جبری مشقت کے کیمپوں کا کامپلیکس آشوٹز نازی حکومت کا قائم کردہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا کیمپ تھا۔ اِس میں تین مرکزی کیمپ تھے۔ اِن سب کیمپوں میں قیدیوں سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ اِن میں سے ایک کیمپ طویل عرصے تک قتل گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا۔ یہ کیمپ کراکو کے مغرب میں تقریباً 37 میل کی مسافت پر تھے۔ یہ مقام جنگ سے پہلے کی جرمن پولینڈ سرحد کے قریب بالائی سائلیسیا میں واقع ہے۔ نازی جرمنی نے 1939 میں پولینڈ پر حملہ کرنے اور فتح کرنے کے بعد اِس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایس ایس حکام نے پولینڈ کے شہر اوسوائی سیم کے قریب تین مرکزی کیمپ قائم کئے۔ اوسوائی سیز۔ ایک مئی 1940 میں، اوسوائی سیز۔ د و جسے آشوٹز برکینو بھی کہا جاتا تھا 1942 کے اوائل میں اور تیسرا آشوٹز۔ تین جو آشوٹز مونووٹز بھی کہلاتا تھا اکتوبر 1942 میں قائم کیا گیا۔

جبری مشقت کے کمپوں کا کامپلیکس قیدی کیمپوں کے نگران ادارے یعنی انسپیکٹوریٹ آف کانسین ٹریشن کیمپس کے ماتحت تھا۔ مارچ 1942 تک یہ نگران ادارہ ایس ایس کے مرکزی دفتر کا ہی ایک محکمہ اور 1941 سے ایس ایس آپریشنز کا مرکزی دفتر تھا۔ مارچ 1942 سے آشوٹز کی آزادی تک یہ انسپیکٹوریٹ ایس ایس کے مرکزی اقتصادی اور انتظامی دفتر کے ماتحت رہا۔

نومبر 1943 میں ایس ایس نے حکنامہ جاری کیا کہ آشوٹز برکینو اور آشوٹز مونووٹز خود مختار قیدی کیمپ بن جائیں گے۔ آشوٹز۔ ایک کے کمانڈر بدستور ایس ایس کے اُن تمام یونٹوں کے چھاؤنی کمانڈر رہے جو آشوٹز کیلئے مخصوص کئے گئے تھے اور وہ تین کمانڈروں میں سے سب سے سینئر خیال کئے جاتے تھے۔ قیدیوں کے ریکارڈ رکھنے اور قیدیوں کی مزدوروں کی حیثیت سے تعیناتی کا انتظام کرنے والے ایس ایس دفاتر بدستور آشوٹز۔ ایک میں قائم رہے اور وہیں سے اپنا نظام چلاتے رہے۔ نومبر 1944 میں آشوٹز۔ دو کوآشوٹز۔ ایک سے دوبارہ ملا دیا گیا اور آشوٹز۔ تین کو مونووٹز قیدی کیمپ کا نام دے دیا گیا۔

آشوٹز جبری مشقت کے کیمپ کامپلیکس کے کمانڈر یہ تھے: مئی 1940 سے نومبر 1943 تک ایس ایس لیفٹننٹ کرنل روڈولف ہوئیس، نومبر 1943 وسط مئی 1944 تک ایس ایس لیفٹننٹ کرنل آرتھرلیبے ھینشل، وسط مئی 1944 سے 27 جنوری 1945 تک ایس ایس میجر جنرل رچرڈ بائیر۔ جب آشوٹز نومبر 1943 سے نومبر 1944 تک خود مختار رہا تو اِس د وران اِس کے کمانڈروں میں نومبر 1943 سے وسط مئی 1944 تک لیفٹننٹ کرنل فرائڈرک ھارٹ جین سٹائین اور وسط مئی سے نومبر 1944 تک ایس ایس کیپٹن جوزف کریمر شامل تھے جبکہ مونووٹز جبری مشقت کے کیمپ کا کمانڈر نومبر 1943 سے جنوری 1945 تک ایس ایس کیپٹن ھائین رِخ شوارز رہا۔

