وولف گانگ برلن میں رہنے والے یہودی والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ اس کے والد سلائی کا سامان فراہم کرنے والی کمپنی کے غیر ملکی نمائیندے کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کا خاندان شہر کے جنوب مغربی علاقے میں ایک آرام دہ اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ وولف گانگ وہاں ثانوی اسکول میں جاتا تھا اور الیکٹرک انجینئر بننے کا خواہش مند تھا۔
1933-39: جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو میرے والد جرمنی سے فرار ہو گئے کیونکہ وہ سوشلسٹ تھے اور ان کو گرفتار ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ میری والدہ بہت بیمار تھیں۔ لہذا میری دادی نے اُس وقت تک میری دیکھ بھال کی جب تک اُن کیلئے ایسا کرنا مشکل نہ ہو گیا۔ پھر انہوں نے مجھے یتیم خانے بھیج دیا۔ اس وقت تک یہودیوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اسلئے میں ایک یہودی مڈل اسکول میں منتقل ہو گیا۔ 1937 میں میں اپنے والد کے پاس پیرس چلا گیا اور مکینک بننے کیلئے ایک تربیتی ادارے میں داخل ہو گیا۔
1940-44: 1943 تک میں اپنے والد اور سوتیلی ماں کے ساتھ نائیس میں رہتا تھا جہاں وہ ایک لائبریری کی مالک تھیں۔ بہت سے یہودیوں کیلئے نائیس ایک جنت کی مانند تھا کیونکہ وہاں اطالوی قبضے کے تحت یہودیوں کو اذیت نہیں پہنچائی جاتی تھی۔ مگر جب اٹلی نے ستمبر میں اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئے تو جرمنوں نے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مارچ 1944 میں نازیوں نے مجھے اور میرے والدین کو 1500 دوسرے یہودیوں کے ساتھ بند بکسوں کی گاڑیوں میں پیرس کے قریب آش وٹز نامی کیمپ میں منتقل کر دیا۔ وہاں پہنچتے ہی مجھے اپنے والدین سے جدا کر دیا گیا۔ مجھے ایک کمرے میں بند کردیا گیا جہاں میرا سر منڈوا دیا گیا
وولف گانگ کے والدین آش وٹز پہنچتے ہی گیس کے ذریے ہلاک کر دئے گئے۔ وولف گانگ کو ایک بجلی کے پرزے بنانے والی فیکٹری میں کام پر لگایا گيا۔ وہ جنگ سے زندہ بچنے کامیاب ہو گیا۔ 1947 میں اُس نے امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔
آئٹم دیکھیںدو بچیوں میں سے بڑی مارگٹ بلجیم کی سرحد کے قریب واقع ایک گاؤں میں رہنے والے یہودی خاندان میں پیدا ہوئی۔ ہیومین خاندان اپنے جنرل اسٹور کے اوپر رہتا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف مارگٹ کے دادا رہتے تھے، جو ایک بڑے طویلے میں گھوڑے اور گائيں رکھتے تھے۔ جب مارگٹ 4 سال کی تھی تو اس کا خاندان لپ شٹٹ منتقل ہو گیا۔ کم عمری میں اس نے دریائے لیپ میں تیرنا سیکھا جو ان کے باغ کے پیجھے بہتا تھا۔
1933-39: جب میں 9 سال کی تھی ہم بیلیفیلڈ نامی ایک قریبی شہر میں منتقل ہوئے جہاں میں نے سرکاری اسکول میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد مجھے اور میری چھوٹی بہن لور کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ اچانک ہمیں کلاس سے زبردستی نکال دیا گیا اور ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا یہ کیوں ہو رہا ہے۔ ہم بس باہر کھڑے ہو کر روتے رہے۔ پھر ہم پیدل گھر چلے گئے۔ اس کے بعد ہمارے والدین نے ہمیں ایک یہودی اسکول بھیج دیا جہاں ہمارے ٹیچرز بھی ہماری طرح نازیوں کے ہاتھوں اپنے اسکولوں سے زبردستی سے نکال دئے گئے تھے۔
1940-44: میری عمر 14 برس تھی جب میرے خاندان اور مجھے جلاوطن کر دیا گیا اور 16 سال کی عمر میں ہمیں آش وٹز بھیج دیا گيا۔ ایک دن مجھے ایک فوجی کاروان میں شامل ہونے کا حکم دیا گیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ ميں واپس نہیں آؤں گی۔ میری والدہ کو یہ اختیار دیا گيا تھا کہ وہ میرے ساتھ آ جائيں یا میری چھوٹی بہن کے ساتھ رک جائيں۔ انہوں نے سوچا کہ میری بہن کی کم عمری کے باعث ان کی ضرورت مجھ سے زیادہ اُس کو ہے۔ لہذا وہ اس کے ساتھ ٹھہر گئيں۔ مجھے آخری بار اپنی ماں کے گلے لگنا یاد ہے۔ وہ کافی وزنی عورت ہوا کرتی تھیں مگر اس وقت تک صرف ایک ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھیں۔ لاعلمی میں ان کی ضد پر میں نے ان کا سوپ کھا لیا جو اس دن کیلئے ان کی واحد خوراک تھا۔
مارگٹ نے اپنی ماں، باپ اور بہن کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ اپریل 1945 میں برجن-بیلسن میں اسے آزاد کر دیا گیا۔ اُس کی صحت بحال کرنے کیلئے ریڈ کراس اسے سویڈن لے آئے اور 1947 میں وہ امریکہ منتقل ہو گئی۔
