منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
آئرین، دو بچوں میں سے چھوٹی تھی۔ وہ مین ھائم نامی صنعتی شہر کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد، جو پہلی چنگ عظیم میں جرمن فوج کے زخمی فوجی تھے، ایک انٹیریر ڈیکوریٹر (آرائش کار) تھے۔ اس کی والدہ خاتون خانہ تھیں۔ سن 1933 میں جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت آئرین کا بڑا بھائی برتھولڈ سرکاری اسکول جاتا تھا۔ تین سالہ آئرین اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں رہا کرتی تھی۔
1933-39: اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ یہودی تہوار اور تعطیلات منانے کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ چڑیا گھر میری سب سے پسندیدہ جگہ تھی۔ مجھے خاص طور پر بندر پسند تھے۔ جب نازیوں نے یہودی بچوں کو سرکاری اسکول سے نکلنے پر مجبور کر دیا تو میں نے ایک یہودی اسکول جانا شروع کیا۔ میں اپنے والد کی "لاڈلی بیٹی" تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی سائکل پر مجھے اسکول سے لایا کرتے تھے۔ نازیوں کے ہاتھوں ہمارا اسکول نذر آتش ہونے کے بعد میرا بھائی اپنی حفاظت کی خاطر انگلستان چلا گیا۔۔ میں اتنی چھوٹی تھی کہ میں ساتھ نہ جا سکی۔
1940-44: سن 1940 میں جب میں 10 سال کی تھی تو میرے خاندان کو گرس اور پھر ریور سالٹیز بھیج دیا گیا جو جنوبی فرانس میں انتہائی خوفناک کیمپ تھے۔ وہاں کھانا بہت ہی برا تھا۔ یہودی بچوں کی امداد کی تنظیم نے مجھے لے لیا اور مجھے ایک کیتھلک کانونٹ میں دیگر 13 یہودی لڑکیوں کے ساتھ ڈال دیا۔ میں آئرین فرینچٹ بن گئی اور سسٹرتھیٹریسہ کے زیر تعلیم رہی۔ ایک دن ایس ایس کے اہلکار چھپے ہوئے جرمن یہودی بچوں کی تلاش میں ہمارے کانونٹ آئے۔ ہماری لڑکیوں میں سے ایک کو بہت اچھی فرانسیسی بولنی آتی تھی اور اسی نے بات کی تھی۔ بات چلی۔ جرمن چلے گئے اور ہم بچ گئے۔
جولائی 1944 میں تیرہ سالہ آئرین نے اتحادی فوجیوں کی مدد سے آزادی حاصل کر لی۔ فرانس میں متعدد بجوں کی پرورش گاہوں میں منتقل ہونے کے بعد سن 1947 میں آئرین نے امریکہ ہجرت کر لی۔
مارتا کی پرورش ہنگیرین زبان بولنے والے یہودی والدین کے ہاتھوں سلواکیا کے شہر کوسیک میں ہوئی۔ وہ اُن کی دو بیٹیوں میں سے چھوٹی تھی۔ مارتا ایک یہودی ایلیمنٹری اسکول جاتی تھی۔ اس کے والد ایک چھوٹا سا گروسری اسٹور چلاتے تھے۔
1933-39: ابتدائی اسکول ختم کرنے کے بعد میں نے ثانوی اسکول شروع کیا۔ تعلیم کی زبان سلاوک تھی اور نومبر 1938 میں ھنگری کی افواج کے جنوبی سلواکیا پر قبضہ کرنے تک یہودی امتیازی سلوک کا شکار نہیں بنے تھے۔ جرمنی کی حمایت کے ساتھ کوسک ہنگری کا حصہ بن گیا اور اس کا نام تبدیل کر کے کاسک رکھ دیا گيا۔ ہمارے نئے ہنگری کے حکمرانوں نے یہود مخالف قوانین متعارف کروائے اور اس کے نتیجے میں میرے والد کو اپنی دکان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔
