منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
فرائیڈرش۔پول شمالی جرمنی میں واقع ایک پرانے تجارتی شہر لیوبیک میں پیدا ہوا۔ جب اس کی عمر 11 برس تھی تو اس کے والد پہلی جنگ عظیم میں مارے گئے۔ اس کی والدہ کے انتقال کے بعد اس کی بہن اینا اور اس کی پرورش اس کی دو پھوپھیوں نے کی۔ اسکول مکمل کرنے کے بعد فرائیڈریش۔پول نے تاجر بننے کیلئے تربیت حاصل کی۔
1933-39: جنوری1937 میں نازیوں کے فوجداری قانون کے پیراگراف نمبر175 کے تحت، جو ہم جنس پرستی کو ناجائز قرار دیتا تھا، ایس ایس نے 230 آدمیوں کو گرفتار کر لیا۔ مجھے 10 مہینے کے لئے قید کر دیا گیا۔ نازیوں نے ہم جنس پرستوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریوں کا جواز پیدا کرنے کیلئے پیراگراف نمبر 175 کو استعمال کیا۔ 1938 میں مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا، ذلیل کیا گیا اور مجھ پر تشدد بھی کیا گيا۔ بالاخر نازیوں نے مجھے اس شرط پر آزاد کر دیا کہ میں اپنی نس بندی کرانے پر راضی ہو جاؤں۔ میں نے آپریشن کرا لیا۔
1940-44: میری آپریشن کی نوعیت کی وجہ سے 1940 میں فوجی بھرتی کیلئے مجھے "جسمانی طور پر نااہل" قرار دے کر نکال دیا گیا۔ 1943 میں مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا مگر اس بار مجھ پر شاہ پرستی کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ میں سابق قیصر ولہیم دوم کا حامی تھا۔ نازيوں نے سیاسی قیدی کی حیثیت سے مجھے لیوبیک کے نیواین گمے نامی حراستی کیمپ سے ملحقہ انیکسی میں زیر حراست رکھ لیا۔
جنگ کے بعد فرائیڈریش۔پول نے ھیمبرگ میں سکونت اختیار کر لی۔
رابرٹ کا پیدائشی نام مارٹن ہوئیر تھا تاہم اُنہوں نے جب اداکار اور سنگیت کار کے طور پر اپنے پیشہ ورانہ کیرئر کا آغاز کیا تو اسٹیج کیلئے اُنہوں نے اپنا نام رابرٹ ٹی اوڈیمین رکھ لیا۔ رابرٹ نے کلاسیکی پیانو بجانے والے فنکار کی حیثیت سے یورپ بھر میں کنسرٹ کئے۔ لیکن ہاتھ کی چوٹ نے اُن کے کنسرٹ کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔
1955-39ء: 1935ء میں رابرٹ نے ہیمبرگ میں ایک کیبرے کھولا۔ ایک سال بعد نازیوں نے اسے اس الزام میں بند کردیا کہ یہ سیاسی طور پر تخریبی ہے۔ رابرٹ پھر برلن منتقل ہو گئے جہاں اُنہوں نے ایک مرد دوست کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔ رابرٹ کے دوست نے دباؤ کے تحت گسٹاپو کو اُن کے بارے میں بتا دیا۔ نومبر 1937ء میں رابرٹ کو نازیوں کی طرف سے نظر ثانی شدہ ضابطہ فوجداری کے پیراگراف نمبر 175 کے تحت گرفتار کر لیا گیا، جس کے تحت ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اُنہیں جیل میں 27 ماہ قید کی سزا دی گئی۔
1940-44ء: 1940ء میں رابرٹ کو جیل سے آزاد کر دیا گیا مگر وہ پولیس کی نگرانی میں رہے۔ پولیس نے میونخ میں ایک نصف یھودی دوست اور بیرونی ممالک میں دیگر دوستوں کے ساتھ اُن کی خط و کتابت کی نگرانی کی۔ 1942ء میں رابرٹ کو دوبارہ پیراگراف نمبر 175 کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور اُنہیں سیخسینہاؤسن کے حراستی کیمپ میں جلاوطن کردیا گیا جہاں اُنہیں دفتری کام پر لگا دیا گیا۔ اپریل 1949ء میں کیمپ سے بالٹک کی طرف جبری مارچ کے دوران 40 سالہ رابرٹ پیراگراف 175 ہی کے تحت سزا پانے والے دو دیگر افراد کے ساتھ فرار ہو گئے۔
جنگ کے بعد رابرٹ برلن لوٹ آئے جہاں اُنہوں نے ایک مصنف اور کمپوزر کے طور پر کام کیا۔ وہ 1985ء میں انتقال کر گئے۔
