والیس اور ان کا خاندان پولش کیتھولک تھے۔ ان کے والد کیمیکل انجینئر تھے اور ان کی والدہ ٹیچر تھیں۔ سن 1939 میں جرمنوں نے کیلچ پر قبضہ کر لیا۔ 1942 میں والیس نے یہودیوں کے خلاف منظم قتل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ والیس نازی مخالف مزاحمت میں حامیوں کے گروہوں کے درمیان پیغام رساں کی حیثیت سے سرگرم تھے۔ سن 1946 میں آزاد پولینڈ میں والیس نے کیلچ کا پوگروم دیکھا۔ 1949 میں وہ اپنے والد سے امریکہ میں مل جا ملے اور ان کے خاندان کے باقی افرار بعد میں امریکہ پہنچ گئے۔ تاہم پولینڈ میں کمیونسٹ حکومت نے ان کی اکلوتی بہن کو تقریباً ایک دہائی تک ہجرت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
ہم اس عرصے کے زندہ بچ جانے والے لوگ تھے جس میں 14 سال اور 14 سال سے زیادہ عمر کے ہر تندرست شخص کو ہفتے میں 6 دن دس گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا تھا۔ ورنہ ہمیں جبری مشقت کے کیمپ یا جرمن جنگی سازوسامان بنانے والی فیکٹریوں میں کام کیلئے سمندری سفر کے ذریعے جرمنی بھیج دیا جاتا تھا۔ ہمیں کھانے کو بہت کم خوراک دی جاتی تھی جس کے سبب ہم بیشتر اوقات بھوکے رہتے تھے۔ ہم بیماریوں میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاتے تھے۔ ٹائفس اور ٹائفائڈ بخار پھیلے ہوئے تھے۔ میری والدہ ٹائفائد بخار سے بچ گئيں۔ ہم بچے بیمار نہیں ہوئے۔ ہم وہ لگاتار پکڑ دھکڑ کی کاروائیوں سے جنہیں ہم پولش زبان میں "لاپاکی" [راؤنڈ اپ] کہتے تھے، ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے۔ اپنے گھر سے کسی چچی یا خالہ کے گھر کے راستے میں اچانک جینڈرمے (پولیس فورس) سڑک بند کر دیتے تھے۔ اور تمام لوگوں کو گھیرے میں لے لیا جاتا تھا اور اپنے اپنے کاغذات دکھانے کو کہا جاتا تھا۔ "کیا تم کہیں کام کرتے ہو؟ تم کون ہو؟ تمھارا پیشہ کیا ہے؟ تم ابھی کیا کر رہے ہو؟" اور اگر کوئی شخص کسی ایسے موذوں کام پر نہ لگا ہوا ہو جس مین جرمنی کی جنگی کارروائیوں کی حمایت شامل نہ ہو تو اسے علیحدہ کر کے ایک ٹرک میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اسے ریلوے اسٹیشن بھجوا دیا جاتا اور سمندری سفر کے ذریعے جرمنی بھیج دیا جاتا تھا۔ پولینڈ میں کوئی ایسا خاندان نہ تھا جو جنگ کے المیہ سے دوچار نہ ہوا ہو۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.