آش وٹز (آش وٹز 1) کے مین کیمپ میں کچن بیرکوں، برقی باڑ اور بڑے گیٹ کا منظر۔

آشوٹز۔ ایک:آشوٹز۔ ایک یا مرکزی کیمپ اوسوائی سِم کے قریب قائم ہو نے والا پہلا کیمپ تھا۔ اِس کی تعمیر کا کام شہر کے مضافات میں واقع پولینڈ کی فوج کے توپخانے کی متروک بیرکوں میں مئی 1940 میں شروع ہوئی۔ ایس ایس حکام کیمپ میں مذید توسیع کیلئے مسلسل قیدیوں کو جبری مشقت پر مامور کرتے رہے۔ کیمپ کی تشکیل کے پہلے برس کے دوران ایس ایس اور پولیس نے تقریباً 40 مربع کلومیٹر یا تقریباً 22 مربع میل کے علاقے کو ترقیاتی علاقہ قرار دیا جو مکمل طور پر کیمپ کے استعمال کیلئے مخصوص تھا۔ آشوٹز کے اولین قیدیوں میں وہ جرمن قیدی شامل تھے جنہیں زک سین ھوزن جرمنی میں واقع جبری مشقت کے کیمپ سے یہاں لایا گیا تھا جہاں اُنہیں بار بار جرائم کرنے والوں کی حیثیت سے بند کیا گیا تھا۔ پھر یہاں پر کراکو میں ٹارنو اور لوڈز ویا ڈاچو قیدی کیمپ سے پولینڈ کے سیاسی قیدیوں کو بھی لایا گیا۔ کراکو جنرل گورنمنٹ کا ڈسٹرکٹ تھا۔ جرمن مقبوضہ پولینڈ کے اِس حصے کا نازی جرمنی کے ساتھ الحاق نہیں کیا گیا تھا اور انتظامی طور پر جرمن مشرقی پرشیا سے مربوط تھا یا اسے جرمن قبضے والے سوویت یونین میں شامل کیا گیا تھا۔

بیشتر جرمن جبری مشقت کے کیمپوں کی طرح آشوٹز۔ ایک تین مقاصد کیلئے تعمیر کیا گیا تھا: 1) نازی حکومت اور پولینڈ میں جرمن قابض حکام کے حقیقی یا تصوراتی دشمنوں کو غیر معینہ مدت تک قید میں رکھنا۔ 2) ایس ایس کی ملکیت میں تعمیر سے متعلق کاروبار میں جبری مزدوروں کی فراہمی کو یقینی بنانے اور بعد میں اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان کی پیداوار کیلئے مزدوروں کی مسلسل دستیابی کا انتظام کرنا۔ 3) آبادی کے حدف بنائے گئے ایسے چھوٹے گروپوں کے خاتمے کیلئے ایک مقام کا اہتمام کرنا جن کا خاتمہ ایس ایس اور پولیس حکام کی طرف سے نازی جرمنی کی سلامتی کیلئے لازمی تصور کیا گیا ہو۔ دوسرے بہت سے جبری مشقت کے کیمپوں کی طرح آشوٹز۔ ایک میں بھی گیس چیمبر اور مُردوں کو جلانے والا مدفن موجود تھا۔ ابتدا میں ایس ایس انجینئروں نے جیل کے بلاک نمبر گیارہ کے تہ خانے میں ایک عارضی گیس چیمبر بنایا۔ بعد میں ایک بڑا اور مستقل گیس چیمبر جیل کے احاطے کے باہر ایک الگ عمارت میں اصل مدفن کے ایک حصے کے طور پر بنایا تھا۔

