ولاڈی سلو روسی مقبوضہ پولینڈ میں کیتھولک والدین کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ پلوک میں بڑا ہوا۔ یہ وارسا کے جنوب کے دیہی علاقے میں واقع ایک قصبہ ہے۔ سن 1918 میں ولاڈی سلو نے شادی کی۔اس کی بیوی میری اور اس کے چار بچے ہوئے۔
1933-39: ولاڈی سلو بک کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور پھر اس نے مقامی کاشتکاروں کی ایک تنظم میں اکاؤنٹینٹ کی حیتیثت سے کام کیا۔ سن 1931 میں اسے کاشتکاروں کی تنظیم کی ایک ناکام شاخ بند کرنے کیلئے وسزوگروڈ نامی ایک قصبے میں بھیجا گیا۔ ایک سال بعد اس نے وسزوگروڈ میں مقامی کاشتکاروں اور زمینداروں کے ساتھ مل کر ایک نئی کامیاب تنظیم قائم کی۔ 1939 میں جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے بعد جرمنوں نے اس تنظیم کو قومی تحویل میں لے لیا اور ولاڈی سلو اور ملازمین کو تنظیم جاری رکھنے کا حکم دیا گیا۔
1940-42: 6 اپریل 1940 کو جرمن پولیس نے وسزوگروڈ میں ولاڈی سلو اور اس کے بڑے بیٹے جانوسز کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ ان کو ایک بڑے خالی صحن میں لے جایا گیا جہاں بہت سے آدمیوں کو دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کروایا گیا تھا۔ ایک ایک کر کے مزید آدمی لائے گئے۔ گچھ گھنٹوں بعد ولاڈی سلو کو گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس کا بیٹا ان 129 افراد میں سے تھا جن کو گرفتار کر کے حراستی کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ولاڈی سلو نے تنظیم میں اپنا کام دوبارہ شروع کیااور پولش مزاحمتی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ مئی 1942 میں اس کو گرفتار کر لیا گیا اور چار مہینوں تک اس پر تشدد کیا گیا۔
18 ستمبر 1942 کو ولاڈی سلو کو جرمنوں نے پلوک نامی سابقہ یہودی سیکشن میں 12 دوسرے قیدیوں سمیت سرے عام پھانسی دے دی۔
آئٹم دیکھیںمیرین کی پرورش کیتھولک والدین کے ہاں نیووڈووو میں ہوئی۔ نیووڈووو پولینڈ میں صوبے بیالسٹاک میں لومزہ کے قریب واقع ایک قصبہ ہے۔ اُن کا خاندان زاروں کے دور میں 1918 تک اِس قصبے میں رہا جب پولینڈ نے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ ہائی اسکول کے بعد میرین کیپوچن فرانسسکن آرڈر آف فرائرز میں شامل ہو گئے۔ فرانس اور اٹلی میں 8 برس کی تعلیم کے بعد وہ واپس پولینڈ آئے تاکہ اپنے آرڈر کے طالب علموں کو فلسفے کی تعلیم دیں۔
1933-39: جب ستمبر 1939 میں جرمنی نے پولنڈ پر حملہ کیا تو میں گروڈنو کے قریب اپنی خانقاہ پر تھا۔ ہم نے تین یفتوں کے بعد اُس وقت خانقاہ کو خالی کر دیا جب سوویت فوجی مشرق کی جانب سے حملہ کرتے ہوئے گروڈنو پہنچ گئے۔ میں واپس لومزا چلا آیا۔ ہمارے نئے سوویت حمکرانوں نے مذہب کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذہب کام کرنے والے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ میں نے اپنے خطبوں میں اِس دعوے کو چیلنج کیا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ سوویت مجھے گرفتار کرنے والے ہیں تو میں فرار ہو کر جرمن مقبوضہ پولینڈ چلا گیا۔
: 1940-45 نازیوں نے 1941 میں مجھے وارسا میں گرفتار کرلیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری گرفتاری کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی لیکن ایک تعلیم یافتہ پولش باشندے کی حیثیت سے میرے تعاون پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے پوویک جیل میں زیر حراست رکھا گیا اور پھر آشوٹز بھیج دیا گیا۔ وہاں کمانڈر نے ہمیں سخت محنت کرنے کے بارے میں لیکچر دیا۔ ایک مترجم نے اُس کی بات چیت کا پولش میں ترجمہ کیا لیکن میں جرمن سمجھتا تھا۔ وہ چلایا کہ ہم کریمیٹوریم کی چمنی کے ذریعے ہی ّزاد ہو سکیں گے۔ اِن الفاظ کے ترجمے کی بجائے مترجم نے کہا کہ "تم ہر چیز پر قابو پا لو گے"۔
ریورینڈ ڈیبروسکی کو جلاوطن کر کے ڈاخو بھیج دیا گیا جہاں اُن پر ملیریا کے تجربات کئے گئے۔ اُنہیں 29 اپریل 1945 کوامریکی فوجیوں نے آزاد کرا لیا اور اُنہوں نے 1949 میں امریکہ آ کر سکونت اختیار کر لی۔
