جرمنی میں آباد 80 فیصد یہودی (تقریبا 400000 افراد) جرمن شہریت رکھتے تھے۔ باقی زیادہ تر یہودی پولش شہریت رکھتے تھے۔ ان میں سے ایسے کئی افراد بھی تھے جو جرمنی میں پیدا ہوئے تھے اور جن کے پاس جرمنی میں رہنے کے لئے مستقل رہائشی حیثیت حاصل تھی۔ مجموعی طور پر جرمنی کے تقریبا ستر فیصد یہودی شہری علاقوں میں رہتے تھے۔ جرمنی میں پچاس فیصد یہودی جرمنی کے دس سب سے بڑے شہروں میں رہتے تھے۔ یہودی آبادی کے سب سے بڑے مراکز برلن (تقریبا ایک لاکھ 60 ہزار)، فرینکفرٹ ایم مین (تقریبا 26 ہزار)، بریسلاؤ (تقریبا 20 ہزار)، ہیمبرگ (تقریبا 17 ہزار)، کولون (تقریبا 15 ہزار)، ہینوور (تقریبا 13 ہزار) اور لیپزگ (تقریبا 12 ہزار) تھے۔ 10،000 سے زائد یہودی ڈانزگ کے آزاد شہر میں رہتے تھے۔ آسٹریا میں رہنے والے یہودیوں کی اکثریت ایک لاکھ 78 ہزار کے قریب افراد، دارالحکومت کے شہر ویانا میں رہتے تھے۔ چیکوسلواکیا میں یہودیوں کی سب سے بڑی برادری جن کی تعداد تقریبا 35،000 تھی، دارالحکومت پراگ میں رہتی تھی۔
آئٹم دیکھیںجنگ سے پہلے ایک مجمع میں دو جرمنی یہودی خاندان۔ ان میں سے صرف دو افراد ہالوکاسٹ سے بچ سکے۔ جرمنی 1928۔
آئٹم دیکھیںایک یہودی اسکول میں پہلی جماعت کی کلاس۔ کولون، جرمنی، 1929-1930۔
آئٹم دیکھیںتصویر میں برٹا روزن ھائم اسکول کے پہلے دن پر مٹھائیوں اور اسٹیشنریوں سے بھری ہوئی ایک بڑی کون پکڑے کھڑی ہے۔ لیپزگ،جرمنی، اپریل 1929
آئٹم دیکھیںیہودیوں کو الگ کر دینے والے سائن، جیسا کہ اس سائن سے ظاہر ہو رہا ہے، انہیں تمام تر نازی جرمنی میں عوامی جگہوں لگایا گیا تھا (جن میں پارک تھیٹر،سنیما ہال اور ریستوران شامل ہیں)۔ اس سائن پر جرمن زبان میں لکھا ہوا ہے "یہودیوں کی یہاں کوئي ضرورت نہیں ہے۔"
آئٹم دیکھیںباربرا جرمنی کے دارالحکومت برلن میں رہنے والے یہودی والدین کی دو بیٹیوں میں سے بڑی بیٹی تھی۔ باربرا کے والد ایک کامیاب وکیل تھے۔ جب باربرا تھوڑی بڑی ہوئی تو اس کے والد اسے برلن میں سیر کرانے اور آرٹ میوزیم دکھانے لے جاتے تھے۔ باربرا کو گھوڑسواری کا شوق تھا اور ڈانسر بننے کی خواہشمند تھی۔
1933-39: جنوری 1933 میں جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو میرے والد کو غیر یہودی کلائنٹس رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جلد ہی ان کا کام رک گیا۔ اس سال جب میں 7 سال کی تھی تو میرا خاندان نقل مکانی کر کے نیدرلینڈ چلا گیا جہاں میری والدہ کے کچھ رشتہ دار رہتے تھے۔ میں ایمسٹرڈیم میں اسکول جاتی تھی اور جلد ہی میں نے ڈچ زبان سیکھ لی۔ نوکروں سے بھرے ہوئے بڑے گھر میں نہ رہنے کے باوجود بھی مجھے ایمسٹرڈیم میں رہنا ہہت پسند تھا۔ اس کا ماحول انتا پر تکلف نہیں تھا جتنا برلن کا تھا۔
