی موجودگی کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی کیونکہ آئخمین جنگ کے بعد ارجنٹائن میں سکونت اختیار کر چکا تھا۔ 

1979 میں امریکی محکمہ انصاف نے خصوصی تفتیشی کارروائیوں کا دفتر قائم کیا تاکہ نازی جرائم کے ان مجرمین کا سراغ لگایا جائے جو امریکہ میں رہائش پذیر تھے۔ ایک دہائی بعد آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا نے بھی اپنی سرحدوں کے اندر بسنے والے نازی مجرموں پر مقدمات چلانا شروع کئے۔ جرمنوں اور محوری جنگی مجرموں کی کھوج اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے۔

قانونی اثرات

نازی جرائم کی بعد از جنگ مقدماتی کاروائیوں نے اہم قانونی مثالیں وضع کی ہیں۔ 

1946 میں اقوام متحدہ نے بین الاقوامی قانون کے تحت تشدد کے جرم، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم کو اتفاقِ رائے سے جارحانہ اقدامات قرار دیا ہے۔ بعد ازاں اقوام متحدہ نے بین الاقوامی کرمنل قانون میں اضافوں کو منظور کیا جو شہریوں کو سفاکیت سے محفوظ رکھنے کے لئے بنائے گئے تھے۔ مثال کے طور پر 1948 میں، اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن اپنایا۔ 

سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد سے خصوصی ٹریبیونلز کی ایک تعداد نے مخصوص ممالک میں مرتکب بین الاقوامی جرائم پر مقدمات چلائے جن میں 1994 میں روانڈا میں نسل کشی کا اقدام بھی شامل ہے۔ 2002 میں ایک نئی مستقل بین الاقوامی کرمنل عدالت نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ کچھ ممالک میں مقامی عدالتیں بھی بین الاقوامی جرائم کے مجرموں پر مقدمات چلاتی ہیں۔ اگرچہ ایسے فیصلے کم ہی رہتے ہیں لیکن آج مشہورِ عام ایک معاہدہ موجود ہے جو بیان کرتا ہے کہ سفاکیت سے شہریوں کی حفاظت کرنا اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینا ریاستوں کا فرض ہے۔