آشوٹز۔ ایک میں ایس ایس ڈاکٹروں نے بیرک نمبر دس میں قائم ہسپتال میں طبی تجربات کئے۔ اُنہوں نے نوزائیدہ بچوں، جڑواں بچوں اور بونوں پر جعلی سائینسی تحقیق آزمائی۔ جبری طور پر مردوں پر اُن کو بانجھ کرنے کے آپریشن کئے اور اُنہیں اُن کی جنسی قوت سے محروم کر دیا۔ پھر اُنہوں نے بالغ قیدیوں پر کم سے کم درجہ حرارت کے تجربات بھی کئے۔ اِن ڈاکٹروں میں سے سب سے زیادہ جانے پہچانے ڈاکٹر جوزف منیگیلے تھے۔

مدفن اور طبی تجربات والی بیرک کے درمیان سیاہ دیوار ایستادہ تھی جہاں ایس ایس گارڈوں نے سینکڑوں قیدیوں کو پھانسی دی تھی۔

آشوٹز دوم (برکیناؤ) کیمپ، موسم گرما 1944

آشوٹز۔ دو:آشوٹز۔ دو یا آشوٹز۔ برکینو کی تعمیر اکتوبر 1941 میں برزے زنکی کی حدود میں شروع ہوئی۔ اوسوائی سِم کے قریب قائم کئے جانے والے تین کیمپوں میں سے آشوٹز۔ برکینو کیمپ میں قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اِس کیمپ کو بارہ سے زائد حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ یہ بارہ حصے خاردار تاروں سے الگ کئے گئے تھے جن میں سے بجلی گذاری گئی تھی اور آشوٹز۔ ایک کی طرح ایس ایس گارڈ اِس میں گشت کرتے رہتے تھے اور پھر 1942 کے بعد گشت میں تربیت یافتہ کتے اور اُن کے عملے کو بھی شامل کر لیا گیا۔ کیمپ میں عورتوں، مردوں، جرمنی اور آسٹریہ کے علاوہ بوہیمیا اور موریویا کی ماتحت ریاستوں سے جلاوطن کئے گئے خانہ بدوشوں اور تھیری سیئن شٹٹ کی یہودی بستی سے لائے گئے یہودی خاندانوں کیئے کیمپ بھی موجود تھے۔

آشوٹز۔ برکینو کیمپ میں ایک قتل گاہ کیلئے بھی جگہ مخصوص تھی۔ اِس جگہ نے یورپ کے یہودیوں کو ہلاک کرنے کے جرمن منصوبے میں ایک مرکزی کردار ادا کیا۔ 1941 کے موسمِ گرما اور خزاں میں جرمن قیدی کیمپوں کے نظام میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے نظام میں زائکلون بی گیس متعارف کرائی گئی۔ ایس ایس نے زائکلون بی گیس کا تجربہ سب سے پہلے آزوٹز۔ ایک میں وسیع پیمانے پر قتل کی غرض سے کیا تھا۔ اِن تجربات کی کامیابی کے نتیجے میں آشوٹز کامپلیکس میں تمام گیس چیمبروں میں زائکلون بی گیس کے استعمال کی منظوری دے دی گئی۔ برکینو کے قریب ایس ایس نے ابتدا میں دو فارم ھاؤسز کو گیس چیمبرز میں تبدیل کردیا۔ عارضی گیس چیمبر نمبر ایک نے جنوری 1942 میں کام شروع کیا اور 1944 کے موسمِ خزاں تک یہاں کام جاری رہا۔ ایس ایس حکام کو معلوم ہوا کہ اُنہوں نے آشوٹز۔ برکینو میں جس بڑے پیمانے پر گیس استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی یہ چیمبر اُس کیلئے کافی نہیں تھے۔ مارچ اور جون 1943 کے درمیانی عرصے میں مدفن کی چار بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ ہر عمارت کے تین حصے تھے۔ ایک کپڑے اُتارنے کی جگہ تھی۔ پھر بڑا گیس چیمبر تھا اور اُس کے بعد لاشیں جلانے کی بھٹیاں بنائی گئی تھیں۔ ایس ایس نے آشوٹز۔ برکینو میں نومبر 1944 تک گیس سے قتلِ عام کا سلسلہ جاری رکھا۔

