1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پیٹر بلیک ریاستہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ انصاف کے خصوصی تحقیقاتی شعبے میں جنگی مجرموں کا سراغ لگانے اور ان پر مقدمے دائر کرنے والی ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ بلیک نے بعد میں ریاستہائے متحدہ امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں ایک سینئر تاریخ دان کی حیثت سے خدمات انجام دیں۔
کتابی طور پر یہ قانون پہلے سے ہی موجود تھا کہ اگر امیگریشن اور بعد میں شہریت کیلئے درخواست گزاروں نے دانستہ طور پر اپنے ماضی سے متعلق غلط بیانی کی تو اُنہیں شہریت سے محروم کر کے جلاوطن کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت وہ اپنے امیگریشن سے قبل کی حالت میں واپس لوٹ جاتے، جو ایک ایلین یعنی غیر ملکی کی حیثیت تھی۔ اب جبکہ حقیقت معلوم ہو چکی تھی، وہ امریکہ میں داخلے کے لیے نا اہل ہو گئے تھے اور امریکہ میں موجود کسی نااہل غیر ملکی کو جلاوطنی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ امریکی امیگریشن قانون ۔۔ بعحض اوقات غلط وجوہات کی بنا پر ۔۔ بہت سخت ہے اور بہت مرتبہ استثناعی مراعات فراہم نہیں کرتا۔ اور یہ واضح فیصلہ کیا گیا کہ۔۔ یہ معلومات براہ راست مجھ سے متعلق نہیں ہیں ۔۔ یہ واضح فیصلہ کیا گیا کہ یہ امریکہ میں رہنے والے نازی مجرموں کے مسئلہ سے نمٹنے کا مناسب طریقہ کار ہوگا۔ میرے خیال میں ابتدائی طور پر توقع کی گئی کہ ان میں سے بہت سے افراد کے لیے وہ ممالک حوالگی کی درخواست کریں گے جہاں انھوں نے جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ اور حقیقتاً اس کی کچھ مثالیں بھی موجود ہیں۔ 50 کی دہائی کی ابتدا میں سابق کروئیٹ وزیر داخلہ آندریا ارتوکووچ کے لیے سابق یوگوسلاو حکومت کی جانب سے پُرزور درخواست کی گئی۔ اور 1972 میں مغربی جرمنی کی حکومت نے لانگ آئی لینڈ کی ایک گھریلو خاتون ہرمائن برانسٹینر رائن کی حوالگی کی درخواست کی اور اس میں کامیاب رہی۔ یہ خاتون لوبلن۔مجدانیک حرستی کیمپ میں کیمپ گارڈ تھی جس نے انصاف سے فرار اختیار کرتے ہوئے ایک امریکی فوجی سے شادی کر لی تھی اور امریکہ میں رہنے چلی آئی تھی۔ یہ خاتون ایک پرسکون پڑوسی کی حیثیت سے ایک عمدہ مثال تھی۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.