مقبوضہ یورپ میں جرمن حکومت
جرمنی نے مفتوح مشرقی علاقہ جات میں سے اکثر کے لوگوں کو جرمن تہذیب کے رنگ میں رنگنے کے بعد اُن پر قبضہ کرلینے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ کچھ علاقوں کو جبری مشقت کیلئے مزدوروں کی فراہمی کے طور پر متخب کیا گیا تھا تاہم زيادہ تر کی جرمن نوآبادی استعماریت کے تحت تنظیم نو کی جانی تھی۔ نوآبادکاری کے متعلق جرمنوں کے زیادہ تر منصوبوں کو جنگ کے بعد تک کیلئے ملتوی کردیا گیا تھا۔ اس دوران ان علاقوں کو جرمنوں کی جنگ کے لئے بے رحمی سے لوٹا جارہا تھا: کھانے پینے کی اشیاء، خام مال اور جنگی سامان کو ضبط کر لیا گیا۔ مقامی آبادی کو جنگی صنعتوں یا جنگی تعمیراتی منصوبوں میں جبری مشقت کے لئے بھرتی کرلیا گيا۔ مذید لاکھوں افراد کو جلاوطن کرکے جرمن جنگی صنعتوں یا زراعت کے لئے جبری مزدوری کے لئے جرمنی بھیج دیا گيا
پولینڈ میں جرمن حکومت شدید سخت تھی۔ جرمن حکام نے پولینڈ کی آبادی کو جبری مزدوری کے ذریعے کے علاوہ اور کچھ نہ سمجھا۔ پولش دانشوروں کے خلاف دہشت گردی کی مہم چلائی گئی اور ان میں سے زيادہ تر کو قتل کردیا گيا یا کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ پولش اساتذہ، پادریوں اور ثقاقت سے منسلک افراد پر خاص طور پر تشدد کیا گیا کیونکہ ان کا مزاحمتی تحریک میں حصہ لینے کا زيادہ خدشہ تھا۔ جرمنوں نے پولینڈ کے ثقافتی اور سائنسی ادارے تباہ کردئے اور قومی خزانے لوٹ لئے۔ پولینڈ کے باشندوں کو صرف بھوکا رہنے کے لئے کھانا دیا جاتا تھا کیونکہ ملک کے کھانے کا بیشتر حصہ جرمنوں نے اپنے ملک کے لئے ضبط کرلیا تھا۔
مقبوضہ مشرقی یورپ میں پالیسیاں اس سے قدرے نرم تھیں۔ نیدرلینڈ جیسے ممالک کو جنہیں جرمن تہذیب کے رنگ میں رنگا جا چکا تھا، جرمنی کا حصہ بنایا جانا تھا۔ دوسرے ممالک کو، خاص طور پر فرانس کو، جرمنی کا محتاج بنایا جانے والا تھا۔
جنگ کے دوران جرمنی کی پالیسیوں کے نتیجے میں یورپ بھر میں مزاحمتی تحریکیں ابھرنے لگیں۔ مقبوضہ یورپ میں جرمنوں سے لڑنے والے مسلح، بے قائدہ افواج کے ممبران حلیف کہلاتے تھے۔ انہوں نے یورپ بھر میں جرمن شہری اور فوجی حکام کو ہراساں کیا اور لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور تخریب کاری کے دوسرے ہتھکنڈے استعمال کئے۔
اہم تواریخ
16 مئی 1940
نازیوں نے پولش رہنماؤں کے قتل کا حکم دے دیا
مقبوضہ پولینڈ کے نازی منتظم ہانز فرانک نے پولش رہنماؤں (سیاستدان، سرکاری افسران، پیشہ ور ماہرین، دانشور- حتی کہ پادریوں بھی) کی گرفتاری اور قتل کا حکم دے دیا۔ نازیوں کا مقصد پولینڈ کے باشندوں میں خوف و ہراس پھیلا کر انہيں نازیوں کی پالیسیوں کی مزاحمت سے روکنا تھا۔ ہزاروں پولش افراد کو گرفتار کرکے قتل کردیا گيا۔ دہشت کے باوجود پولینڈ کی مزاحمتی تحریک جاری رہی۔
10 جون 1942
جرمنوں نے ایک چھوٹے چیک قصبے کو تباہ کردیا
چیک حامیوں کے ہاتھوں رائنہارڈ ہائيڈریخ (بوہیمیا اور موراویا کے ناظم) کے قتل کے رد عمل کے طور پر جرمنوں نے پراگ کے باہر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں لیڈیچ کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیشتر رہائشیوں کو قتل کردیا گيا۔ تقریباً دو سو عورتوں کو جرمنی کے ریونزبروئک حراستی کیمپ اور تقریباً سو بچوں کو دوسرے مراکز میں جلاوطن کردیا گيا۔ قصبے کو جلا کر راکھ کردیا گیا، گھروں کو جلادیا گیا یا گرادیا گيا۔
24 مارچ 1944
ایس ایس کے اہلکاروں نے روم کے قریب اطالویوں کا قتل عام شروع کر دیا
جرمن فوجیوں پر حلیفوں کے حملے کے جواب میں ایس ایس (نازی حکومت کے ایلیٹ گارڈ) کے دستوں نے روم کے جنوب میں واقع آرڈياٹائن غاروں میں تین سو سے زائد اطالویوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ قتل کئے جانے والے ہر جرمن فوجی کے عوض دس یرغمالیوں کو مارا گيا۔ قتل عام کے بعد ایس ایس نے غاروں کو دھماکوں سے اڑا دیا۔
10 جون 1944
ایس ایس کے دستوں نے فرانس کے دیہاتیوں کا قتل عام شروع کردیا
ایک ایس ایس دستے نے جنوبی فرانس میں واقع ایک چھوٹے سے فرانسیسی گاؤں اوریڈور ۔ سر ۔ گلین کی مکمل آبادی کو ختم کردیا۔ چھ سو سے زائد مردوں، عورتوں اور بچوں کو گاؤں کے گرجا گھر میں زبردستی جمع کیا گيا اور پھر گرجا گھر کو آگ لگادی گئی۔ کوئی بھی زندہ نہ بچا۔ نارمینڈی، فرانس میں اتحادی افواج کی آمد کے بعد مقبوضہ فرانس میں حرمنی کی مخالفت میں حامیوں کی سرگرمیاں بڑھنے لگیں۔ اوریڈور ۔ سر ۔ گلین میں عورتوں، مردوں اور بچوں کا قتل عام حامیوں کی ان سرگرمیوں کا ہی رد عمل تھا۔