آشوٹز کیمپ میں جلاوطن کئے گئے لوگوں کے سوٹ کیس۔

جلاوطن کر کے آشوٹز پہنچانے کا اقدامآشوٹز۔ برکینو میں ریل گاڑیاں اکثر یہودیوں کو منتقل کرتی تھیں۔ یہ یہودی یورپ کے تقریباً ہر اُس ملک سے لائے جاتے تھے جن پر جرمنی کا یا تو قبضہ تھا یا وہ جرمنی کے حلیف تھے۔ یہودی قیدیوں کی یہ منتقلی 1942 سے 1944 کے موسمِ گرما تک جاری رہی۔ مختلف ملکوں سے لائے جانے والے یہودیوں کی تعداد کچھ اِس طرح رہی۔ ہنگری سے چار لاکھ چھبیس ھزار، پولینڈ سے تین لاکھ، فرانس سے 69 ھزار، ہالینڈ سے 60 ھزار، یونان سے 55 ھزار، بوہیمیا اور موراویا سے 46 ھزار، سلوواکیہ سے 27 ھزار، بیلجیم سے 25 ھزار، یوگوسلاویہ سے دس ھزار، اٹلی سے سات ھزار، ناروے سے 690 اور دوسرے ملکوں اور قیدی کیمپوں سے 34 ھزار یہودیوں کو اِن کیمپوں میں پہنچایا گیا۔

ہنگری سے لائے جانے والے قیدیوں کے ساتھ آشوٹز۔ برکینو کا کردار یورپ کے یہودیوں کے قتلِ عام کے جرمن منصوبے کو انتہائی مؤثر بنا گیا۔ 1944 میں اپریل کے اواخر اور جولائی کے اوائل میں تقریباً چار لاکھ چالیس ھزار ہنگری کے یہودیوں کو نکالا گیا اور اِن میں سے چار لاکھ 26 ھزار کو آشوٹز لایا گیا۔ ایس ایس نے تقریباً تین لاکھ بیس ھزار قیدیوں کو براہِ راست آشوٹز۔ برکینو کے گیس چیمبر میں پہنچایا اور تقریباً ایک لاکھ دس ھزار کو آشوٹز قیدی کیمپ کامپلیکس میں جبری مشقت پر مامور کر دیا۔ ایس ایس حکام نے ہنگری کے اِن یہودی جبری مزدوروں کو آشوٹز کیمپ میں آمد کے چند ہفتوں کے اندر اندر جرمن اور آسٹریا کے قیدی کیمپوں میں بھیج دیا۔

مجموعی طور پر گیارہ لاکھ یہودیوں کو آشوٹز لایا گیا۔ ایس ایس اور پولیس حکام نے تقریباً دو لاکھ دوسرے افراد کو آشوٹز پہنچایا۔ اِن میں ایک لاکھ چالیس ھزار سے ایک لاکھ پچاس ھزار غیر یہودی پولینڈ کے باشندے، 23 ھزار خانہ بدوش، 15 ھزار سوویت جنگی قیدی اور 25 ھزار دوسرے افراد شامل تھے۔ اِن دوسرے افراد میں سوویت شہری، لیتھوانیا کے لوگ، چیک، فرانسیسی، یوگوسلاویہ کے باشندے، جرمن، آسٹریا کے رہنے والے اور اطلوی شامل تھے۔

آشوٹز آنے والے نئے افراد کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ ایس ایس عملہ جب اِس بات کا یقین کر لیتا کہ اکثریت جبری مشقت کی اہل ہی نہ تھی تو اُنہیں فوری طور پر گیس چیمبروں میں بھیج دیا جاتا۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے اِنہیں شاور کے طور پر نصب کیا گیا تھا۔ گیس کا شکار ہونے والوں کی چیزیں ضبط کر لی جاتیں اور اُنہیں چھانٹنے کیلئے کنیڈا ویئر ھاؤس بھیج دیا جاتا جہاں سے اُنہیں واپس جرمنی روانہ کر دیا جاتا۔ کینڈا قیدیوں کیلئے دولت کی علامت تھا۔

