بین چار بچوں میں ایک تھا جو ایک مذہبی یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ جرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ وارسا پر جرمن قبضے کے بعد بین نے وہاں سے فرار کے بعد سوویت مقبوضہ مشرقی پولنڈ چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم جلد ہی اُنہوں نے اپنے خاندان کی طرف پھر وارسا واپسی کا فیصلہ کیا۔ اُن کا خاندان اُس وقت وارسا کی یہودی بستی میں رہتا تھا۔ بین کو یہودی بستی کے باہر کام پر لگا دیا گيا اور اس نے لوگوں کو یہودی بستی سے باہر اسمگل کرنے میں مدد کی-- جس میں ایک یہودی مزاحمت تنظیم کی رکن ولادکا (فجیلے) پیلٹل بھی شامل تھی جو بعد میں اس کی بیوی بنی۔ بعد میں وہ یہودی بستی سے باہر رو پوش ہو گيا اور اپنے آپ کو پولینڈ کا ایک غیریہودی باشندہ ظاہر کرنے لگا۔ 1943 میں رونما ہونے والی وارسا یہودی بستی کی بغاومت میں بین نے ایک خفیہ تنظیم کے کارکنوں کے ساتھ کام کیا تاکہ وہ بستی کے لڑنے والوں کو بچا سکے۔ وہ اُنہیں گندے نالوں کے ذریعہ باہر لاتے اور وارسا کے "آرین" حصہ میں ان کو چھپاتے۔ بغاوت کے بعد بین اپنے آپ کو غیریہودی ظاہر کرتا ہوا وارسا سے بچ کر نکل گيا۔ آزادی کے بعد وہ دوبارہ اپنے والد، والدہ اور اپنی چھوٹی بہن سے جا ملا۔
وارسا کے اوپر پورا آسمان سرخ تھا۔ مکمل طور پر سرخ۔ لیکن تمامتر یہودی بستی میں آگ اِس قدر شدید تھی کہ وہ پورے شہر کو روشن کئے ہوئے تھی۔ اگلا ہفتے پام اتوار تھا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ خفیہ جگہ پر مزید نہیں رہ سکا۔ میں اس پام اتوار کے دن باہر نکلا اور پلاک کرازنسکی کی طرف گيا جہاں ایک چرچ تھا۔ ایک بہت ہی پرانا چرچ۔ میں نے محسوس کیا کہ چرچ میرے چھپنے کیلئے سب سے محفوظ مقام ہے۔ میں اس چرچ میں داخل ہوا اور پادری کی تقریر میں شریک ہوگيا۔ اس نے اپنی تقریر میں ایک لفظ بھی ذکر نہیں کیا کہ لوگ سٹرکوں پر لڑرہے ہیں اور مررہے ہیں یا باہر آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اس آگ میں جل کر مررہے ہیں۔ میں ایک اچھے عیسائي کی طرح سارا خطبہ سنتا رہا۔ پولنڈ کی روایت ہے کہ خطبے کے بعد پادری چرچ کے باہر جاتا ہے اور کلیسائی حلقے کو مبارک باد دیتا ہے۔۔ شاید یہاں ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن پولینڈ میں یہ روایت بہت مضبوط ہے۔ اس نے پولینڈ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دی۔ سڑک پر چاروں طرف سرمستی ہورہی تھی۔ ناچ گانا پورے شباب پر تھا۔ لوگ اپنے بچوں کو اس سرمستی میں لے کر آئے۔ بچے اس خوشی کے موقع پر اچھے اچھے لباس پہنے ہوئے تھے۔ یہ پام اتوار تھی۔ یہاں موسیقی چل رہی تھی اور میں لوگوں کے اُس گروپ میں کھڑا ہوا دوسری طرف یہودی بستی کے جلنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ وقتا فوقتا ہم لوگوں کی چیخیں سنتے۔ "دیکھو۔ دیکھو۔ لوگ چھتوں سے کود رہے ہیں۔" دوسرے لوگ جملے کس رہے تھے "وہ دیکھو۔ یہودی بھنے جا رہے ہیں۔" یہ پولینڈ کی زبان سے براہ راست ترجمہ ہے۔ لیکن میں نے ہمدردی کے کوئی الفاظ نہیں سنے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں کچھ ایسے لوگ ہوں جو اس واقعے کو مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہوں۔ لیکن میں نے ان کو کچھ بھی کہتے نہیں سنا۔ میرے لئے یہ بہت ہی دل توڑنے والی بات تھی کہ میں بے یارومددگار کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں سب کچھ سن اور دیکھ رہا تھا اور میں احتجاج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ حتی کہ میں اپنے غصے کو بھی ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ بعض اوقات میں نے محسوس کیا کہ مجھے جسمانی طور پر کچھ کرنا چاہیئے چاپے مجھے اپنی زندگی سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونے پڑیں۔ مجھے چیخنا چاہیئے۔ لیکن میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں نہیں چیخا۔ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ میں صرف دکھ میں تڑپتا رہا۔ لیکن وہ منظر شاید پوری زندگی میری آنکھوں میں جما رہے گا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.