1940-44: مئی 1940 میں جرمنوں نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا۔ دو سال بعد جب جرمنوں نے یہودیوں کو جلاوطن کرنا شروع کیا تو میرے بوائے فرینڈ مینفریڈ نے مجھے بتایا کہ "اجرتی کیمپ" میں جانے کا مطلب محض موت ہے۔ اس نے میرے اور میرے خاندان کیلئے جعلی شناختی کارڈز بنوائے اور مجھ سے کہا "اگر تمہیں بلوایا بھی جائے تو مت جانا"۔ میں نے پوچھا "اگر میں نہیں گئی تو میرے والدین کا کیا ہو گا؟" اس نے جواب دیا "ایسا کچھ نہیں ہو گا جو تمہارے جانے پر نہ ہو"۔ تمھارا کیا مطلب ہے؟" میں نے پوچھا۔ اس نے جواب دیا "جو کوئی جائے گا اس کو مار دیا جائے گا"۔ وہ سب مر جائيں گے۔"
مئی 1945 میں کینیڈين فوجیوں کے ایمسٹرڈيم کو رہا کرانے تک باربرا چھپی رہی۔ وہ نومبر 1947 ء میں امریکہ ہجرت کر گئی۔
آئٹم دیکھیںایوا بریجٹ جنوب مشرقی جرمنی میں دریائے رھائن کے قریب واقع ریاست بیڈن کے دارالحکومت میں رہنے والے جرمن یہودی والدین کے تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس کے دوست اور ہم جماعت اس کو بریجٹ اور اس کا خاندان اس کو "برکس" کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ایک لادینی گھرانے میں بڑی ہوئی اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے والد مقامی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد تھے۔
1933-39: 1933 میں نازی ایوا کے والد کو گھر سے گرفتار کر کے لے گئے کیونکہ وہ نازیوں کے خلاف ایک سرگرم کارکن تھے۔ دو مہنے بعد اس نے اپنے والد کو ایک کھلے ٹرک میں سڑکوں میں "گشت کرواتے" ہوئے دیکھا۔ ان کو حراستی کیمپ لے جاتے ہوئے سر عام ذلیل کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد ایوا نے اسکول جانے سے انکار کر دیا۔ اپریل 1934 میں جب اس کے والد کو مار دیا گا وہ اپنی والدہ کے ساتھ فرانس ہجرت کر گئی۔
1940-43: فرانسیسیوں نے جنگی قیدیوں کے کیمپ سے ایوا کو رہا کرایا مگر حالات اور بھی بدتر ہو گئے جب 1940 میں جرمنی نے فرانس کو شکست دی۔ 1941 میں ایوا کی بہن نے ایوا، اپنی والدہ اور اپنے لئے امریکہ کا ویزا اور بحری جہاز کے ٹکٹ حاصل کیے مگر ایوا کو نو مہینے کی حاملہ ہونے کی وجہ سے جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہيں ملی۔ اس کے بچے کے باپ نے ایوا کو چھوڑ دیا تھا۔ تنہا ایوا نے مرسیل میں اپنے بچے کو جنم دیا۔ جب ایوا اپنے ایک سالہ بیٹے کی دیکھ بھال نہیں کر سکی تو اس نے لموگس میں یہودی بچوں کی پناہ گاہ میں اسے چھوڑ دیا۔
جنوری 1943 میں جنوبی فرانس میں ایک راؤنڈ اپ کے دوران بریجٹ کو پکڑ لیا گیا اور سوبی بور میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں وہ انتقال کر گئی۔ اس کا بیٹا زندہ بچ گیا اور 1945 میں اسے فلسطین پہنچا دیا گیا۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.