پاؤلا لوڈز میں مقیم ایک یہودی مذہبی خاندان میں پیدا ہونے والے چار بچوں میں سے ایک تھی۔ لوڈز ایک بڑا صنعتی شہر ہے جہاں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ پاؤلا نے اپنے بچپن میں سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی اور وہ ہفتے میں تین دن گھر پر یہودی تعلیم کی ٹیوشن لیتی تھی۔ اُس کے والد ایک فرنیچر کی دکان کے مالک تھے۔
1933-39: میرے بھائیوں، بہنوں اور میں نے اپنے یہودی گروپ گارڈونیا کے کلب ھاؤس میں کافی وقت گزارا۔ ہمارا گروپ انسانی اقدار، یہودی شخصی مزدوری اور فلسطین میں یہودی مملکت کی تشکیل میں یقین رکھتا تھا۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے کام کرنا بہت پسند تھا۔ میں نے اون کی بنائی کی، کروشیا اور سلائی کا کام کیا۔ ستمبر 1939 میں جب میں سکنڈری اسکول میں تھی تو میری پڑھائی اُس وقت ختم ہو گئی جب جرمنی نے پولنڈ پر حملہ کردیا اور 8 ستمبر کو لوڈز پر قبضہ کر لیا۔
1940-44: 1940 کے اوائل میں ہمارے خاندان کو زبردستی لوڈز یہودی بستی یعنی گھیٹو میں منتقل کر دیا گيا جہاں ہم چھ افراد کو رہنے کیلئے صرف ایک کمرہ دیا گيا۔ خوراک بڑا مسئلہ تھی۔ میں خواتین کے کپڑوں کے جس کارخانے میں کام کرتی تھی وہاں مجھے کم از کم لنچ کیلئے کچھ سوپ مل جاتا تھا۔ لیکن ہمیں اپنے چھوٹے بھائی کے خوراک کی سخت ضرورت تھی جو بہت بیمار تھا اور جسے اندرونی طور پر خون رسنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اپنے کارخانے کی کھڑکی سے میں نے باہر آلوؤں کا کھیت دیکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر پکڑی گئی تو مجھے گولی مار دی جائے گی، میں ایک رات رینگتے ہوئے کھیت میں پہنچی اور زمین کھود کر جتنے ممکن تھے میں نے آلو اکٹھے کئے اور واپس گھر بھاگ آئی۔
1944 میں پاؤلا کو جرمنی کے شہر بریمن میں جبری مزدور کے طور پر منتقل کر دیا گیا۔ 1945 میں اُنہیں برگن بیلسن کیمپ میں آزاد کرا لیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ نقل مکانی کر کے امریکہ آ گئیں۔
آئٹم دیکھیںدو لڑکیوں میں سب سے بڑی اڈزیا ایک یہودی والدین کے ہاں پیدا ہوئی جو کالوس زن کے چھوٹے یہودی شہر میں رہتے تھے۔ یہ شہر وارسا سے 35 میل مشرق میں واقع ہے۔ اڈزیا کے والد ایک شراب کی دکان کے مالک تھے اور اس کی والدہ خاتون خانہ تھیں۔ اڈزیا کم عمر یہودی نوجوانوں کے ایک گروپ کی اچھی دوست تھی جو سب مل کر ایک سرکاری اسکول جاتے تھے اور اپنے بیشتر فارغ اوقات اور چھٹیاں ساتھ ساتھ گزارتے تھے۔
1933-39: عام طور پر میں موسم گرما کی خوشگوار شامیں اپنے دوستوں کے ساتھ گزارا کرتی تھی۔ ہم بڑے مزے سے سڑکوں پر گھومنا پسند کرتے تھے اور مٹھائیوں کی دوکان جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ہم تفریجی کھیل اور ڈومینو یا شطرنج کھیلنے کیلئے اسکول کی عمارت میں جایا کرتے تھے جو رات کو کھلی ہوتی تھی۔ مگر اب سب کو جنگ شروع ہو جانے کا خوف تھا۔ اسلئے سب گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ سرحد پر پولینڈ اور جرمنی کی فوجوں کے مابین جھڑپوں سے متعلق ہر روز نئی تازی خبریں ملا کرتی تھی۔
1940-42: جرمنوں نے کالوس زن پر قبضہ کرلیا۔ جرمنوں کے حکم کے تحت ہمارے قصبے کے ناظم نے ایک یہودی کونسل منتخب کی جس میں میرے والد اور میری دوست ماجلیچ کے والد شامل تھے۔ انہوں نے حفظان صحت کی کمیٹی میں کام کرنے کیلئے ماجلیچ، مجھے اور چند دوسرے نوجوانوں کو منتخب کیا۔ میرے بہت سے کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ عورتوں کو قصبے میں یہودیوں کیلئے باقی واحد غسل خانہ لے جایا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو صاف کرسکيں۔ ہم نے پہلے ہی سے جوؤں کے ذریعہ پھیلنے والے ٹائفائيڈ کے بہت سے کیس دیکھے تھے اور ہم اس جان لیوا مرض کو مذید پھیلنے سے روکنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
ستمبر 1942 میں اڈزیا کے والدین اور دیگر 3،000 یہودیوں کو حراستی کیمپ میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس دسمبر میں 22 سالہ اڈزیا کو بھی اسی کیمپ میں جلاوطن کیا گیا جہاں ان کا انتقال ہو گيا۔