1940-44: ہمارا خاندان بمشکل گزارہ کر رہا تھا۔ ہماری گزر بسر کیلئے میرے والد نے ہنگری کے قوانین کی خلاف ورزی کر کے گروسری اسٹور کا کاروبار جاری رکھا۔ 1944 کے آغاز میں بالاخر وہ پکڑے گئے اور ان کو کرفتار کر لیا گیا۔ جرمنوں کے ہنگری پر قبضہ کرنے کے ایک مہینے بعد مجھے اور میری والدہ کو ایک قریبی اینٹوں کی فیکٹری میں اکھٹے ہونے پر مجبور کر دیا گیا؛ اور مئی 1944 میں ہمیں کوسک کے بیشتر یہودیوں کے ساتھ آش وٹز میں جلاوطن کر دیا گیا۔ جب ہم آش وٹز پہنچے تو میری والدہ کو گیس چیمبر میں موت کے حوالے کر دیا گیا اور مجھے جبری مزدوری کے لئے منتخب کیا گيا۔
میحیل ڈورف کے ذیلی کیمپ ڈاخو میں منتقل ہو جانے کے بعد، یکم مئی 1945 کو امریکی افواج نے ٹُٹزنگ میں مارتا کو آزادی دلائی اور وہ جلدی اپنے وطن لوٹ گئی۔ وہ 1968 میں امریکہ ہجرت کر گئی۔
1939 میں گرڈا کے بھائی کو جبری مشقت کے لئے جلاوطن کردیا گیا۔ جون 1942 میں گرڈا کے خاندان کو بیلسکو یہودی بستی سے جلاوطن کیا گيا۔ اُن کے والدین کو آشوٹز کیمپ میں بھیجا گیا جبکہ گرڈا کو گراس روزن کیمپ سسٹم میں بھیج دیا گیا جہاں اُنہوں نے جنگ کے باقی عرصے کے دوران ٹکسٹائل فیکٹریوں میں جبری مشقت کی۔ گرڈا کو موت کے ایک مارچ کے بعد آزاد کرایا گیا۔ وہ لمبے برفانی جوتے پہننے ہوئے تھیں جس کیلئے اُن کے والد کا اصرار تھا کہ وہ اُنہیں زندہ رہنے میں مدد دیں گے۔
بیلا سوزنوویک ميں رہنے والے ایک یہودی خاندان کے چار بچوں ميں سب سے بڑي تھی۔ اس کے والد ایک بنائی کی فیکٹری کے مالک تھے۔ جب 1939 میں جرمنوں نے پولینڈ پر حملہ کیا تو انہوں نے فیکٹری پر قبضہ کر لیا۔ خاندان کا سازوسامان ایک جرمن عورت کو دے دیا گیا۔ سن 1941 میں بیلا کو سوزنوویک کی یہودی بستی میں ایک فیکٹری مں کام کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ سن 1942 کے اختتام میں اس کے خاندان کو بیڈزن یہودی بستی میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ 1943 میں بیلا کو گراس روزن کے گرابن نامی ایک ذیلی کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا اور 1944 میں برجن بیلسن بھیج دیا گیا۔ اس کو اپریل 1945 میں آزاد کر دیا گیا۔
تھامس کا خاندان سن 1938 میں زیلینا چلا گیا۔ جب سلاوک ہلنکا گارڈ نے یہودیوں کو پریشان کرنا شروع کیا تو اس خاندان نے وہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ آخر میں تھامس اور اس کا خاندان پولینڈ چلے گئے۔ لیکن سن 1939 میں جرمنی کے حملے نے انہیں برطانیہ جانے سے روک دیا۔ اس خاندان کا سفر کیلچ میں ختم ہوا جہاں ایک یہودی بستی اپریل 1941 میں قائم ہوئی تھی۔ جب کیلچ بستی اگست سن 1942 میں خالی کرائی گئی تو تھامس اور اس کا خاندان ٹریبلنکا میں جلاوطنی سے بچ گیا۔ اس کے بجائے انھیں ایک جبری مشقت کے کیمپ میں بھیج دیا گيا۔ اس کو اور اس کے والدین کو اگست سن 1944 میں آش وٹز کیمپ میں بھیج دیا گيا۔ جیسے ہی سوویت فوجیوں نے جنوری سن 1945 میں پیش قدمی کی، تھامس اور دوسرے قیدیوں کو آش وٹز کیمپ سے موت مارچ کرنے پر مجبور کیا گيا۔ اس کو جرمنی میں سیخسین ھاؤسن کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ اپریل سن 1945 میں سوویت یونین کے سیخسین ھاؤسن کیمپ کو آزاد کرانے کے بعد تھامس کو ایک یتیم خانے میں رکھا گيا۔ رشتہ دار اس کو اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اپنی ماں سے دوبارہ گوٹنگن میں ملا۔ وہ سن 1951 میں امریکہ چلا گیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.