آشوٹز میں کم سے کم 9 لاکھ 60 ھزار یہودی ہلاک ہوئے۔ موت کا شکار ہونے والے دوسرے افراد میں پولینڈ کے تقریباً 74 ھزار افراد، 21 ھزار خانہ بدوش اور 15 ھزار سوویت جنگی قیدی جبکہ دوسری قومیتوں کے دس سے پندرہ ھزار افراد شامل تھے ۔ اِن دوسری قومیتوں میں سوویت شہری، چیک، یوگوسلاوین، فرانسیسی، جرمن اور آسٹریہ کے لوگ شامل تھے۔

7 اکتوبر 1944 کو آشوٹز۔ برکینو میں چوتھے مدفن کے حوالے کئے جانے والے کئی سو قیدیوں نے یہ جاننے کے بعد بغاوت کر دی کہ اُنہیں قتل کیا جا رہا ہے۔ بغاوت کے دوران قیدیوں نے تین محافظوں کو ہلاک کر دیا۔ اُنہوں نے مدفن اور اُس سے ملحقہ گیس چیمبر کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ قیدیوں نے وہ دھماکہ خیز مواد استعمال کیا جو اسلحہ بنانے والے قریبی کارخانے میں جبری مشقت کرنے والی عورتوں نے چوری چھپے اُن تک پہنچایا تھا۔ جرمنوں نے بغاوت کو کچل دیا اور اِس بغاوت میں ملوث تقریباً تمام قیدیوں کو ہلاک کر دیا۔ دھماکہ خیز مواد فراہم کرنے والی عورتوں کو اوائل جنوری 1945 میں سرِ عام پھانسی دے دی گئی۔

گیس کے ذریعے قیدیوں کو قتل کرنے کی کارروائی جاری رہی تاہم نومبر 1944 تک ھملر کے احکام پر ایس ایس نے اُن گیس چیمبروں کو ناکارہ کر دیا جو بدستور کام کر رہے تھے۔ جنوری 1945 میں سوویت افواج کی پیش قدمی پر ایس ایس نے باقی ماندہ گیس سے ہلاک کرنے والی تنصیبات کو بھی تباہ کر دیا۔

آشوٹس تھری (مونووٹز) کیمپ کی ہوائی تصویر۔ یہ کیمپ آئی جی فاربین پلانٹ سے ملحقہ تھا۔

آشوٹز۔ تینآشوٹز۔ تین کو بونا یا مونووٹز بھی کہا جاتا تھا۔ اسے اکتوبر 1942 میں اُن قیدیوں کیلئے قائم کیا گیا تھا جو بونا سِن ٹیتھک ربر ورکس پر کام کیلئے مامور تھے۔ یہ کارخانہ پولینڈ کے شہر مونووائس کے مضافات میں واقع تھا۔ 1941 کے موسمِ بہار میں جرمن کاروباری ادارے آئی۔ جی فاربین نے ایک کارخانہ قائم کیا جہاں منتظمین سِنتھیٹِک ربر اور ایندھن تیار کرنے کے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جبری مزدوروں کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ آئی۔ جی فاربین نے آشوٹز۔ تین میں 70 کروڑ سے زائد رائش مارک کی سرمایہ کاری کی جو 1942 میں تقریباً 14لاکھ امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ مئی 1941 سے اکتوبر 1942 تک ایس ایس نے قیدیوں کو آشوٹز۔ ایک سے بونا کیمپ میں منتقل کیا۔ پہلے تو اُنہیں پیدل ہی وہاں لایا گیا اور پھر اُنہیں ریل گاڑی پر سوار کرا کے آگے روانہ کر دیا گیا۔ 1942 کے موسمِ خزاں میں آشوٹز۔ تین کی تعمیر پر بونا میں کام کرنے والے قیدی آشوٹز۔ تین میں ہی رہے۔