آئٹم دیکھیںایلونا کی پیدائش شمال مشرقی ہنگری کے پہاڑی علاقے میں واقع ارڈوبینیے نامی ایک گاؤں میں رہنے والے مذہبی یہودی والدین کے ہاں ہوئی تھی جن کے چار بچے تھے۔ گاؤں کے مضافات میں واقع کارفنکل ہاؤس میں پچھلی طرف ایک وسیع باغیچہ اور پھلوں کے باغات تھے۔ ایلونا کے والدین کا ایک چھوٹا سا انگور کا باغ اور ایک چھوٹی سے پنساری کی دوکان تھی۔ ایلونا کی شادی فرینک کالمان سے ہوئی اور یہ جوڑا بوڈاپیسٹ سے 36 میل شمال مشرق کی جانب واقع مقام ہٹوان منتقل ہوگیا۔
1933-39: فرینک اور میں نے خود کو ہمیشہ ہنگری کا ہی باشندہ سمجھا جو بس اتفاق سے ہی یہودی تھا اور ہٹوان میں ہماری ہمیشہ ہی بہت عزت کی جاتی تھی۔ تاہم گزشتہ چند مہینوں میں دائیں بازو کے یہودی مخالف طبقوں نے زور پکڑا اور یہاں کا ماحول رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگا۔ میری بیٹی جیوڈتھ کےاسکول کے کچھ ساتھیوں نے اس پر فقرے کسنا شروع کردئے اور اسے یہ معلوم ہونے لگا کہ بہت سے لوگوں کے لئے ہم پہلے یہودی ہیں پھر ہنگری کے باشندے۔
1940-44: چند ہفتے پہلے جرمن افواج کے ہنگری میں داخلے کے بعد فرینک کو جبری طور پر فوج کی خدمت میں لگا دیا گیا۔ اب جیوڈتھ اور مجھے ہٹوان کی چینی کی فیکٹری میں منتقل ہونے کا حکم دیا گیا جہاں اس علاقے کے تمام یہودیوں کو جمع کیا جا رہا ہے۔ ہنگری کے جینڈرمے(پولیس فورس) ہمیں اس یہودی بستی میں صرف 110 پاؤنڈ سامان لے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ جیوڈتھ ضدی ہے: اس نے ہماری کوئی بھی عمدہ چیز دوسروں کے استعمال کیلئے چھوڑنے سے انکار کر دیا اور میری آنسو بھری درخواستوں کے باوجود اس نے ہمارے چیکوسلوواکیہ سے منگائے گئے خوبصورت، ان چھوئے شیشے کے برتنوں کو توڑنا شروع کر دیا۔
جون 1944 میں ایلونا اور اس کی بیٹی کو جلاوطن کرکے اوسکوویٹز بھیج دیا گیا۔ جیوڈتھ کو جبری مزدور کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی ایلونا کو گیس کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا گیا۔
آئٹم دیکھیں1939 میں سلاوک فسطائیوں نے ٹوپول کینی قصبے پر قبضہ کرلیا جہاں میسو رہتے تھے۔ میسو کو سلاوک کے تحت چلنے والے نوواکی کیمپ میں جلاوطن کردیا گیا۔ بعد میں اُنہیں آش وٹز کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ آش وٹز میں اُن پر 65,316 نمبر کنداں کر دیا گیا۔ اِس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی تھی کہ 65,315 قیدیوں کے نمبر اُن سے پہلے آ چکے تھے۔ اُنہیں بونا ورکس میں جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا اور پھر برکیناؤ "کاناڈا" ڈی ٹیچمنٹ پر کام پر لگا دیا گیا جہاں وہ آنے والی ریل گاڑیوں سے سامان نکالنے کا کام کرتے تھے۔ 1944 کے آخر میں قیدیوں کو جرمنی کے کیمپوں میں منتقل کردیا گیا۔ میسو لینڈزبرگ سے موت کے ایک مارچ کے دوران بچ کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر امریکی فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںفراینکفرٹ میں روتھ کے خاندان کو بڑھتے ہوئے سام دشمن اقدامات کا سامنا کرنا پڑا؛ اس کے والد کا کاروبار چھین لیا گیا اور روتھ کا یہودی اسکول بند کر دیا گیا۔ اپریل سن 1943 میں روتھ اور اس کے خاندان کو آش وٹز کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ روتھ کو جبری مشقت کے لئے منتخب کیا گیا اور اسے سڑک کی مرمت کے کام پر لگا دیا گیا۔ اس نے "کناڈا" یونٹ میں کیمپ میں لائے جانے والے سامان کو چھانٹنے کا کام بھی کیا۔ نومبر سن 1944 میں روتھ کو جرمنی کے ریونزبروئک کیمپ میں منتقل کر دیا گيا۔ مئی 1945 میں مالچو کیمپ سے ایک موت مارچ کے دوران اسے آزاد کرایا گیا۔
آئٹم دیکھیںفرٹزی کے والد ترک وطن کر کے امریکہ آئے لیکن جب وہ اپنے خاندان کو امریکہ لانے والے تھے تو جنگ شروع ہو گئی اور فرٹزی کی والدہ بحر اوقیانوس سے گزرنے والے جہازوں پر حملوں سے خوفزدہ تھیں۔ فرٹزی، اُن کی والدہ اور دو بھائیوں کو بالآخر آش وٹز کیمپ بھیج دیا گیا۔ اُن کی والدہ اور بھائی وہاں موت کا شکار ہو گئے۔ فرٹزی نے بہانہ کرتے ہوئے خود کو بڑی عمر کا ظاہر کیا اور مضبوط ورکر کے طور پر کام کیا۔ آش وٹز سے موت کے مارچ پر جاتے ہوئے فرٹزی ایک جنگل میں بھاگ نکلیں جہاں سے بعد میں اُنہیں آزاد کرا لیا گیا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.