آئٹم دیکھیںرائیڈر ناروے کے ساحل کے ساتھ مچھلیاں اور وہیل مچھلیاں پکڑنے والوں کے ایک چھوٹے قصبے میں مذہبی لوتھیرین والدین کے چار بیٹوں میں سے تیسرا تھا۔ رائیڈر کے والد ایک سرکاری ملازم تھے۔ رائیڈر سرکاری اسکول جایا کرتا تھا اور موسیقار بننے کا خواب دیکھتا تھا۔
1933-39: باوجود اس کے کہ مجھے سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، مجھے جرمنی سے پناہ کی تلاش میں آنے والے اپنے یہودی پڑوسیوں سے ہمدردی تھی۔ جب 1939 کے موسم خزاں میں جرمنی نے پولینڈ پر اور روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا تو میں افسردہ ہو گیا تھا۔ کئی دنوں بعد میرا سب سے بڑا بھائی انتقال کر گيا۔ کرسمس کی شام کو جب میری خالہ اور میرے کزنز ہمارے گھر آئے ہوئے تھے، مجھے معلوم ہوا کہ میرے خالو بھی انتقال کر گئے ہیں. ان کا تجارتی جہاز جرمنوں کی آب دوز (سب مرین) کے ہاتھوں ڈوب گيا تھا۔
1940-44: نار وے پر جرمنوں کے قبضے کے 6مہینے بعد مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ میرا جرم غیر مناسب رویہ اور نوجوانوں کو جرمنی کے خلاف گانے گانے کی ہدایت دینا تھا۔ مجھے 6 ہفتوں کی قید کی سزا کاٹنی پڑی۔ آزاد ہونے کے بعد میں مزاحمت میں شامل ہوگیا اور میں نے اپنے مقامی شپ یارڈ کی تخریب کاری میں مدد کی۔ جب ایک نیا بحری جہاز نکلتے ہی ڈوب گیا تو مجھے دوبارہ گرفتار کرلیا گيا۔ مجھے عمر قید کی سزا دی گئی لیکن ناروے کی نازی حکومت نے فروری 1942 میں 1،000 سیاسی قیدیوں کو معافی دے دی۔ میرے تیسرے جرم کے بعد جرمنوں نے مجھے بوخنوالڈ میں جلاوطن کردیا گیا۔
رائیڈر بوخنوالڈ میں 30 مہینے قید رہا۔ 18 مارچ 1945 کو سویڈن ریڈ کراس کے حوالے کئے جانے کے بعد وہ ناروے لوٹ آیا اور اس کے بعد 1945 میں ہجرت کر کے امریکا چلا گیا۔
آئٹم دیکھیںستمبر 1939 میں پولینڈ پر جرمن حملے کے فوری بعد ولیم کے خاندان کو ایک یہودی بستی میں جانے کا حکم دیا گيا اور اُن کے بھائی کو مزدوری کے ایک کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ولیم نے اہلکاروں کو رشوت دیکر اپنے بھائی کو ہسپتال سے ڈسچارج کروایا کیونکہ ہسپتال سے مریضوں کو آشوٹز کیمپ منتقل کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ بعد میں اپنے بھائی کی دیکھ بھال کی خاطرایک قیدی کیمپ سے فرار ہونے کے بعد ولیم کو جیل بھیج دیا گیا۔ اُنہیں بلیخ ھیمر، گلائیوٹز بھیج دیا گیا جہاں اُن کی ملاقات اُن کی مستقبل کی شریکِ حیات سے ہوئی۔ پھر اُنہیں دوسرے کئی کیمپوں میں بھی بھیجا گیا۔ ولیم ایک موت کے مارچ میں آسڑیا کی سرحد کے قریب نڈھال ہوکر گرگئے لیکن پھر اُنہیں آزاد کرا لیا گیا۔ اُن کے والدین اور بھائی کا انتقال ہو گیا۔
آئٹم دیکھیںوالیس اور ان کا خاندان پولش کیتھولک تھے۔ ان کے والد کیمیکل انجینئر تھے اور ان کی والدہ ٹیچر تھیں۔ سن 1939 میں جرمنوں نے کیلچ پر قبضہ کر لیا۔ 1942 میں والیس نے یہودیوں کے خلاف منظم قتل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ والیس نازی مخالف مزاحمت میں حامیوں کے گروہوں کے درمیان پیغام رساں کی حیثیت سے سرگرم تھے۔ سن 1946 میں آزاد پولینڈ میں والیس نے کیلچ کا پوگروم دیکھا۔ 1949 میں وہ اپنے والد سے امریکہ میں مل جا ملے اور ان کے خاندان کے باقی افرار بعد میں امریکہ پہنچ گئے۔ تاہم پولینڈ میں کمیونسٹ حکومت نے ان کی اکلوتی بہن کو تقریباً ایک دہائی تک ہجرت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
آئٹم دیکھیںایڈورڈ ہیگ کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ سن 1929 میں اس کا خاندان امریکہ میں آباد ہو گيا۔ وہاں اس کے والد کو ملازمت نہیں مل سکی تو ایڈورڈ اور اس کا خاندان سن 1932 میں واپس نیدرلینڈ لوٹ گیا۔ وہ ڈيلفٹ کے قصبے میں رہتے تھے، جب جنگ شروع ہوئی تو وہ کپڑوں کا ایک چھوٹا سا اسٹور چلا رہے تھے۔ مئی 1940 میں جرمنی نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا۔ یہودی مخالف قوانین قائم کئے گئے جن کے تحت یہودیوں سے اپنا کاروبار رکھنے کا حق چھین لیا گیا اور 3 مئی 1942 کو ان کو ایک پیلے رنگ کا ستارہ پہننے پر مجبور کر دیا گیا۔ جب نیدرلینڈ میں یہودیوں کی جلاوطنی شروع کی گئی تو ایڈورڈ اور اس کا خاندان چھپے رہے۔ جنگ کے اختتام تک ایڈورڈ اپنی اصلیت چھپا کر خود کو غیر یہودی ظاہر کر رہا تھا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.