آشوٹز۔ تین کو غیر یہودی قیدیوں کیلئے مزدوری سیکھنے کے کیمپ کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ اِن قیدیوں کے بارے میں خیال تھا کہ اُنہوں نے جرمنوں کے لاگو کئے گئے مزدوری کے نظام کی خلاف ورزی کی تھی۔

آشوٹز کے ذیلی کیمپ1942 اور 1944 کے درمیان آشوٹز میں ایس ایس حکام نے 39 ذیلی کیمپ قائم کئے۔ اِن میں سے بعض کو سرکاری طور پر نامزد کئے گئے ترقیاتی علاقے میں بنایا گیا۔ اِن میں بڈی، راج سکو، چیکورٹز، ہارمینسے اور بابٹز شامل تھے۔ بلیش ہیمر، گلائی وٹز، آلٹ ہیمر، فرش ٹین گروب، لورا ہوئیٹ اور آئن ٹراخ تھوئیٹ جیسے دیگر کیمپ دریائے وِسٹولا کے مغرب اور شمال میں بالائی سائلیسیا میں واقع تھے۔ بعض ذیلی کیمپ موراویا میں تھے جن میں فروڈینٹل اور بروئن شامل تھے۔ مجموعی طور پر ایسے ذیلی کیمپ انتظامی طور پر آشوٹز برکینو کے ماتحت تھے جو زراعتی پیداوار کرتے یا پھر اِن کو پراسیس کرتے تھے۔ جبکہ وہ ذیلی کیمپ جن کے قیدی صنعتوں یا اسلحہ سازی پر مامور تھے یا کوئلے کی کانوں اور پتھر توڑنے کی مشینوں پر کام کرتے تھے انتظامی طور پر آشوٹز مونووٹز کی ماتحتی میں تھے۔ نومبر 1943 کے بعد انتظامی ذمہ داری کی اِس تقسیم کو باقاعدہ کر دیا گیا۔

آشوٹز کے قیدی بڑے بڑے فارمز میں کام کرتے تھے جن میں راج سکو پر واقع تجرباتی زراعتی اسٹیشن بھی شامل تھے۔ پھر اُنہیں کوئلے کی کانوں میں کام پر مجبور کیا جاتا۔ وہ پتھر توڑنے والی مشینوں پر، ماہی گیری میں اور خاص طور پر اسلحہ سازی کی صنعت میں کام پر مامور ہوتے جیسے ایس ایس کی ملکیت والے جرمن اکوئپ منٹ ورکس میں (جو 1941 میں قائم ہوا) گاہے گاہے قیدیوں کا انتخاب ہوتا۔ اگر ایس ایس کے خیال میں وہ کام جاری رکھنے کے حوالے سے کمزور یا بیمار ہوتے تو اُنہیں آشوٹز برکینو بھیج کر ہلاک کر دیا جاتا۔ جبری مشقت کیلئے منتخب ہونے والے قیدیوں کا اندراج کیا جاتا اور آشوٹز میں اُن کے بائیں بازو پر شناختی نمبر کھودے جاتے۔ پھر اُنہیں مرکزی کیمپ یا کامپلیکس میں کسی اور جگہ تعینات کیا جاتا جن میں ذیلی کیمپ بھی شامل تھے۔

