جنگ کے آخری مراحل کے دوران سوویت فوجیوں نے حراستی کیمپ کے قیدیوں کو آزاد کرانے میں پہل کی۔ 23 جولائی 1944 کو وہ پولینڈ کے مجدانیک کیمپ میں داخل ہوئے اور پھر اس کے بعد دوسرے کئی قتل کے مراکز پر قبضہ کرلیا۔ 27 جنوری 1945 کو وہ آش وٹز پہنچے اور وہاں انہیں سینکڑوں بیمار اور نڈھال ہوئے قیدی نظرآئے۔ کیمپ سے جلدی میں فرار ہونے کی وجہ سے جرمن ان قیدیوں کو کیمپیوں میں ہی چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کا سامان بھی پیچھے رہ گيا تھا: 348,820 مردانہ سوٹ، 836,255 زنانہ کوٹ اور ہزاروں جوتے۔

برطانوی، کینیڈين، امریکی اور فرانسیسی افواج نے بھی کیمپوں سے قیدیوں کو آزاد کرایا۔ امریکیوں نے بوخن والڈ اور ڈخاؤ کیمپوں کو آزاد کرایا جبکہ برطانوی فوج برجن-بیلسن میں داخل ہوگئے۔ اگرچہ جرمنوں نے زندہ بچنے والے قیدیوں کے کیمپ خالی کرکے اپنے جرائم کے تمام ثبوت مٹانے کی کوششیں کی تھیں، ایک امریکی فوجی کے مطابق اتحادیوں کو ہزاروں لاشیں "مقررہ پیمائش کے مطابق ناپی جانے والی لکڑی" کی طرح انبار میں لگی ہوئی ملیں۔ جو قیدی زندہ رہ گئے تھے، وہ بالکل ڈھانچوں کی طرح تھے۔

ایک امریکی فوجی صحافی بل بیرٹ نے ڈخاؤ کے متعلق بتایا: "ایک گندی سی ڈباگاڑی میں مردوں اور عورتوں کی تقریبا ایک درجن لاشیں تھیں۔ انہيں اتنے عرصے سے کھانا نہيں ملا تھا کہ ان کی کلائياں بالکل جھاڑو کے ڈنڈوں کی طرح ہوگئی تھیں جن پر پنجے لگے ہوں۔ انہيں جان بوجھ کر بھوکا مارا گیا تھا..”

اتحادی فوجیوں، ڈاکٹروں اور امدادی کارکنان نے زندہ بچنے والے قیدیوں کو غذائیت فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے کئی میں تو کھانا ہضم کرنے کی طاقت بھی نہيں تھی لہذا اُنہیں بچایا نہ جا سکا۔ آزاد کرانے والوں کی کوششوں کے باوجود کیمپ کے کئی قیدیوں کی موت واقع ہوگئی۔ آش وٹز میں زندہ ملنے والے آدھے قیدی رہا ہونے کے کچھ دنوں کے اندر اندر ہی انتقال کرگئے۔

زندہ پچنے والے افراد کے آزادی کے بارے میں ملے جلے جذبات تھے۔ کچھ اپنے بچھڑے ہوئے گھروالوں سے دوبارہ ملنے پر خوش تھے لیکن کچھ اپنے زندہ بچ جانے پر پشیمان تھے جبکہ ان کے اتنے رشتہ دار اور دوست نہ پچ سکے تھے۔ کچھ لوگ تو اپنے جذبات پر قابو بھی نہ پاسکے، جیسے زندہ پچنے والے ایک ماہر نفسیات وکٹر فرینکل نے کہا: "ہم نے ڈرتے ڈرتے ادھر ادھر دیکھا اور ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ پھر ہم کیمپ سے کچھ قدم باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دفعہ ہم پر کوئی نہيں چلا رہا تھا اور نہ ہمیں کسی کی مار یا لات سے بچنے کے لئے نیچے جھکنے کی ضرورت تھی۔ ہم ایک دوسرے سے لفظ 'آزادی' بولتے رہے لیکن ہم آزادی کی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔

اہم تواریخ

23 جولائی 1944
سوویت فوجوں نے مجدانیک کیمپ کو آزاد کرا لیا

سوویت فوجیں پولینڈ کے شہر لبلن کے قریب واقع مجدانیک کیمپ پر پہنچنے والی سب سے پہلی فوج تھی۔ تیزی سے پیش قدمی کرتی ہوئی سوویت فوجوں سے گھبرا کر جرمنوں نے اجتماعی قتل کے ثبوت مٹانے کی کوشش میں کیمپ کو تباہ کرنے کی کوششیں کی۔ کیمپ کے عملے نے مجدانیک کی لاشیں جلانے کی بھٹیوں کو آگ لگا دی لیکن عجلت میں کئے گئے اس اقدام کی وجہ سے گیس چیمبر موجود رہ گئے۔ سوویت فوجوں نے بعد میں اوش وٹز (جنوری 1945)، گروس روزن (فروری 1945)، سیخسین ھاؤسن (اپریل 1945)، ریوینزبرویک (اپریل 1945) اور شٹٹ ھوف (مئی 1945) میں آزاد کرائے۔

11 اپریل 1945
امریکی فوجوں نے بوخین والڈ کیمپ کو آزاد کرا لیا

امریکی فوجوں نے اپریل 1945 میں نازيوں کے کیمپ خالی کرانے کے کچھ ہی دن بعد وائمار، جرمنی کے قریب واقع بوخین والڈ حراستی کیمپ کو آزاد کرا لیا۔ آزادی کے دن قیدیوں کی ایک خفیہ مزاحمتی تنظیم نے فرار ہونے والے کیمپ کے محافظوں کے ظلم کو روکنے کے لئے بوخین والڈ پر قبضہ کرلیا تھا۔ امریکی فوجوں نے بوخین والڈ میں بیس ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کرایا۔ امریکی فوجوں نے ڈورا- مٹل باؤ (اپریل 1945)، فلوسین برگ (اپریل 1945)، ڈاخاؤ (اپریل 1945) اور ماؤتھ ھاؤسن (مئی 1945) کے مرکزی کیمپوں کو بھی آزاد کرا لیا۔

15 اپریل 1945
برطانوی فوجوں نے برگن- بیلس کیمپ کو آزاد کرا لیا

برطانوی فوجیں جرمنی میں سیلی کے قریب واقع برگین- بیلسن حراستی کیمپ میں داخل ہوگئے۔ ساٹھ ہزار کے قریب قیدی زندہ ملے جن میں سے بیشتر کی ٹائفائیڈ کی وباء کی وجہ سے حالت تشویشناک تھی۔ چند ہفتوں میں دس ہزار سے زائد افراد غذائیت کی کمی یا بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ برطانوی فوجوں نے شمالی جرمنی میں دوسرے کیمپوں کو بھی آزاد کرا لیا جن میں نوینگیم (اپریل 1945) بھی شامل تھا۔