1919 میں رابرٹ اور اُن کے بھائی کارل نے کولون کے علاقے میں نیرودر بند کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی۔ دوسرے نوجوانوں کے جرمن گروپوں کی مانند اِس کا مقصد نوجوانوں کو کیمپنگ اور ہائکنگ کے ذریعے فطرت کے قریب لانا تھا۔ بعض اوقات نوجوانوں میں شدید قربت کے نتیجے میں ہم جنس پرستی کے تعلقات بھی سامنے آئے اور نیرودر بند گروپ ایسے تعلقات کو قبول کرتا تھا۔ اسی طرح اُس وقت کے بہت سے دوسرے نوجوانوں کے گروپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
1933-39: 1933 میں نازیوں کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اُنہوں نے نوجوانوں کے تمام آزاد گروپ ختم کر دئے اور نوجوان ارکان پر زور دیا کہ وہ ہٹلر یوتھ موومنٹ میں شامل ہو جائیں۔ رابرٹ نے اِس سے انکار کر دیا اور خفیہ طور پر نیرودر بند کے ساتھ ربطہ جاری رکھا۔ 1936 میں نازیوں کے نظریاتی کریمنل کوڈ کے پیراگراف 175 کے تحت اُنہیں قصوروار قرار دیا گیا۔ یہ شق ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دیتی تھی۔ رابرٹ کو نیرودر بند گروپ کے 13 دوسرے ارکان کے ساتھ قید میں ڈال دیا گیا۔
1940-41: رابرٹ ان 50 ھزار سے زائد افراد میں شامل تھے جنہیں پیراگراف 175 کے تحت نازی حکومت کے دوران سزا دی گئی۔ لیکن1941 میں اُنہیں ڈاخو کے حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ پیراگراف 175 کے تحت سزا پانے والے بیشتر افراد کی طرح رابرٹ کیلئے ضروری تھا کہ وہ شناخت کیلئے پیازی تکونی پٹی پہنیں۔ اِن سزا یافتہ افراد کو الگ بیرکوں میں تنہا رکھا جاتا۔ اُن سے انتہائی برا سلوک کیا جاتا اور دوسرے قیدی گروپ بھی اُنیں خود سے الگ رکھتے تھے۔
44 سالہ رابرٹ 1941 میں ڈاخو میں انتقال کر گئے۔ اُن کی موت کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔
برلن میں پلنے بڑھنے والے نوجوان لڑکے ہیری کو تھیٹر کا بہت شوق تھا۔ 15 سال کی عمر میں اس نے نارلینڈورف پلاٹز کے ایک تھیٹر میں چھوٹے کردار ادا کرنے شروع کر دئے۔ اس نے ہیئر ڈریسر (حجام) کے طور پر بھی کام سیکھنا شروع کیا مگر اسے یہ کام پسند نہ آیا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت تھیٹر میں یا نائیٹ کلبوں میں دوسرے اداکاروں کے ساتھ گزارتا تھا جہاں ہم جنس پرست جمع ہوتے تھے۔
1933-39ء جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ہم جنس پرستوں کے بار بند کر دئے۔ بعض ہم جنس پرستوں کو، خاص طور پر یہودی ہم جنس پرستوں کو، نازی غنڈوں نے قتل کر دیا؛ میرے دوست "سوسی" کو جو زنانہ لباس میں ادا کاری کرتا تھا، جنجر مار کر قتل کر دیا گیا۔ 1936ء میں مجھے نظر ثانی شدہ ضابطہ فوجداری کی شق نمبر 175 کے تحت گرفتار کرلیا گیا، جس کے تحت ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا تھا۔ مجھے نیوسسٹرم کے کیمپ میں قید کیا گیا جہاں میں دن میں دلدلوں میں 12 گھنٹے کام کرتا تھا۔ 15 مہینوں کے بعد مجھے رہا کردیا۔
1940-44ء: 1943ء میں گسٹاپو کے دباؤ کے تحت دو لڑکوں کے ذریعے مجھے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک بار پھر مجھے شق نمبر 175 کے تحت سزا دی گئی۔ مجھے ایک مرتبہ پھر آزاد کردیا گیا۔ اس بار صرف آٹھ مہینوں کے بعد مجھے آزادی ملی کیونکہ تھیٹر کے کچھ ساتھیوں نے میرے لیے مداخت کی۔ مجھے فوج میں بھرتی کیا گیا مگر جہاں کہیں بھی جاتا لوگوں کو میرے شق 175 کے الزام کے بارے میں پتہ لگ جاتا اور لوگ مجھے "گندا ہم جنس پرست" کے نام سے بلاتے۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں نے دو بار فوج چھوڑنے کی کوشش کی۔ بالآخر سزا کے طور پر مجھے خاص لڑاکا یونٹ میں بھیج دیا گیا جہاں تقریبا ہر شخص ہلاک ہو گیا۔ میں نے کسی نہ کسی طریقے سے اپنے آپ کو زندہ رکھا۔
جنگ کے بعد ہیری نے اپنا ایک چھوٹا سا تھیٹر کھول لیا۔