آشوٹز کی آزادیوسط جنوری 1945 میں جب سوویت فوجیں آشوٹز قیدی کیمپ کامپلیکس کی جانب بڑھیں تو ایس ایس نے آشوٹز اور اس کے ذیلی کیمپوں کا انخلاء شروع کر دیا۔ ایس ایس یونٹوں نے قریب ساٹھ ھزار قیدیوں کو آشوٹز کیمپ کے مغرب کی طرف پیدل چلنے پر مجبور کیا۔ موت کے اِس سفر کا آغاز ہونے سے پہلے کے دنوں میں ھزاروں افراد کیمپوں میں مارے گئے۔ لاکھوں قیدیوں کو جن میں سے بیشتر یہودی تھے مجبور کیا گیا کہ وہ شمال مغرب کی طرف 55 کلومیٹر (تقریباً 30 میل) گلائی وائس تک پیدل چلیں۔ اُن کے ساتھ مشرقی بالائی سیلیسیا میں ذیلی کیمپوں سے آنے والے قیدی بھی شامل ہو گئے۔ اِن کیمپوں میں بِس مارخوئیٹ، آلٹ ھیمر اور ھائینڈن برگ شامل تھے۔ قیدیوں کو گلائی وائس یا پھر مغرب کی طرف 63 کلومیٹر (تقریباً 35 میل) کی مسافت پر بالائی سیلیسیا کے مغربی حصے میں واقع واڈزسلو (لوسلو) تک پیدل چلنے کا حکم دیا گیا۔ اِس طرف جانے والوں کے ساتھ آشوٹز کے جنوب میں واقع جوئش چووٹز، شیچو وٹز اور گولیس چو کے ذیلی کیمپوں سے آنے والے قیدی بھی شامل ہوئے۔ ایس ایس گارڈ ہر ایسے قیدی کو گولی مار دیتے جو پیچھے رہ جاتا یا ساتھ نہ دے سکتا۔ قیدیوں کوایسے مارچ کے دوران سرد موسم، بھوک پیاس اور بیماری کا بھی سامنا تھا۔ کم از کم تین ھزار قیدی صرف گِل وائس کے راستے میں ہی مارے گئے۔ آشوٹز اور ذیلی کیمپوں سے اِن انخلائی مارچوں میں ممکنہ طور پر 15 ھزار قیدی موت کا شکار ہوئے۔

گِل وائس اور واڈزسلو آمد کے بعد قیدیوں کو بغیر ہیٹنگ والی مال بردار گاڑیوں پر بٹھایا گیا اور اُنہیں جرمنی کے جبری مشقت کے کیمپوں خصوصاً فلوزن برگ، سیخ سین ھوسن گراس روزن، بوخن والڈ اور ڈاچو کے علاوہ آسٹریہ کے موتھوسن کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ریل کا یہ سفر کئی دنوں پر محیط رہا۔ کھانے، پانی، شیلٹر اور کمبلوں کے بغیر بیشتر قیدی اِس سفر کو برداشت نہ کر سکے۔

آشوٹز کی آزادی

1945 میں جنوری کے آخر میں ایس ایس اور پولیس عہدیداروں نے چار ھزار قیدیوں کو مجبور کیا کہ وہ آشوٹز مونووٹز کے ایک ذیلی کیمپ بلیخ ھیمرکو خالی کر دیں اور وہاں سے پیدل روانہ ہو جائیں۔ ایس ایس نے گروس روزن کے جبری مشقت کے کیمپ کی طرف مارچ کے دوران تقریباً 800 قیدیوں کو قتل کر دیا۔ ایس ایس کے عہدیداروں نے بیماری یا چھپنے کی کامیاب کوشش کر کے پیچھے بلیخ ھیمر میں رہ جانے والے تقریباً 200 قیدیوں کو بھی ہلاک کر دیا۔ ایک مختصر تاخیر کے بعد ایس ایس نے بلیخ ھیمر کے تقریباً 3000 قیدیوں کو گروز روزن سے جرمنی کے بوخن والڈ جبری مشقت کے قیدی کیمپ میں منتقل کر دیا۔

27 جنوری 1945 کو سوویت فوج آشوٹز، برکینو اور مونووٹز میں داخل ہوئی اور تقریباً سات ھزار قیدیوں کو رہا کرا لیا۔ اِن میں سے بیشتر بیمار تھے اور قریب المرگ تھے۔ اندازہ ہے کہ ایس ایس اور پولیس نے 1940 سے 1945 کے درمیان کم سے کم 13 لاکھ افراد کو آشوٹز کامپلیکس پہنچایا تھا۔ اِن میں سے کیمپ حکام نے 11 لاکھ افراد کو قتل کیا۔