آئٹم دیکھیںلیتھوانیا کا وہ گاؤں جہاں ڈیوڈ پلے بڑھے، لیٹویا کی سرحد کے قریب تھا۔ اُن کے والد ایک پھیری والے تھے۔ 6 سال کی عمر میں ڈیوڈ کو اکمرج بھیج دیا گیا۔ یہودی اِس قصبے کو اِس کے روسی نام ولکومیر کے حوالے سے جانتے تھے۔ ڈیوڈ کو وہاں کی یہودی اکادمی میں روایتی یہودی کتب کے مطالعے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ چھ سال کے بعد ڈیوڈ کو گھر واپس بلا لیا گیا تاکہ وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد سیلزنک خاندان کی سربراہی کا چارج سنبھالیں۔
1933-39: 1933 میں میں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا لہذا میں لیتھوانیا کو چھوڑ کر امریکہ چلا آیا اور پھر پرتگال چلا گيا۔ لیکن 1936 میں بالتک ریاستوں کو اسٹالن اور ہٹلر سے خطرہ تھا لہذا میں نے اپنی والدہ اور بہنوں کی مدد کیلئے واپس گھر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میری والدہ اور بہنیں کوونو شہر منتقل ہو چکی تھیں۔ ہمارے سامنے جنگ کا خطرہ تھا لیکن یہودی وہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔ اپنے کاروباری رابطوں کے ذریعے مجھے دفتری سامان کے ایک ریٹیل اسٹور میں ملازمت مل گئی۔
1940-44: 941 کے موسم گرما میں جرمنوں نے کوونو پر قبضہ کرلیا اور ہمیں زبردستی ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا۔ 1943 میں حالات زیادہ خراب ہوگئے۔ یہودی بستی یعنی گھیٹو میں یہودیوں کے قتل کے اقدامات مارچ 1944 میں بہت بڑھ گئے۔ میں نے کجھ یوکرینین اور لیتھوانین لوگوں کو نازیوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بچوں کو ایک عمارت کی سب سے اوپر والی منزل پر لے جاتے اور وہاں کھڑکی سے ان کو نیچے گارڈ کی طرف پھینک دیتے جو نیچے سڑک پر کھڑا ہوتا۔ گارڈ اُنہیں اُٹھاتا اور اُن کے سر اُس وقت تک دیوار سے ٹکراتا رہتا جب تک کہ وہ مر نہ جاتے۔
ڈیوڈ 1944 میں ایک گاڑی سے اُس وقت بھاگ نکلے جب وہ گھیٹو سے روانہ ہو رہی تھی۔ وہ تین ہفتوں تک ایک قریبی جنگل میں چھپے رہے یہانتک کہ وہ علاقہ آزاد ہو گیا۔ وہ 1949 میں نکل مکانی کر کے امریکہ چلے آئے۔
آئٹم دیکھیںدوسرے یہودیوں کی طرح لیونٹ خاندان کو بھی وارسا یہودی بستی میں قید کردیا گيا تھا۔ 1942 میں ابراھیم نے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر اپنی جان بچائی لیکن جرمن فوجیوں نے اس کی ماں اور بہنوں کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا۔ وہ ہلاک کردئے گئے۔ ابراھیم کو ایک قریبی مقام پر جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ لیکن وہ بچ کر اپنے والد کے پاس یہودی بستی میں چلا آیا۔ 1943 میں ان دونوں کو مجدانک بھجوا دیا گیا جہاں ابراھیم کے والد کا انتقال ہوگيا۔ بعد میں ابراھیم کو اسکارزسکو، بوخن والڈ، بیسنجن اور ڈاخو بھیج دیا گيا۔ جب جرمنوں نے کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء شروع کیا تو امریکی فوجیوں نے ابراھیم کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںسن 1939 میں گرڈا کے بھائی کو زبردستی مزدوری کے لئے جلاوطن کر دیا گیا۔ جون 1942 میں گرڈا کے خاندان کو بئیلسکو یہودی بستی سے جلاوطن کر دیا گيا جب کہ اس کے والدین کو آش وٹز میں بھجوا دیا گيا۔ گرڈا کو گراس روزن کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں اس نے جنگ کے باقی حصے کے دوران ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں جبری مشقت کی۔ گرڈا کو ایک موت مارچ کے بعد آزاد کرایا گیا۔ اپنے والد کے اصرار پر لمبے برفانی جوتے کے پہننے کے اقدام نے اس کو بچنے میں مدد دی۔ جس امریکی شخص نے اُسے آزاد کرانے میں مدد دی، اسی سے اُس کی شادی ہو گئی۔
آئٹم دیکھیںاپنی جوانی میں بینو نے فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرنے کیلئے غیر ملکی زبانوں میں اپنی مہارت کو استعمال کیا۔ اسے اور اس کے خاندان کو لوڈز کی یہودی بستی میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں ہر روز کھانا حاصل کرنے کے لئے شدید جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ اپنی خفیہ سرگرمیوں کے طور پر بینو نے ریل گاڑیوں کو پٹری سے اتارنے میں ہنرمندی حاصل کر لی تھی۔ اس کے خاندان کو اس سے جدا کر کے آش وٹز بھیج دیا گیا تھا۔ بینو اور اس کی ایک بہن کے سوا، جو اسے جنگ کے بعد ملی، خاندان کے تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ بینو متعدد کیمپوں سے زندہ بچ گیا اور بعد میں اس نے جنگی مجرموں کا سراغ لگانے میں مدد کی۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.