کارل کی پیدائش شمالی جرمنی کی بندرگاہ ہیمبرگ میں ہوئی۔ اُن کے والد امریکی تھے اور والدہ جرمن تھیں۔ کارل کی پیدائش کے بعد اُن کے والد امریکہ واپس چلے آئے اور کچھ عرصے بعد اُن کے والدین کی طلاق ہو گئی۔ 14 سال کی عمر میں کارل نے اسکول چھوڑ دیا اور ایک دکان میں کام شروع کر دیا۔
1933-39ء: 1935ء میں ایک مخبر نے پولیس کو میری ایک 15 سالہ نوجوان سے ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ کر دیا اور مجھے ضابطۂ اخلاق کی شق نمبر 175، جو ہم جنس پرستی کو بطور "خلاف معمول" عمل بیان کرتا تھا، کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ حالانکہ یہ قانون کتابوں میں سالوں سے موجود تھا، نازیوں نے اس قانون کی وسعت کو بڑھایا اور ہم جنس پرستوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنے کیلئے استعمال کیا۔ 15 مہینوں بعد مجھے رہا کر دیا گیا مگر 1937ء میں دوبارہ گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔
1940-44ء: 1943ء میں اتحادیوں نے ہیمبرگ پر بھاری بمباری کی مگر فیوہس بوتیل جیل کو جہاں مجھے "سیکورٹی وجوہات" کی بنا پر 6 سالوں سے قید رکھا گیا تھا، نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس عرصے کے دوران بہت سے قیدیوں کو نیواین گامے حراستی کیمپ میں بھیجا دیا گیا مگر میں اس گروپ میں تھا جس کو والڈھائم کے زیکسن جیل میں بھیجا گیا۔ میں وہاں اعصابی خلل کا شکار ہو گیا اور مجھے جیل کے ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ میں خوش قسمت تھا کیونکہ جیسے ہی اتحادی قریب تر آتے گئے دیگر قیدیوں کو لڑائی کیلئے رہا کر دیا گیا جو فرنٹ لائن پر مارے گئے۔
جنگ کے بعد کارل کو ایک بینک میں ملازمت مل گئی مگر جب 18 ماہ بعد آجر کو یہ معلوم ہوا کہ کارل کو شق نمبر 175 کے تحت جیل کی سزا ہوئی تھی، اُنہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔
کارل شمالی جرمنی کے بیڈ ذویشیناحن نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ جب اس کی عمر دو سال تھی تو اس کا خاندان نقل مکانی کر کے بریمرہیون کی بندرگاہ چلا گیا۔ اس کے والد ایک جہازران تھے اور اس کی والدہ ایک مقامی ہسپتال میں نرس بن گئیں۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد کارل اپنی والدہ کے ساتھ رہا۔ کارل نے بیس سال کی عمر میں اپنے علاقے کے گرجے میں ڈیکن کی تربیت حاصل کرنی شروع کر دی۔
1933-39: میری عمر 26 سال تھی جب میرے حاسد محبوب نے مجھے چھوڑ دیا اور مجھے اپنے گھر سے کریمینل کوڈ کے پیراگراف 175 کے تحت گرفتار کر لیا گيا جس کے مطابق ہم جنس پرستی ایک "غیرفطری" عمل تھا۔ یہ قانون برسوں سے کتابوں میں موجود تھا۔ تاہم نازیوں نے اس کا دائرہ کار بڑھا دیا اور اس کے بہانے بڑی تعداد میں ہم جنس پرستوں کو گرفتار کیا۔ مجھے ہیمبرگ کے قریب نیوئنگمے کے حراستی کیمپ میں قید کر دیا گيا جہاں "175 والوں" کو گلابی رنگ کی تکونی پٹی باندھنے کا حکم دیا گیا تھا۔
1940-44: میں نے چونکہ نرس کی کچھ تربیت حاصل کر رکھی تھی اس لئے مجھے وٹنبرگ کے ذیلی کیمپ میں قیدیوں کے ہسپتال میں کام کرنے کیلئے منتقل کر دیا گیا۔ ایک دن ایک چوکیدار نے مجھے پولینڈ کے جنگی قیدی مریضوں کو دی حانے والی روٹی کی خوراک کم کرنے کا حکم دیا۔ مگر میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ پولش لوگوں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کرنا غیر انسانی ہے۔ سزا کے طور پر مجھے آش وٹز بھیج دیا گيا اور اس بار "175 والوں" کی پٹی کے بجائے سیاسی قیدیوں کی لال تکونی پٹی پہنائی گئ۔ آش وٹز میں میرا ایک پالش محبوب تھا۔ اس کا نام زبگنیو تھا۔
کارل کو 1945 میں آش وٹز سے رہائی مل گئی۔ جنگ کے بعد اس کے ریکارڈ میں پیراگراف 175 کے تحت اس کو ہم جنس پرست قرار دئے جانے کے باعث اس کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.